قرب الٰہی کی انتہامعراج مصطفیﷺ۔۔حافظ کریم اللہ چشتی

تم ذات خداسے نہ جداہونہ خداہو، اللہ ہی کومعلوم ہے کیاجانیے کیاہو!
رجب المرجب اسلامی سال کا ساتواں مہینہ ہے یہ وہ مقدس مہینہ ہے جس کی ۷۲شب کو آقائے دوجہاں سرور کائنات فخرموجودات ﷺ کو معراج ہوئی اسی وجہ سے یہ رات شب معراج  کہلائی ۔ یہ مہینہ بڑی فضیلت والاہے اس مقدس مہینہ کے بارے میں حدیث مبارکہ میں آیاہے۔ رَجَبُ شَھْرُاللّٰہ ِوَشَعْبَانُ شَھْرِیْ وَرَمَضَانُ شَھْرُاُمَّتِیْرجب اللہ کامہینہ ہے اورشعبان میرامہینہ ہے اوررمضان میری امت کامہینہ ہے۔شب معراج انتہائی افضل اورمبارک رات ہے کیونکہ اس رات کی نسبت رسول اللہ ﷺ کے معراج سے ہے شب معراج سے مرادیہ ہے کہ رات کے کچھ حصے میں حضور ﷺمسجدحرام یعنی خانہ کعبہ سے مسجداقصیٰ تک تشریف لے گئے۔راستے میں مختلف عجائبات الٰہیہ کامشاہدہ کیا، وہاں انبیائے کرام علہیم السّلام کے اجتماع کونماز پڑھائی۔پھروہاں سے آسمانوں کی سیرکرتے ہوئے سدرۃ المنتہیٰ تک گئے وہاں سے ذات باری تک تشریف لے گئے وہاں پراللہ تعالیٰ کادیدارہوااور لاتعداد عنایتوں سے سرفرازہوکرواپس تشریف لائے۔

اس واقعہ کاثبوت ہمیں قرآن پاک سے ملتاہے۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

سُبْحٰنَ الََّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِالْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِالْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَکْنَاحَوْلَہ‘ لِنُرِیَہ‘ مِنْ اٰیٰتِنٰا ط

پاکی ہے اسے جواپنے بندے(محمد ﷺ) کوراتوں رات لے گیامسجدحرام سے مسجداقصٰی تک جسکے اردگردہم نے (دینی ودنیوی)برکت دے رکھی ہے کہ اسے ہم (ملکوت سماوات وارض کی)اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں۔(بنی اسرائیل پارہ ۵۱آیت نمبر۱)

اللہ رب العزت نے سفرمعراج کولفظ سُبْحٰن کیساتھ بیان کیاکہ پاک ہے وہ ذات جواپنے محبوب ﷺاورمقرب بندے کوسفرِمعراج پرلے گئی عربی زبان اور محاورہ عرب میں جب کوئی بات سُبْحٰن سے شروع کی جائے تواس سے مرادایک طرح کی قسم لیتے ہیں پس اللہ تعالیٰ نے بھی حضور ﷺکے معجزہ معراج کاذکراپنی بزرگی،برتری اورشان صمدیت کی قسم کھاکرکیا۔

سوال پیداہوتاہے کہ اللہ کوسُبْحٰن الذی سے سفرمعراج کوبیان کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟اللہ پاک کے کلام میں کسی مسلمان کوشک وشبہ ہونہیں سکتااورکفارومنکرین پراللہ کی قسم کھانے یانہ کھانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کی پہلی حکمت ووجہ یہ تھی کہ واقعہ معراج ایک عظیم اورنادرالوجودمعجزہ ہے اللہ پاک نے اس واقعہ کواپنی بزرگی کے اظہارکے ساتھ شروع کرکے معترضین کے اس اعتراض کوردکیاکہ واقعہ معراج حالت ِ خواب میں رونماہوانہ کہ حالتِ بیداری میں اگرمعراج حالت خواب میں ہوتاتورب کریم کبھی اس کاذکرقسم کھاکرنہ کرتاقسم کھاکرواقعہ معراج کوبیان کرنے کاواحدمقصدیہ ہے کہ معراج نبی کریم ﷺکوحالتِ خواب میں نہیں بلکہ عالم بیداری میں ہوئی تھی اگراس واقعہ کاتعلق خواب سے ہوتاتوعالم بالاعرش الٰہی،جنت ودوزخ،فرشتوں،جبرائیلؑ اورآسمان کی زیارتیں انبیاء کرامؑ اوراولیاء کرامؒ کواکثرعالم خواب میں ہوتی رہتی ہیں

اس صورت میں معراج اتناعجیب اورعظیم واقعہ نہ ہوتاکہ جس کوقسم کھاکربیان کرنے کی ضرورت ہوپس سُبْحٰن الَّذِیْ سے اس سفرمعراج کے بیان کاشروع ہونااس بات پردلالت کرتاہے کہ معراج عالم خواب کاواقعہ نہیں بلکہ عالم بیداری کاواقعہ ہے اس کی دوسری حکمت لفظ سُبْحٰنسے شروع کرنے کی یہ ہے کہ جب آقا ﷺنے اپنے سفرمعراج کوبیان کیاتوکفارنے اس کوتسلیم کرنے سے انکارکردیااورکہنے لگے یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص راتوں رات مسجدحرام سے مسجداقصیٰ تک اورپھروہاں سے آسمان اورفوق السموٰت جاسکے یہ ساراایک رات میں ممکن نہیں،

اللہ پاک نے فرمایااے اعتراض کرنے والو!میرے نبی نے تویہ کہاہی نہیں کہ میں گیابلکہ یہ تومیں کہہ رہاہوں سُبْحٰن الَّذِیْ اَسْرٰی میں لے گیاآقا ﷺنے تودعویٰ کیاہی نہیں دعویٰ تواللہ پاک کررہاہے کہ میں لے گیاپس معراج کاعالم بیداری میں ہونے کاانکارکرنے والے اصل میں دعوٰی مصطفی ﷺکونہیں بلکہ دعوٰی خداکوجھٹلارہے ہیں پس جومصطفی ﷺکی بیداری میں معراج کاانکارکررہاہے وہ انکارمصطفی ﷺنہیں بلکہ انکارخداکررہاہے۔ یہ اللہ پاک کی اپنے نبی کریم ﷺسے محبت ہے کہ اس نے نبی کریم ﷺکودشمنوں کے طعنے سے بچانے کے لیے ایک طرف کردیااورخوداپنی ذات کوآگے کردیاکہ میں لے گیااگرکسی نے اعتراض کرناہے تومیری طاقت اورقدرت کاانکارکرے پس عالم بیداری میں معراج کاانکارکرناعظمت مصطفی ﷺکاانکارنہیں بلکہ قدرت الٰہیہ کاانکارہے اس لئے اللہ نے اسے لفظ سُبْحٰنسے شروع کیا۔

معراج کاسفرتین مرحلوں میں ہے مسجدحرام سے مسجداقصیٰ تک عالم ناسوت کاسفراس کو “وہ” کہہ کربیان کیاآسمانوں اورسدرۃ المنتہیٰ تک عالم لاہوت اورجبروت کے سفرکو”ہم”کہہ کربیان کیااورسدرۃ المنتہیٰ کے بعدکاسفرجب براق بھی رہ گیارفرف آیاوہ بھی رہ گیااورپھربقعہ نورآیابالآخروہ بھی رہ گیااورپھروہ مقام آیاکہ جب کچھ بھی نہ تھاصرف وہ اللہ پاک تھااوریہ محمد ﷺتھاصرف خداتھااور مصطفی ﷺتھااور کچھ نہ تھاوہاں تجریدوتفریق کی طرف آگئے وہاں کوئی اورسننے والانہ تھاوہ بولتاتھایہ سنتاتھاوہاں کوئی اوردیکھنے والابھی نہ تھاوہ دیکھتاتھاتویہ دکھائی دیتاتھااوریہ دیکھتاتھاتووہ دکھائی دیتاتھاجلوہ خداتھااورنگاہ مصطفی ﷺتھی اوراسی طرح جلوہ مصطفی ﷺتھااورنگاہ خداتھی اس سفرکو”انہ ھوالسمیع البصیر”کے ذریعے بیان کیا کہ اورصرف وہی سننے والااوردیکھنے والاہے ایک اشارہ اپنی طرف کردیااورایک اشارہ اپنے محبوب ﷺکی طرف کردیا۔

ارشادباری تعالیٰ ہے۔ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْاَدْنٰی۔ فَاَوْحٰیٓ اِلٰی عَبْدِہٖ مَآاَوْحٰی۔مَاکَذَبَ الْفُوءَ ادُمَارَاٰی۔اَفَتُمٰرُوْنَہ‘ عَلٰی مَایَرٰی وَلَقَدْرَاٰہُ نَزْلَۃَََََََََاُخْرٰیپھروہ جلوہ حق (اپنے حبیب) کے قریب ہواپھرخوب اترآیا(زیادہ قریب ہوا)تواس جلوے اوراس محبوب میں دوہاتھ بلکہ اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیااب اللہ نے اپنے بندے کوبلاواسطہ وحی فرمائی جوبھی وحی فرمائی دل نے نہ جھٹلایاجو(آنکھ نے) دیکھاتو(اے مشرکو)کیاتم ان سے ان کے دیکھے ہوئے پرجھگڑتے ہواورانہوں نے تووہ جلوہ حق دوباردیکھا۔(پارہ۷۲ سورۃ النجم8,13)مَازَاغَ الْبَصَرُوَمَاطَغٰی لَقَدْرَاٰی مِنْ اٰیٰتِ رَبِّہٖ الْکُبْرٰی۔(جلوہ حق سے) آنکھ نہ کسی طرف پھری نہ حدسے بڑھی بے شک آپ نے اپنے رب کی بہت بڑی نشانیاں دیکھیں۔(پارہ۷۲ سورۃ النجم17,20)۔

حضرت انس بن مالک،حضرت مالک بن صعصہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے صحابہ کرام سے اس رات کی کیفیت بیان فرمائی جس میں آپ ﷺ کو معراج ہوئی آقا ﷺ نے ارشادفرمایاکہ میں حطیم کعبہ میں لیٹاہوا تھاکہ یکایک میرے پاس ایک آنے والا آیااور اس نے میرا (سینہ) یہاں سے لیکریہاں تک چاک کرڈالا(راوی کہتاہے یعنی حلقوم سے لیکرزیرناف تک)پھراس نے میرادل نکالابعدازاں میرے پاس ایک سونے کاطشت لایاگیاجوایمان سے بھرا ہواتھااور میرادل دھویاگیا۔پھروہ ایمان وحکمت سے لبریزہوگیااس قلب کوسینہ اقدس میں اسی جگہ پررکھ دیاگیا اسکے بعدمیرے پاس ایک جانورسوار ہونے کے لئے لایا گیاجوخچرسے چھوٹااورگدھے سے بڑاتھاسفیدرنگ کاتھاراوی کہتاہے کہ براق تھا اوروہ اپناقدم منتہائے نظرتک رکھتاتھامیں اس پرسوار ہواپھر جبرائیل ؑ ﷺ لے چلے یہاں تک آسمان دنیاپرپہنچے۔اورانہوں نے اسکادروازہ کھٹکھٹایا۔پوچھاگیاکون ہے؟

انہوں نے کہاجبرائیل ؑ پوچھاگیاتمہارے ہمراہ کون ہے؟انہوں نے کہا محمد ﷺپوچھاگیاوہ بلائے گئے ہیں؟کہاہاں جواب ملا،انہیں خوش آمدیدہو ان کاآنابہت اچھاہے۔پھروہ دروازہ کھول دیاگیا جب میں وہاں پہنچاتوحضرت آدم ؑ ملے۔ اورجبرائیل ؑنے بتایاکہ یہ آپ کے باپ حضرت آدم ؑ ہیں آپ انہیں سلام کیجیے میں نے سلام کیاتوانہوں نے سلام کاجواب دیااور کہاخوش آمدیدہوصالح فرزند اورصالح نبی کوپھرجبرائیل ؑ میرے ہمراہ اوپرچڑھے یہاں تک کہ دوسرے آسمان پرپہنچے اورانہوں نے اس کادروازہ کھٹکھٹایا پوچھا گیاکون ہے؟انہوں نے کہاجبرائیل ؑ پوچھاگیا تمہارے ہمراہ کون ہے؟انہوں نے کہا محمد ﷺ؟ پوچھاگیاکیاوہ بلائے گئے ہیں؟

انہوں نے کہاہاں۔ اس (دوسرے آسمان)کے دربان نے کہاخوش آمدیدہو انکاآنابہت اچھااورمبارک ہے اوردروازہ کھول دیاجب میں وہاں پہنچاتوحضرت یحییٰ اورحضرت عیسیٰ ؑ ملے اور وہ دونوں خالہ زادبھائی تھے جبرائیل ؑ نے کہایہ حضرت یحییٰ اورعیسی علیہم السلا م ہیں انکو سلام کیجیے۔میں نے انہیں سلام کیاان دونوں نے سلام کاجواب دیااورکہاخوش آمدیدہوصالح بھائی اور صالح نبی کوپھر جبرائیل ؑمجھے تیسرے آسمان پرلے گئے اوراسکادروازہ کھلوایاتوپوچھاگیاکون؟ انہوں نے کہاجبرائیل ؑ!دریافت کیاگیاتمہارے ساتھ کون ہے؟

انہوں نے بتایاکہ محمد ﷺ! پھردریافت کیاگیاوہ بلائے گئے ہیں جبرائیل ؑ نے کہاہاں!اسکے جواب میں کہاگیاانہیں خوش آمدیدہوان کاآنابہت ہی اچھااورنہایت مبارک ہے اوردروازہ کھول دیاگیا۔ پھرجب میں وہاں پہنچاتوحضرت یوسف ؑ ملے جبرائیل ؑ نے کہایہ حضرت یوسف ؑ ہیں انہیں سلام کیجیے میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے سلام کاجواب دیاپھرانہوں نے کہاخوش آمدیدہوصالح بھائی اورصالح نبی کواسکے بعدجبرائیل ؑ چوتھے آسمان پرمجھے لے گئے اوراسکا دروازہ کھلوایاپوچھاگیاکون انہوں نے کہاجبرائیل ؑ!پوچھاگیاکون ہے تمہارے ہمراہ کون ہے؟

انہوں نے کہامحمد ﷺ!پوچھاگیاکیاوہ بلائے گئے ہیں؟ جبرائیل ؑ نے کہاہاں؟اس کے جواب میں کہاگیاانہیں خوش آمدیدہوانکاآنابہت ہی اچھااورمبارک ہے! اوردروازہ کھول دیاجب میں وہاں پہنچاتو حضرت ادریس ؑ ملے جبرائیل ؑ نے کہایہ حضرت ادریس ؑ ہیں انکوسلام کیجیے میں نے انکوسلام کیاتوانہوں نے سلام کاجواب دے کرکہاخوش آمدیدہو صالح بھائی اورصالح نبی کو!پھرجبرائیل ؑ مجھے پانچویں آسمان پرلے چڑھے اوردروازہ کھٹکھٹایاپوچھاگیاکون ہے؟

انہوں نے کہاجبرائیل ؑ پوچھاگیا تمہارے ہمراہ کون ہے؟انہوں نے کہامحمد ﷺ۔پوچھاگیاوہ بلائے گئے ہیں انہوں نے کہاہاں!اس نے کہاخوش آمدیدہوانکاآنابہت ہی اچھااور مبارک ہے (پس دروازہ کھلنے پر)جب میں وہاں پہنچاتوحضرت ہارون ؑ ملے جبرائیل ؑ نے کہایہ حضرت ہارون ؑ ہیں انہیں سلام کیجیے میں نے انکوسلام کیاتو انہوں نے سلام کاجواب دے کرکہا خو ش آمدیدہو صالح بھائی اورصالح نبی کوپھرجبرائیل ؑ مجھے چھٹے آسمان تک لے پہنچے اوراسکادروازہ کھلوایا!تو پوچھاگیاکون ہے؟

انہوں نے کہاجبرائیل ؑ پوچھاگیا تمہارے ہمراہ کون ہے؟انہوں نے کہامحمد ﷺپوچھاگیاکیاوہ بلائے گئے ہیں؟انہوں نے کہا ہاں اس فرشتے نے کہاخوش آمدیدانکاآنانہایت ہی اچھااورمبارک ہے جب میں وہاں پہنچاتوحضرت موسیٰؑ ملے جبرائیل ؑ نے کہایہ حضرت موسیٰؑ ہیں ان کوسلام کیجیے میں نے انکوسلام کیااورانہوں نے بھی سلام کاجواب دیااورکہاخوش آمدیدصالح بھائی اورصالح نبی کوجب میں آگے بڑھاتووہ رونے لگے پوچھاگیاآپؑ کوکیاچیزرلارہی ہے؟

انہوں نے کہامیں اس لئے روتاہوں کہ میرے بعدایک فرزندنبی بنائے گئے جسکی امت کے لوگ میری امت سے زیادہ جنت میں داخل ہونگے۔پھرجبرائیل ؑ مجھے ساتویں آسمان پرلے گئے اوراسکادروازہ کھٹکھٹایا توپوچھا گیا کون ہے انہوں نے کہاجبرائیل ؑ پوچھاگیاتمہارے ہمراہ کون ہے انہوں نے کہامحمد ﷺ۔وہ بلائے گئے ہیں انہوں نے کہاہاں اس فرشتے نے کہاخوش آمدیدانکا آنابہت ہی اچھااورمبارک ہے پھرمیں جب وہاں پہنچاتوحضرت ابراہیم ؑ ملے جبرائیل ؑ نے کہایہ آپ کے والدحضرت ابراہیم ؑہیں انکوسلام کیجیے پس میں نے انکوسلام کیاانہوں نے سلام کاجواب دیااورکہاخوش آمدیدصالح فرزنداورصالح نبی پھرمیں سدرۃ المنتہیٰ تک اٹھایاگیاتواس(درخت) سدرۃ کے پھل مقام ہجر کے مٹکوں کیطرح تھے اور اسکے پتے ہاتھی کے کانوں جیسے تھے جبرائیل ؑ نے کہایہ سدرۃ المنتہیٰ ہے اوروہاں چارنہریں تھیں دوپوشیدہ دوظاہر میں نے پوچھااے جبرائیل ؑ یہ نہرکیسی ہیں؟

انہوں نے کہاان میں جوپوشیدہ ہیں وہ توجنت کی نہریں ہیں اورجوظاہرہیں وہ نیل وفرات ہیں پھربیت المعمور میرے سامنے ظاہرکیا گیااسکے بعدمجھے ایک برتن شراب کا ایک دودھ کااورایک برتن شہدکادیاگیامیں نے دودھ کوقبول کیاجبرائیل ؑ نے کہایہ فطرت (دینِ اسلام) ہے جس پر آپ ﷺاور آپکی امت اس پرقائم رہیں گے اسکے بعد مجھ پرہرروزپچاس نمازیں فرض کی گئیں جب میں واپس ہواتو حضرت موسیٰ ؑپرگزرہواآپؑ نے کہاآپکی امت پچاس نمازیں روزانہ نہ پڑھ سکے گی۔

خداکی قسم!میں آپ سے پہلے لوگوں کاتجربہ کرچکاہوں اور بنی اسرائیل کے ساتھ میں نے سخت برتاؤکیاہے لہذاآپ اپنے رب کے پاس لوٹ جائیے اوراپنی امت کے لئے تخفیف کی درخواست کیجیے چنانچہ میں پھر اپنے رب کے پاس لوٹااوراللہ تعالیٰ نے مجھے دس نمازیں معاف فرمادیں پھرمیں حضرت موسیٰ ؑکے پاس آیاانہوں نے پھراسی طرح کہامیں پھر اپنے رب کے پاس واپس گیااوراللہ تعالی نے مجھے پھردس نمازیں معا ف کردیں۔ پھرحضرت موسیٰ ؑکے پاس آیاانہوں نے پھراسی طرح کہامیں پھرخداکے پاس واپس گیاتومجھے ہرروزپانچ نمازوں کاحکم دیاگیاپھرمیں حضرت موسیٰؑ کے پاس لوٹ کے آیاتوانہوں نے پوچھاکہ آپکوکیاحکم ملامیں نے کہاروزانہ پانچ نمازوں کاحکم ملاہے۔

انہوں نے کہاآپکی امت پانچ نمازیں بھی نہیں پڑھ سکے گی میں نے آپ سے پہلے لوگوں کاتجربہ کیاہے ا وربنی اسرائیل سے سخت برتاؤکرچکاہوں لہذاپھرآپ اپنے رب کی بارگاہ ئمیں جائیے اوراپنی امت کے لئے تخفیف کی درخواست کیجیے۔حضور ﷺ نے فرمایاکہ میں نے اپنے رب تعالیٰ سے اتنے سوال کرلئے کہ اب شرم کرتاہوں لہذااب میں راضی ہوں اوراپنے رب کے حکم کوتسلیم کرتاہوں حضور ﷺ نے فرمایامیں آگے بڑھا توایک پکارنے والے نے آوازدی کہ میں نے اپناحکم جاری کردیااوراپنے بندوں سے تخفیف فرمادی۔ (بخاری،مسلم شریف)

آج لوگ مقام مصطفی ﷺکے بارے میں جھگڑاکرتے ہیں کوئی انہیں مقام بشریت تک محدودرکھتاہے کوئی انہیں صرف نورکہتاہے۔ مصطفی ﷺکے مقام کوفقط بشریت تک محدودکرنے والوسنو!کہ بشریت تومسجداقصیٰ تک رہ گئی۔آقا ﷺآگے چلے گئے اس سے معلوم ہواکہ بشریت،مصطفی ﷺکی شانوں میں سے ایک شان ہے مقام نہیں ہے اگرآقا ﷺکامقام صرف بشریت ہوتاتومسجداقصیٰ سے آگے نہ جاسکتے بشریت مصطفی ﷺکامقام نہیں بلکہ بشریت کامقام آقا ﷺکے قدموں میں ہے۔مقام مصطفی ﷺکوفقط نورانیت میں بندرکھنے والو!دیکھوجبرائیل اوربراق جونورہیں وہ سدرۃ المنتہیٰ پررہ گئے اورآقا ﷺآگے چلے گئے اگرآقا ﷺکامقام فقط نورانیت ہوتاتوسدرۃ المنتہیٰ سے آگے نہ جاسکتے۔

پس بشریت بھی مصطفی ﷺکی ایک شان اورنورانیت بھی مصطفی ﷺکی ایک شان ہے۔بشریت مسجداقصیٰ میں رہ گئی اورنورانیت سدرۃ المنتہیٰ پررہ گئی مصطفی ﷺآگے چلے گئے معلوم ہوا یہ شانیں تھیں مقام اس سے اوپرہے۔بشریت بھی حق ہے اس کاانکارکرناکفرہے اورحق اتنی ہے کہ مسجد اقصیٰ میں رہ گئی نورانیت بھی حق ہے اوربشریت سے بہت آگے ہے اس کاانکارکرناگمراہی اور بدبختی ہے اورحق اتنی ہے کہ سدرۃ المنتہیٰ پرکھڑی ہے مقام مصطفی ﷺبشریت سے بھی بلندہے اور نورانیت سے بھی بلندہے بشربھی آقا ﷺسے فیض لیتاہے نوربھی مصطفی ﷺسے فیض لیتاہے آگے رفرف آیامگرایک مقام پرجب اللہ تعالیٰ کی تجلیات بے حد ہوگئیں تورفرف بھی رہ گیاپھربقعہ نورآیاایک مقام پربقعہ نوربھی رہ گیااورپھرایک مقام ایساآیاکہ اورکوئی وہاں نہ جاسکابس ادھرخداتھاادھر مصطفی ﷺ تھے اللہ نے فرمایاثُمَّ دَنَافَتَدَلّٰیمرادجبرائیلؑ کاقریب ہونانہیں بلکہ صحیح بخاری میں ہے۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ دنی الجباررب العزت فتدلیٰ “اللہ پاک قریب ہوا”جن لوگوں کے ذہنوں میں یہ غلط خیال ہے نکال دوکہ جبرائیل ؑقریب ہوئے جبرائیلؑ تووہ ہیں جوآقا ﷺکے نواسوں کے جھولے جھولاتے ہیں اسکی ایک اورتفسیرامام جعفرصادق نے کی فرمایاثم دنی ای دنی محمدفتدلیٰ “کہ محمد ﷺاللہ کے قریب ہوئے دونوں تفاسیرحق ہیں وہ محمد ﷺ کے قریب ہوااوریہ خداکے قریب ہوئے۔پھرایک مقام آیاکہ آوازآئی اے حبیب آپ رک جائیں حرم کعبہ سے یہاں تک آپ آئے ہیں اب آپ رک جائیں اب آگے بڑھ کرمیں آتاہوں۔امام عبدالوہاب شعرانی نے الیواقیت الجواہرمیں اوردیگرعرفاء واولیاء نے بیان کیاہے کہ اللہ پاک نے آوازدی قف یامحمدان ربک یصلی اے محمد ﷺرک جائیں آپ کارب آپ پرصلوٰۃ پڑھ رہاہے۔

معراج کی رات اللہ رب العزت نے اپنے حبیب ﷺکااستقبال درودسلام سے کیاصلیٰ کاایک معنی قریب ہوتاہے معنی ہوگااے حبیب رک جائیے اب آپ کارب خودآپ کے قریب آتاہے اس استقبال کے بعدقربتیں شروع ہوگئیں۔پس اللہ پاک کے اخلاق کے رنگ مصطفی ﷺکے خلق پرچڑھ گئے اس مقام پراسماء مصطفی ﷺافعال مصطفی ﷺاورصفات مصطفی ﷺپراللہ کے اسماء،افعال اورصفات کارنگ چڑھ چکاتھاجب سارے رنگ چڑھ گئے توفرمایااب حبیب صرف تیری ذات رہ گئی۔ ارشادفرمایااوادنیٰ خدانے اس مقام پراپنی ذات کارنگ بھی مصطفی ﷺکی ذات پرچڑھا دیااللہ کے اسماء کے رنگ،اسماء مصطفی ﷺپر چڑھنا یہ اسماء مصطفی ﷺکی معراج تھی اللہ کے افعال کارنگ افعال مصطفی ﷺپرچڑھنایہ افعال مصطفی ﷺکی معراج تھی۔اللہ پاک کی صفات کارنگ،صفات مصطفی ﷺپرچڑھنایہ صفات مصطفی ﷺکی معراج تھی اوربالآخرذات خداکارنگ ذات مصطفی ﷺپرچڑھناذات مصطفی ﷺکا معراج تھا۔دل بھی دیکھتارہا آنکھیں بھی دیکھتی رہیں اورآنکھوں نے ایسادیکھاکہ نہ حدسے گزریں اورنہ جھپکیں اسی اثناء میں کتنارنگ چڑھ گیاہوگااس بارے میں صرف اتناہی کہاجاسکتاہے۔

تم ذات خداسے نہ جداہونہ خداہو اللہ ہی کومعلوم ہے کیاجانیے کیاہو۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

بعض کتب تفاسیرمیں روایات کے ذریعے اس امرکی تصریح کی گئی ہے کہ واپسی پربھی حضور ﷺکی خدمت اقدس میں براق پیش کیاگیااسکے ذریعے آپ ﷺواپس مکہ تشریف لائے جیسے جاتے ہوئے ہرآسمان پرایک برگزیدہ نبی اورملائکہ کے ساتھ ملاقات کامفصل ذکرآتاہے ایسے ہی واپسی پرتفصیلی ملاقاتوں کاذکرموجودنہیں لہذاواپسی کی تفصیلات اورجزئیات اللہ اوراس کے رسول ﷺکوہی معلوم ہیں۔غرضیکہ آقائے نامدار ﷺبراق پرمکہ معظمہ واپس تشریف لے آئے اورصحن حرم میں لیٹ گئے پھرتہجدکے وقت اٹھے حدیث پاک میں آتاہے۔(ملاء اعلیٰ اورملکوتی مشاہدہ سے واردشدہ استغراق کی کیفیت سے)واپس پلٹاتومسجدحرام میں تھا۔
اللہ پاک ہم سب کو آقا ﷺکی سچی محبت اورپکی غلامی نصیب فرمائے تاکہ بروزقیامت ہم محبوب ﷺکی شفاعت اوراللہ پاک کی جنت کے حقداربن جائیں۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیک یامحمدﷺ!

Facebook Comments

حافظ کریم اللہ چشتی پائ خیل
مصنف، کالم نگار، اسلامی سیاست کا طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply