پانامہ،پکچر ابھی باقی ہے!

Behind every great fortune there is a crime۔حکمران خاندان کے خلاف جس فیصلے کا آغاز اِس جملے سے ہو اُس فیصلے پر حکمرانوں کا مٹھائیاں بانٹنا انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ مزید وضاحت کرتے ہوئے معزز جج صاحبان نے لکھا کہ یہ اقتباس جس جملے سے متاثر ہو کر صفحہ قرطاس پر آیا وہ ایک فرانسیسی ہنورے دی بالزیک کا لکھا ہوا یہ جملہ تھاthe secret of a great success for which you are at a loss to account is a crime that has never been found out, because it was properly executed۔ جج صاحبان کی آبزرویشن کے مطابق پانامہ کا مقدمہ بھی اسی جملے کے گرد گھومتا ہے کہ حکمرانوں نے کرپشن اس منظم انداز میں کی ہے کہ اس کا سراغ لگانا یقیناً ایک مشکل امر ہے۔ یہ بات فیصلے کے ابتدائیے میں ہی طے ہو گئی کہ جرم تو بہرحال سرزد ہوا ہے۔ پانامہ کا ہنگامہ شروع ہونے سے لے کر اب تک میری یہی رائے تھی کہ فیصلہ آنے پر دونوں فریقین مٹھائیاں بانٹیں گے اور ہوا بھی ایسا ہی، لیکن پورا فیصلہ دیکھنے کے بعد مجھے حیرت ہے کہ حکمران خاندان اور لیگی کارکن کس خوشی میں مٹھائیاں بانٹ رہے ہیں؟
اگر وہ انگریزی نہیں سمجھتے تو کوئی رضاکارانہ طور پر اس فیصلے کا اردو ترجمہ کروا کے انہیں پڑھوا دے۔ پورے فیصلے میں کہیں بھی بنچ کے کسی ایک بھی معزز رکن نے شریف خاندان اور اس کے وکلاء کے مؤقف کو درست تسلیم نہیں کیا۔ قطری خط اور دیگر دستاویزی ثبوت بھی معزز عدالت نے مشکوک قرار دے کر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ قطری خط کا فیصلے میں ذکر کرتے ہوئے جج صاحبان نے لکھا کہ ایک روز سماعت کے دوران رسپانڈنٹس کے وکیل نے dramatically and with theatrical impact بریف کیس سے خط نکالا اور عدالت کے سامنے پیش کر دیا۔ بنچ کے دو معزز ارکان نے جناب وزیرِاعظم کو نا اہل قرار دیا اور جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیرِاعظم کی تقریروں، بیانات اور عدالت میں اپنائے گئے مؤقف میں پائے جانے والے بھرپور تضادات کی روشنی میں کہا کہ Nawaz was not truthful اور یہ بھی کہا کہ وزیرَاعظم صادق اور امین نہیں رہے جبکہ باقی تین ججوں نے مشکوک دستاویزات اور ثبوتوں کی مکمل جانچ پڑتال کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا فیصلہ صادر کرتے ہوئے وزیرِاعظم کو پابند کیا کہ وہ اس کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر وضاحت دیں۔ یہ بات تو مکمل ثابت شدہ ہے کہ تمام جج صاحبان اس بات پر متفق پائے گئے کہ حکمران خاندان کا مؤقف تضادات سے بھرپور ہے جسے من وعن تسلیم نہیں کیا جا سکتا تو پھر یار لوگ کس بات کے جشن منا رہے ہیں؟
ججز نے جس کمیٹی کی تشکیل کا فیصلہ دیا ہے اس میں ایف آئی اے، نیب، ایس ای سی پی، سٹیٹ بنک، آئی ایس آئی اور ایم آئی کا ایک ایک نمائندہ شامل ہو گا جن کے ناموں کی حتمی منظوری ججز دیں گے۔ یہ سوال بہرحال اپنی جگہ موجود ہے کہ گریڈ 18 اور 19 کے سرکاری ملازمین کس طرح وزیرِاعظم کو طلب کر کے تفتیش کریں گے؟ اور اگر وہ طلب کرتے ہیں تو کیا یہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب کی توہین نہیں ہو گی؟ یہ بات وزیرِاعظم کے خود سمجھنے کی ہے کہ اپنی ذات کی خاطر ملک کے اعلیٰ ترین منصب کی آبروریزی کا سبب نہ بنیں اور اگر وہ ڈھٹائی سے منصب پر براجمان رہتے ہیں تو پھر کمیٹی کی تفتیش پر سوال اٹھتے رہیں گے۔ میرا خیال ہے کہ ججز نے بین السطور وزیرِاعظم کو پیغام دیا ہے کہ حضور آپ منصب سے علیحدہ ہو جائیں لیکن کرسی اور اقتدار کا نشہ بین السطور پیغامات کو سمجھنے کی صلاحیت مفقود کر دیتا ہے اور انسان مٹھائیاں بانٹتا پھرتا ہے۔ پھر بھی امید کی جا سکتی ہے کہ تفتیش بہتر سمت میں کام کرے گی کیونکہ ہر دو ہفتے بعد کمیٹی آنرایبل بنچ کو رپورٹ پیش کرے گی اور حتمی رپورٹ بھی کمیٹی ازخود جاری نہیں کرے گی بلکہ مذکورہ بنچ کو پیش کرے گی اور بنچ اس رپورٹ کی روشنی میں مناسب احکامات صادر کرے گا۔ جب سے یہ ہنگامہ شروع ہوا تب سے قانون کو سمجھنے والوں کی رائے یہی تھی جو اس فیصلے میں نظر آئی ہے لیکن انتہائی تاخیر سے یہ فیصلہ دینے پر عدالت نے بھی کچھ نہ کچھ اپنا وقار کھویا ہے۔ یہ فیصلہ جلد آ جانا چاہیے تھا۔ قوم ایسے معاملات کو سمجھتی ہو یا نہ سمجھتی ہو، اس کے اعصاب کا امتحان اور جذبات سے بہرحال نہیں کھیلنا چاہیے۔ ویسے بھی لاء کا maxim ہے کہ justice delayed is justice denied لیکن exceptions are always there لہٰذا ہمارے ملک میں انصاف ہونا اور ہوتا نظر بھی آنا چاہیے، تاخیر کی خیر ہے۔ پانامہ کی کہانی بہرحال ابھی ختم نہیں ہوئی، ابھی اس سرکس کو دو ڈھائی ماہ اور چلنا ہے۔ آیئے کچھ دن مزید پانامہ پانامہ کھیلتے ہیں۔

Facebook Comments

محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ
میں جو محسوس کرتا ہوں، وہی تحریر کرتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply