سحر ہونے کو ہے

آ ج فیسبک پر برادر بلال حسن بھٹی کی تحریر نظر سے گزری جس خلوص اور خوبصورتی سے بلال نے اس معاشرتی ناسور کی نشاندہی کی جو بڑی تیزی سے ہمارے پاکستانی معاشرے میں جڑ پکڑ رہا ہے، وہ بلال کا ہی خاصہ ہے جس پربلال کی اس کاوش کو نہ سراہنا انتہا درجے کی بد دیانتی ہوگی ۔میرا تعلق اس نسل سے ہے جس نے نوے کی دہائی میں ہوش سنبھالا ۔یہ وہ دور ہے جس میں مذہبی انتہا پسندی اپنے بام عروج پر تھی ،سپاہ صحابہ اور سپاہ محمد جیسی تنظیمیں اپنے اپنے محاذ پر ڈٹی ہوئی تھیں، لاشے گرانے اور اپنے اپنے بھائی بندوں سے داد شجاعت وصول کرنے کا سلسلہ عروج پہ تھا، سپاہ صحابہ کاہر قاتل دیوبندیوں کے نزدیک ہیرو اور مجاہد تھا اور سپاہ محمد کا مقتول جہنمی دوسری طرف بھی حال کچھ مختلف نہ تھا،کسی طرف کا ایک مرتاوہ دوسری طرف کے دس نہ مارلیتا سکون نہ ملتا اور مرنے والا کون وہی عام آدمی جو یہ بھی نہ جانتا تھا کہ وہ کس جرم میں مارا گیا،ا ک موت ہی تو تھی جس کے نزدیک سب برابر تھے نہ کوئی سنی تھا نہ شیعہ ۔

ماحول کا اثر کہیے یا اس زہر کا اثر جو ہمارے ذہنوں میں بھر دیا گیا تھا، مجھے ایک شیعہ دوست نے بڑے خلوص سے کھانے کی دعوت دی جو نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے قبول کر لی مگر جس کراہیت سے میں نے کھانا کھایااور جس طرح اپنے حلقہ احباب اس کراہیت کا ذکر کر کے اپنے ایمان کی مضبوطی کی دلیل دی وہ آج خود میرے لئے کراہیت اور شرمندگی کا باعث ہے۔ وہی کھیل جو ہمارے بچپن اور جوانی میں کھیلا گیا اور جو نفرتوں کا بیج بویا گیا اس کا نتیجہ نوشتہ دیوار ہے اور وہی کھیل اب اپنی شکل میں تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ دوبارہ کھیلا جا رہا ہے، کہیں مذہبی انتہا پسندی اور کہیں پہ روشن خیالی کے نام پہ نفرتوں کا بازار گرم ہے۔ ہر ایک خود کو حق پر اور دوسرے کو باطل ثابت کرنے پر مصر ہےاور اعتدال کا راستہ اختیار کرنے پر کوئی بھی تیار نہیں ،بدقسمتی سے اس بیماری کا شکار بھی میرے وطن کا مستقبل ،میرا نوجوان ہے۔ میں نے کہیں پڑھا تھا اگر کسی قوم کے بوڑھے غلط رستے پر چل نکلیں تو اس قوم پر اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا اس قوم کے نوجوان کے بھٹکنے سے ہوتا ہے، اس قوم کی تقدیرمیں تباہی لکھ دی جاتی ہے۔ اس کے وسائل اس کے لئے مسائل بن جاتے ہیں۔ اس کے ایٹم بم بھی شب برات کے پٹا خوں سے زیادہ اہمیت کے حامل نہیں رہتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب بھی وقت ہے ہمیں ان ہر قسم کی شدت پسندیوں سے نکلنا ہو گا، اس کی نوعیت خواہ مذہبی ہو یا سیاسی ہمیں ان شعبدہ بازیوں کو سمجھنا ہو گا۔ ان رونگ نمبرز کے چنگل سے آزادی حاصل کرنی ہو گی۔ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنا ہو گا، اپنے حصے کا چراغ جلانا ہوگا، اور اس میں بھی کلیدی کردار ہمارے نوجوان کا ہے اور جب بلال اور اس جیسے کئی اور نوجوانوں سے ملتا ہوں ان کو پڑھتا ہوں تو یقین کریں ایک ہی بات ذہن میں آتی ہے کہ تاریکیوں کو اب طول نہیں سحر ہونے کو ہے۔

Facebook Comments

محمد رامش جاوىد
پڑھنے لکھنے کا شغف رکھنے والا درویش منش

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply