مشعال کا جنازہ اور تجدید ایمان

زندگی کے ہرلمحہ میں ہم انسان کیسے کیسے مرحلوں سے گزرتے ہیں اور یہ زندگی ہمیں کیسے کیسے عملی نمونے روز بروز اور وقتا ًفوقتا ًدکھاتی ہے جس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ دوسری جانب یہ حضرت انسان ہے جو زندگی کے ہر لمحہ کے سبق کو صرف اُس لمحہ سیکھتا ہے جب وہ لمحہ اسکی زندگی سے متعلق ہوتا ۔باقی انسانوں پر جو گزر رہی ہے اور اسکے نتائج ٰکیا ہوسکتے ہیں ہمیں یہ سبق سیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ۔ موجودہ وقت میں اس معاشرے میں زندگی گزارنے کا معیار صرف اور صرف یہ رہ گیا ہے کہ جیسی بھی زندگی گزرے وہ ہمارے ذہن میں شامل افکار و خصوصیات اور ذہنی فلسفہ سے میل کھاتی ہوئی گزرے۔
یعنی من پسند زندگی گزارنے کا فن وہ ہے کہ جو سوچ وفکر ہماری اپنی ہے۔ نیزافسانوی باتوں اورذہن کی غیر بالیدگی کے امتزاج سے پیدا شدہ خیالات و افکارسے لگا کھاتی ہوئی زندگی اگرہمارے سامنے آئے تو زندگی گزارنے کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ ایسا ہی کچھ ہمارے اطراف میں روز بروز ہونے والے واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ من حیث القوم ہماری ذہنی سوچ و افکار کتنی بالیدگی حاصل کر چکےہیں نیز ہم نے اپنی سوچ کے مطابق جو علم حاصل کیا ہوا ہے کیا ہم اس کے معیار پر مکمل اُتر رہےہیں کہ نہیں۔
اسی ذہنی سوچ اور بالیدگی کا مظاہرہ اسوقت دیکھنے میں آیا جب مشعال مرحوم کا جنازہ گاؤں کی مسجد میں لے جایا گیا اور امام مسجد نے نماز جنازہ پڑھانے سے یکسر انکار کردیا تو لا محالہ ایک ٹیکنیشن کو بلایا گیا اور نماز جنازہ انکی کی اقتدا میں ادا کی گئی۔ یہ عمل ایک گاؤں کے امام مسجد کی ذہنی بالیدگی اور سوچ و فکر کو اس معاشرہ میں عیاں کرتا ہے کہ ہماری سوچ و فکر کس نہج پر پہنچ چکی ہے اور ہم نے جن افراد کو اپنی امامت کا فریضہ انجام دینے کا حق دے رکھا ہے انکی سوچ و فکر کس جانب اشارہ کر رہی ہے۔انتہائی حقیقت تو یہ ہے کہ ابھی تک پولیس اور تمام سیکیورٹی اداروں کو اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے کہ مشعال مرحوم نے کسی بھی قسم کی گستاخی کا کارنامہ انجام دیا تھا،یا مرحوم کسی ایسی حرکات و سکنات میں شامل تھا۔
مجھے یاد آرہا ہے تاریخ رسالت ماب ﷺ کی زندگی کا وہ حصہ جب رئیس المنافقین عبداللہ ابن اُبی فوت ہوا تو آپﷺ نے اپنا کُرتا مبارک اسکے کفن کیلئے دیا اور اسکی نماز جنازہ بھی خود پڑھائی۔ یہ وہ عمل تھا جس پر تمام اُمت کو عمل کرنا چاہیئے مگرصد حیف ہےہمارے ان مذہبی ٹھیکیداروں پر کہ جنہوں نے نبی پاکﷺ کی سیرت کو اپنے ایمان کا جُز بنانے کے بجائےمرحوم مشال کا نماز جنازہ پڑھانے سے یکسر انکار کردیا۔ یقینا ًکسی بھی عمل اور اسکے ردعمل کی بنیاد پر ایک صائب رائے کے دماغ میں بہت سارے خیالات اُبھرتے ہیں کہ کیا امام صاحب کا عمل دُرست سمجھا جائیگا اور اگر دُرست سمجھا جائیگا تو پھر جنہوں نے نماز جنازہ میں شرکت کی اُنکے ایمان کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا ہونے کا عُنصر لازمی طور پر ہر باشعور اور دین سے مُحبت رکھنے والے مسلمان کے دماغ میں پیدا ہوگا۔
اسی سوچ و فکر میں غلطاں تھا کہ کچھ خیالات اور سوالات میرے ذہن میں کُلبلانے لگے ہیں کیا کوئی اسکا واضح اور مُدلل جواب عنایت کرے گا۔ کیا ایسے شخص جس کا جُرم بھی ابھی تک کسی بھی مرحلے پر ثابت نہیں ہوسکا ہو کیا اُسکی نماز جنازہ پڑھانےیا پڑھنے سے ایمان کو فوری خطرہ لاحق ہوجاتا ہے ۔وہ اشخاص جنہوں نے مشال مرحوم کی نمازجنازہ ادا کی کیا وہ اسلام کے دائرے سے خارج ہوگئے؟ نیزکیا انہیں تجدید ایمان کرنا پڑیگا اوراسکے ساتھ ہی اپنا عقد مسنونہ دوبارہ پڑھوانا ہوگا۔ کیا مشال مرحوم کا جسد خاکی کو عام مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہونے کے بعد کہیں دوبارہ نکال کر کہیں اور مدفن کرنے کی سعی تو نہیں کی جائیگی۔ نبی مُحترم ﷺکی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ دین میں آسانیاں پیدا کرو اور اللہ کے بندوں آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔ کیا اس حدیث کے مفہوم کی بنیاد پر ہم یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ دین میں آسانیاں پیدا ہوں اور ہمارے کسی بھی عمل سے کسی دوسرے کو کسی قسم کی تکلیف یا ذہنی کوفت نہ پہنچے۔
متعلقہ قوانین اور دین اسلام کی پُر حکمت شریعت کی رو سے جب تک کسی بھی جُرم کے بارے میں کوئی واضح طور پر ثبوت سامنے نہ آئے تو اسوقت تک کوئی بھی شخص مُجرم نہیں ہوتا مگر یہاں یک گونہ تمام تر قوانین اور شریعت مطہرہ ﷺ کو پس پشت ڈال کر ایک ایسے عمل کا مظاہرہ کیا گیا جس کے نتائج نے تمام لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات کا ایک پٹارہ کھول دیا جو آنے والے دنوں میں مرحوم کے والدین اور تمام رشتہ داروں کو معاشرہ میں تنہا کردینے کے مترادف ہے۔ کیا یہ عمل عین اسلام کی شریعت اور رائج الوقت قوانین کی رو سے دُرست سمجھا جائیگا۔
یہ دیکھنے میں ایک چھوٹی سی بات محسوس ہوتی ہے کہ متعلقہ امام مسجد نے نماز جنازہ پڑھانے سے یکسر انکار کردیا مگر اسکےمضر اثرات آہستہ آہستہ ہمارے معاشرے میں سرائیت کر جائیں گے اور ان مضر اثرات سے کوئی بھی فرد نہیں بچ سکے گا۔
لا محالہ میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ ہمیں بحیثیت ایک مسلمان ایسی سوچ و فکر سے برات کا اعلان ببانگ دہل کرنا چاہیئے جو ہمارے معاشرہ میں فرقہ ورانہ سوچ کو مزید تقویت دے ۔ ہمیں اب آگے کی جانب دیکھنا ہے کہ ہم اپنے اس معاشرہ کو کس جانب لیکر جارہے ہیں۔ کیا یہ منفی سوچ و فکرہمارے معاشرے کو مزید ایک گڑھے میں نہیں پھینک دے گی۔ ہمیں معاشرہ میں ہر اُس مثبت عمل کو تقویت دینا ہوگی تاکہ منفی سوچ و فکر رکھنے والے افراد کا محاسبہ علمی اور فکری انداز میں معاشرہ کے ہر موڑ پر کیا جاسکے۔

Facebook Comments

ایاز خان دہلوی
سچائی کی تلاش میں مباحثہ سے زیادہ مکالمہ زندگی کا ماحصل ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply