دہرئیے ہو جانے والے مسلمان۔۔۔ثنااللہ احسن

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب علم ہے کہ یہ اللہ کو ماننے والوں کے عقیدے کو نہیں بدل سکتے تو پھر اتنی عظیم الشان اکثریت سے بیر کیوں لینا؟
بقول ہندو حضرات کہ یہ مسئلے بڑے کٹے ہوتے ہیں۔
دوسرا یہ کہ ملحدین آخر کیوں اپنے نظریات کا پرچار کرتے ہیں۔ ایک مسلمان یا کسی بھی مزہب کو ماننے والا تو اس لئے دین کا پرچار کرتا ہے کہ بعد از مرگ اس کو اس کی جزا ملے گی۔ ملحدین میں تو ایسا کوئی  تصور نہیں تو پھر کس لئے اتنا اچھلتے ہیں اور کروڑوں افراد کی شدید ترین دل شکنی کرتے ہیں۔ ایک طرف سے محبت کا پرچار تو دوسری طرف مستقل اپنی احمقانہ سوچ اور باتوں سے کروڑوں انسانوں کی دلشکنی۔۔تیسرا یہ کہ ملحدین نے بھی زندگی کی کتنی خوشیاں پا لیں یا خدا پر ایمان نہ رکھ کر انہوں نے کونسی کائنات تسخیر کرلی؟

اگر کمیونزم ایسا جادو کا چراغ تھا تو سوویت یونین کیوں ٹوٹ گیا؟
کیوں صرف 80سال میں یہ بت زمین بوس ہوگیا کہ اس کا خالقین کے مجسمے کھینچ کھینچ کر گرا دئیے گئے؟

دراصل کسی مسلمان کا دہریت کی طرف مائل ہونا بذات خود ایک کچی اور نا سمجھ ذہنیت کی نشاندہی کرتا ہے جو معاشرے اور ماحول کی گھٹن کا ذمہ دار دین کو ٹھہراتے ہیں۔جبکہ اس کا ذمہ دار انسانوں کے بنائے گھٹیا اور ناقص قوانین اور نظام ہیں۔
ایک ساٹھ پینسٹھ سالہ بڑے میاں جو کہ مسلمان گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن دہریت کی جانب مائل ہیں مجھ سے بحث کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ ہم عقل والے اس جنت دوزخ کے بہکاوے میں نہیں آنے والے۔ سائنس ان سب کو نہیں مانتی۔ اور میں اس بڈھے کو دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ جنت دوزخ پر یقین رکھ کر یا نہ رکھ کر کیا یہ امر ہو جائے گا۔ دس پندرہ سال بعد یہ بھی مٹی میں چلا جائے گا۔ اس کی عقل اس کو کیا دے رہی ہے۔ سائنس کو خدا ماننے والے نےکونسا ایسا انجن بنا لیا جو بغیر کسی ایندھن کے چلتا ہے۔
کیا اس کو کھانے پینے میں ڈبل سواد آتا ہے یا یہ سب کچھ کرنے کے لئے آزاد ہے؟ کیا یہ اپنے جسمانی نظام پر قادر ہو گیا یا اللہ کو نہ مان کر اس کے گنجے سر پر بال دوبارہ اُگ آئے یا اس کی آنکھوں پر لگا نظر کا چشمہ ہٹ گیا؟ یا کیا اللہ کو نہ مان کر اس کے لبلبے نے دوبارہ سے انسولین بنانا شروع کردی ہے؟

ایک دہرئیے انجینیئر نے ایک ڈیم کی تعمیر کا تخمینہ لگایا کہ اگلے چھ ماہ میں مکمل ہو جائے گا۔ انتہائی  گہری کھدائی  ہوئی  اور لینٹر بچھا دیا گیا؟ لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اچانک ہی غیر متوقع بارشیں شروع ہوگئیں اور درجنوں فٹ کھدائی  میں پانی بھر گیا۔ تیز بارش نے بجلی کا نظام بھی درہم برہم کردیا۔ اب وہ مکمل ہونے کا وقت بجائے چھ ماہ کے نو ماہ ہوگیا۔ تو پھر اس کے اللہ پر ایمان نہ رکھنے سے کیا اللہ کی قدرت بھی ختم ہو گئی؟؟ سائنس تو ایک علم ہے جو مسمان ہندو عیسائی  ملحد کو یکساں نتائج دیتی ہے۔
اب تم اللہ کو مان کر اس سے مستفید ہو یا اللہ کو نہ مان کرِ۔۔ نہ سائنس کو فرق پڑتا ہے اور نہ اللہ کو۔۔ لیکن میرے چندا دلبر جانی تم کو ضرور فرق پڑتا ہے ، جس کو دیکھنےاور برتنے کے لئے کچھ زیادہ دیر نہیں۔۔۔ ہر ایک کو اس اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہی ہونا ہے اور اس دن فیصلہ ہو جائے گا۔

اگر کوئی  کافر کہے تو سمجھ میں آتا ہے لیکن جب ایک مسلمان یہ بات کرے کہ مسلمان بھی تو کعبہ میں لگے حجر اسود کو چومتے ہیں تو بات بالکل سمجھ نہیں آتی کہ ایک مسلمان جب بچپن سے عبادت کرتا ہے تو اس کا رخ ضرور کعبہ کی جانب ہوتا ہے لیکن اس کے وہم و خیال میں بھی یہ بات نہیں ہوتی کہ توبہ نعوز باللہ کعبہ اس کا خدا ہے اور وہ کعبے کو سجدہ کر رہا ہے یا خدا نخواستہ حجر اسود اس کی حاجت روائی  کرے گا۔ جب کوئی  ہندو کسی بت کے آگے جھکتا ہے تو اس کے دل و دماغ میں بھی اسی دیوی دیوتا کا خیال ہوتا ہے جس کی مورتی ہے اور وہ اسی سے حاجت روائی  کا طلبگار ہوتا ہے۔ اب زرا سوچ کر بتائیے کہ کیا کعبہ کے سامنے جھکتے وقت ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کعبہ خدا ہے یا ہمارے ذہن و قلب میں ذات باری تعالی ہوتی ہے۔ اگر مسلمان کعبے کو ہوجتا ہوتا تو گھر گھر کعبہ کے شبیہیں رکھ کر لوگ ان کو سجدہ کر رہے ہوتے۔۔۔

یہ تو بس امت کو ایک نکتے پر مجتمع کرنے کے کئے ایک سمت مقرر کردی گئی کہ ایک تنظیم پیدا ہو جیسا کہ اسلام کی ہر عبادت کا خاصہ ہے۔ اسی طرح حجر اسود کو جنت کا پتھر سمجھ کر اس سے عقیدت کا اظہار کیا جاتا ہے. کیا کبھی کسی مسلمان کے ذہن میں یہ خیال کبھی چھو کر بھی گیا ہوگا کہ یہ پتھر اس کا خدا ہے؟؟؟ کیا جب حجر اسود چرا لیا گیا تھا اور سات سال تک کعبہ بغیر اسود کے رہا تو کیا مسلمانوں نے نماز اور حج اور طواف کرنا بند کردیا تھا کہ اب تو خدا ہی موجود نہیں تو کس کو سجدہ کریں اور کس کی عبادت؟ اس کو ہندوؤں کے مشابہہ کہنا اب ایک انتہائی  گھسی پٹی اور فرسودہ بات ہو چکی ہے۔
اور جو مسلمان ایسی بات کرتا ہے معاف کیجئے گا وہ کبھی مسلمان تھا ہی نہیں۔ بجائے فلسفے اور مارکسزم اور دیگر اسی قبیل کے مضامین پڑھ کر خود کو انٹلیکچوئل اور عقل کل سمجھنے والے ذرا پہلے دین اسلام کو اس کی روح کے ساتھ سمجھ لیں۔ اس کے بعد دیگر مضامین پر طبع آزمائی  کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply