قیادت سے سوال

پانامہ کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان نے ایک موقع پر کہا کہ”اگر آرٹیکل 62 اور 63 لگ گئی تو سراج الحق صاحب پارلیمنٹ میں صرف آپ ہی بچیں گے” یہ الگ بات ہے اگلے ہی روز سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس واپس لےلیے ۔ سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس تو واپس لے لیے لیکن جو حق بات تھی وہ زبان سے نکل ہی گئی ۔ زبان سے نکلے ہوئے الفاظ واپس تو لیے جاسکتے ہیں لیکن ان کی گونج صدیوں تک سنائی دیتی ہے۔جیسا کہ پاناما کیس کا فیصلہ آچکا ہے اور فیصلے سے قبل تمام اسٹیک ہولڈرز نے کہا تھا کہ فیصلہ جو بھی ہوگا ہم تسلیم کریں گےلیکن تادم تحریر اپوزیشن سائیڈ فیصلے کو تسلیم کرتی ہوئی نظر نہیں آرہی۔ پیپلزپارٹی بھی تحریک انصاف کی دیکھا دیکھی سخت موقف اپناتی جارہی ہے اور یہ پیپلز پارٹی کی مجبوری بھی ہے ، پاناما کیس کی موجودہ صورتحال نے پیپلزپارٹی کے مردہ جسم میں جان سی ڈال دی اب وہ پنجاب میں نواز لیگ کو ٹف ٹائم دینے کے لئے منصوبہ بندی کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ پاناما کےمعاملے پر بات کرنا وقت ضائع کرنے کے سوا کچھ نہیں۔اصل معاملہ جماعت اسلامی کا ہے!
ایک طرف جماعت اسلامی پاناماکیس کی اہم فریق ہے اور دوسری طرف جماعت اسلامی کا ماضی و حال اس بات کا شاہد ہے کہ وہ دیگر معروف و مشہور سیاسی جماعتوں کی طرح قلابازں کھانے کی روایت بھی نہیں رکھتی۔ اس بناء پر جماعت اسلامی کی قیادت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عام انتخابات سے چند ماہ قبل اپنے فیصلے ماضی کے فیصلوں کے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے کرے۔یہ درست ہے کہ اتحاد بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں ۔ یہ بھی درست ہے کہ آج کا سیاسی مخالف کل کا اتحادی ہوسکتاہےاور آج کا اتحادی کل کا سیاسی مخالف ہوسکتا ہے ۔ جس سیاسی کلچر میں ہم بستے ہیں اس میں اصولوں کی بجائے مفادات کی سیاست کی جاتی ہےیہاں جائز اور ناجائز نام کی کوئی چیز نہیں ہے یہاں سودے ہوتے ہیں ، اپنے اپنے وزن کے مطابق اپنا اپنا حصہ وصول کیا جاتا ہے۔ سیاسی وابستگیاں پاجاموں کی طرح تبدیل ہوتی ہیں ۔ موقف دن رات کی طرح بدلتے ہیں ۔کسی کا سیاسی قد اس قابل نہیں جس کی کوئی عمدہ مثال دی جاسکے۔آج کے سیاسی منظر نامے پر تمام معروف سیاسی قیادت کسی نہ کسی حوالے سے بلاواسطہ یا بلواسطہ کرپشن میں ملوث تھی یا ہے ۔جماعت اسلامی “کرپشن فری پاکستان “مہم گزشتہ دوسالوں سے چلارہی ہے اور جماعت اسلامی تاریخی طور پر کرپٹ حکمرانوں اور سیاست دانوں کے خلاف ہمیشہ سے برسرپیکار رہی ہے تو کس فارمولے کے تحت جماعت اسلامی کی قیادت ایک طرف خورشیدشاہ اور اعتزاز احسن کے درمیان کھڑی ہوگی ؟تو دوسر ی طرف لال حویلی میں چائے پینے جائے گی؟ تو تیسری طرف گجرات کے چوہدریوں سے ہاتھ ملائے گی؟اسی کے ساتھ ساتھ جہانگیر ترین اور علیم خان کی آف شور کمپنوں پر آنکھیں بند کرکے عمران خان کا ساتھ دے گی؟؟

Facebook Comments

راجہ کاشف علی
سیاسی اور سماجی تجزیہ نگار، شعبہ تعلیم سے وابستہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply