مشر، کشر اور منظور پشتین کا معاملہ۔۔فضل ہادی حسن

بگٹی صاحب مرحوم ابھی پہاڑوں پر نہیں چڑھے تھے، کہ قائد اعظم یونیورسٹی میں (غالباً ایک لڑکی کے معاملہ پر) لڑائی ہوئی تھی جس میں ایک بلوچ طالبعلم جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔ غالباً  قاتلین کا تعلق جنوبی پنجاب سے تھا جنہوں نے مقامی پنجائیت کی مدد لیکر بگٹی صاحب کے پاس پہنچے تھے۔ مقتول کے اہل و عیال نہ چاہتے ہوئے بھی قبائلی روایت، جرگہ اور ‘مشر’ کے آگے صلح پر راضی ہوگئے تھے۔

چند سال پہلے کا واقعہ ہے، میرے دوست کا ایک رشتہ دار جو قانون کا طالبعلم تھا چھٹیوں پر گاؤ ں گیا ہوا تھا۔ گاوں میں کسی معاملہ پر ‘جرگہ’ تھا۔ دادا بیمار تھے تو اپنی جگہ اسی پوتے کو بیجھا ( بس سماعت کی خاطر)۔ دوران جرگہ کوئی بات ایسی آئی کہ قانون کے طالبعلم نے لب کشائی کی، پھر ہونا تھا کہ جرگہ مشران میں سے چند ایک نے اسے اپنی بے عزتی سمجھی اورجرگہ سے یہ کہہ کر چلے گئے کہ اب ‘بچے’ بھی جرگوں میں بیٹھنے اوربولنے لگے۔

جرگہ مشران یا قبائلی سردار کا فیصلہ اورسوچ درست تھی یا غلط یہ ہمارا موضوع نہیں ہے، لیکن ان دو واقعات سے صرف یہ بتانا مقصود تھا کہ جرگہ ہو یا پنجائیت، مشران ہو یا کوئی بھی مقامی لیڈر، انہیں معاشرہ میں ضرور اہمیت حاصل ہوتا ہے۔ البتہ قبائلی روایات اور معاشرہ میں انہیں (شائد) زیادہ اہمیت اور مقام حاصل ہوتا ہے۔

فاٹا میں جب حالات خراب ہونا شروع ہوگئے تھے اسی وقت مقامی مشران میدان میں  آگئے تاکہ اس معاملہ کو ہینڈل کریں لیکن باجوڑ ایجنسی سے لیکر وزیرستان تک کثیر تعداد میں “قبائلی مشران” نشانہ بننا شروع ہوگئے اور قاتل بھی ‘نامعلوم’ ، نامعلوم کا لفظ اس لئے استعمال کیا کہ مشران کی ریکی اور جاسوسی کرنے کا جو طریقہ ہوتا تھا وہ بہت پروفیشنل اور منظم ہوا کرتا تھا نیز کافی مشران کی ہلاکت کی ذمہ داری کسی بھی گروپ نے قبول نہیں کی تھا۔ جس سے غلط فہمیاں بڑھنا شروع ہوگئی۔ طالبان کے بعد پاک فوج کے نام بھی لینا شروع ہوگیا۔ اگر قبائلی آپریشن ہو یا سوات، بونیر اور دیر آپریشن، اسے تضادات اورغلط فہمیوں کا مجموعہ قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ بلکہ انہیں غلط فہمیوں کی وجہ سے یہ مشہور ہوا تھا کہ ’’ایک طرف مکہ کے مجاہدین ہیں اور دوسری طرف مدینہ کے، بس بیچ میں ہم مشرکین ہیں۔‘‘

طالبان تھے، تب بھی چیک پوسٹوں پر لوگوں کی تذلیل ہوتی، قریبی آبادی میں خوف و ہراس کا ماحول ہوتا، لیکن بزرگوں اور عورتوں کے بارے میں شاید کوئی واقعہ سامنے آیا ہوگا، فوج آگئی تب بھی خوف و ہراس کا ماحول تھا، کافی لوگ تو ‘کرفیو’ کا مفہوم جاننے سے بھی قاصر تھے۔ نیز بجلی نہ ہونے کی وجہ سے کرفیو کا اعلان اور وقت بھی مسئلہ تھا، جس سے کافی تعداد میں بے گناہوں (بچوں، عورتوں سمیت) کا خون بہہ گیا تھا۔ چیک پوسٹوں یا شناختی پیرڈ کے موقع پر بزرگوں کی تذلیل و تحقیر بلکہ بعض دفعہ ان پر تشدد کے واقعات بھی سامنے آئے تھے۔ خواتین کے حوالے سے پاک فوج کا مجموعی رویہ بھی مناسب اور بہترتھا لیکن چند چیک پوسٹوں پر خواتین کو گاڑی سے اُتارنے کو مقامی بلکہ دیہی علاقوں میں معیوب سمجھا جانے کی وجہ سے بعض دفعہ سپاہیوں اورمقامی لوگوں کے درمیان تناؤ کی کیفیت بھی پیدا ہوگئی تھی۔ میرا خیال ہے کہ شاید  اس حوالے سے سپاہیوں کی ’تربیت‘ میں کمی رہ گئی تھی، کہ پبلک ریلیشن کیا ہے اورعوام کو کس طرح ڈیل کیا جاتا ہے؟ یہاں یہ وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ نہ میں الزام لگا رہا ہوں اور نہ بغیر ثبوت کی بات کہنے جارہا ہوں اور نہ میں غیر ذمہ داری کی کوشش کررہا ہوں۔

آپریشن زدہ علاقے، بالخصوص فاٹا میں آپریشن کے بعد کے واقعات اور رویہ پر نوجوان ہمیشہ شاکی رہے ہیں لیکن ’قبائلی مشران‘ کی روایت، جرگہ سسٹم اور معاملات کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کی وجہ سے نوجوان نسل اس ’روایت‘ کو توڑنے کی جرات نہیں کرسکی تھی، مشر اور کشر یعنی چھوٹا اور بزرگ کی مضبوط روایتی حصار کی وجہ سے وہ آگے بڑھنے کی ہمت نہیں کرسکے تھے۔ اسی طرح سیاسی پارٹیوں کا معاملہ تھا، کہ متعلقہ علاقوں سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی نوجوان سیاسی طور پر بھی کسی پارٹی کا ورکر ہونے کی وجہ سے پارٹی پالیسی کا پابند ہوتا تھا۔ لیکن وقت کیساتھ ساتھ اور مقامی علاقوں میں شکوک و شبہات اورغلط فہمیوں نے اس بار نوجوانوں کو قبائلی روایت اور پارٹی ڈسپلن کو توڑنے پر مجبور کردیا، پہلی دفعہ سیاسی پارٹی کے حامی ہو یا مذہبی پارٹی کے ، سیکولر ہو یا دینی پس منظر سے تعلق رکھنے والے، سب اکھٹے نظر آئیں  گے۔ یقیناً یہ موقع ریاست نے خود فراہم کردیا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ ریاست سے غلطیاں ہوئی ہیں بلکہ اب بھی داہرائی جارہی ہیں۔ ریاست نے پہلے دن سے ان مسائل اور شکایتوں کو نظرکرنے کی کوشش کی ہے جو تقریباً دو دہائیوں سے وہاں کے باسیوں کی طرف ہوتی رہی۔ اسلام کے نام پر بے گناہوں کو قتل کرنے والے درندوں سے کیا گلہ و شکایت؟ لیکن ظلم و تشدد کو ختم کرنے، حکومت رٹ کی بحالی اور قوم کے دل جیتنے، وہاں جانے والوں سے گلہ اور شکایت کرنا کیوں جرم اور غداری قرار دی جارہی ہے؟

پشتو کی ضرب المثل ہے کہ ’’ شکوہ اور شکایت ہمیشہ اپنوں سے کی جاتی ہے‘‘ اسی وجہ سے یہ نوجوان آئین کے اندر رہتے ہوئے اپنے مطالبات پیش کرتے ہیں۔ نیز امید بھی ہمیشہ ان لوگوں سے وابستہ ہوتی ہے جو دل کے قریب ہوتے ہیں ۔اگر قبائلی یا پختون نوجوان ریاست سے شکوہ اور شکایت کررہے ہیں، ریاست سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں تو وہ ریاست اورفوج کو ’’اپنی‘‘ سمجھ کرہی کرتے ہیں۔ لیکن اگر بالفرض ریاست اور ادارے ان کی امیدوں پر پورا نہیں اترتے تو لازمی طور پر ’ان‘ کے جذبات کو ٹھیس پہنچی گی جو زیادہ کربناک امر ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ریاست، پاک فوج اور پختون نوجوانوں (یعنی فریقین) سے اتنی سی گزارش کروں  گا کہ ’اپنوں‘ کے  اس شکوہ وشکایت کو اتنی طوالت نہ دیں کہ کہیں انہیں کھونا نہ پڑے  کیونکہ جب شکوے بڑھنے لگتے ہیں تو اختلافات میں شدت کا امکان غالب ہوتا ہے، اور نہ ’اپنوں‘ سے زیادہ توقعات رکھیں کیونکہ Expectations always hurts

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply