ماں توں ہیجلی ۔۔۔ ڈائن

عوامی جمہوریہ چین نے سنکیانگ کے علاقے میں “شدید قسم” کے اسلامی نام رکھنے پر پابندی عاید کردی ہے۔ دہشت پسندی پر قابو پانے کے لیے اٹھائے گئے اس قدم کے تحت جن بچوں کے نام ممنوعہ فہرست والے رکھے جائیں گے، ان کی رجسٹریشن نہیں کی جائے گی اور نتیجتاً وہ ریاست کی جانب سے ملنے والے تعلیمی اور معاشی فوائد سے محروم رہیں گے۔
اس حکم پر پاکستان میں مختلف طبقات تنقید کرتے نظر آرہے ہیں۔ ایک طبقہ تو وہ ہے جس کے سامنے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ظلم و ستم کا تذکرہ کیا جائے تو جھٹ سے کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں دخل نہ دینے کا مشورہ دیتا ہے یعنی سابق سوشلسٹ اور حالیہ کمرشل لبرل۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آنجہانی سوویت یونین کے دور میں یہ طبقہ مسلمانوں کے خلاف اس سے کہیں بڑے اقدامات کی حمایت کرتا رہا ہے لیکن اب چونکہ ان کی رشد و ہدایت کا سلسلہ قصرابیض سے وابستہ ہے، اس لیے چین کی مخالفت میں مسلمانوں کی محبت ان کے سینوں میں لہریں لے رہی ہے۔
دوسرا طبقہ جسے سنکیانگ کے مسلمانوں کا غم کھائے جا رہا ہے، وہ ہے جو ٹی ٹی پی، القاعدہ اور داعش سمیت ہر اس تنظیم کا فکری اتحادی ہے جو دہشت پسندی سے مسلمانوں کی جڑ کاٹ رہی ہے۔ حیرت انگیز طور پر ان تنظیموں کی پشت پر بھی پہلے طبقے کی طرح سٹار اینڈ سٹرائپس سے ڈھکے ڈالر یا پیٹرو ڈالر ہی ہیں۔
تیسرا طبقہ جو پرائی شادی میں عبداللہ بننے کا خواہشمند ہے، اسے ایک لحاظ سے ذہنی معذور کہا جا سکتا ہے۔ یہ بیچارے صرف ن لیگ کی مخالفت میں سی پیک کو برا بھلا کہتے چلے جا رہے ہیں جبکہ یہ منصوبہ پاکستان میں کسی بھی سیاسی قیادت کی موجودگی یا غیر موجودگی سے آزاد ہے۔ سی پیک پاکستان کے لیے فائدہ مند ہے یا ضرر رساں، یہ ایک الگ بحث ہے البتہ حقیقت یہ ہے کہ اس کا کریڈٹ ن لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں ہی لے رہی ہیں۔ اس طبقے کی جانب سے سنکیانگ کے مسلمانوں کی حمایت دراصل اپنے دل کا غبار نکالنے کے مترادف ہے حالانکہ یہ بیچارے Uyghur نسل کی معاشرت اور رسوم و رواج تو کیا، اس کا درست تلفظ بھی نہیں جانتے۔
یہاں اس بات کو سمجھنا ازحد ضروری ہے کہ چین کے اندر ہونے والے ہر واقعے کے خلاف امریکی اور مغربی میڈیا ایک منظم مہم چلاتے ہیں جس کے پس پشت ان کے طے شدہ مقاصد ہوتے ہیں لیکن ہمارے بہت سے سادہ لوح (حقیقتاً جاہل) لوگ پورے شدومد کے ساتھ اس کا حصہ بن جاتے ہیں۔ سنکیانگ کے مسلمان صدیوں سے اس علاقے میں رہتے چلے آرہے ہیں اور ان کے مسائل دنیا کے کسی دوسرے علاقے میں بسنے والے مسلمانوں سے کچھ مختلف نہیں۔ اس لیے بہتر یہی ہے ہم پنجابی محاورے کے مطابق ماں سے بڑھ کر محبت نہ دکھائیں اور اپنی ہمدردی کا رخ اپنے ملک کے لوگوں کی جانب رکھیں جنہیں ہماری زیادہ ضرورت ہے۔

Facebook Comments

ژاں سارتر
ہر شخص کے کہے یا لکھے گئے الفاظ ہی اس کا بہترین تعارف ہوتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply