شریف خانے پر غلام کی حاضری

وہ کیا فسوں تھا جانے-
آج گھنے بادلوں کی ایک فوج تھی جو ہر طرف سے اسلام آباد کے علاقے کو گھیرے ہوئے تھی۔ ایک بادل کا ٹکڑا بار بار وزیراعظم ہاوس کی جانب سفر کرتا اور پھر واپس آتا دکھائی دیتا۔شاید ولی صفتوں کی عبادت /سیاست میں خلل نہ ڈالنا چاہتا ہو کہ” پھر یہ حسیں رات ہو نہ ہو والا” معاملہ ہے – آخر کار جی قابو میں نہ رہا تو غلام کسی طور وزیر اعظم ہاوس تک رسائی پا گیا اب جو دخل در نامعقولات فرماتا ہوں تو کیا دیکھا، وہ صورت جسے دیکھنے کو ایک نصف عشرے سے قلمی کاروبار کیا تھا آج غلام کے سامنے فی الوقت سری پایوں سے نبرد آزما تھی – میں انگشت بدنداں رہ گیا کہ جناب والا آج قہر برس رہا ہر سو قیامت کا سا سماں ہے رعایا میں ہلچل ہے، مخالفین پرجوش ہیں اور فی زمانہ قاضیوں سے بھی کچھ بعید نہیں مبادا کرسی چھوڑ ٹائپ فیصلہ ہی نہ صادر کر دیں غلام جان تو دے سکتا ہے پر ایسی خجالت آپکی برداشت نہ ہووے گی کچھ کیجیے حضور کچھ کیجیے –
میں وہیں جوتوں پر دو زانو تشریف رکھ بیٹھا اور آنجناب کے پاؤں دبانے لگا – سرکار نے سر پر ہاتھ رکھا اور پائے کی نلی سے گودا سڑکتے ہوئے گویا ہوئے "اللہ کے فضل و کرم سے آج پائے نہایت لذیذ بنے ہیں پھر فرمانے لگے صال ح ہر شخص کا ماضی اسکے مستقبل کی راہ متعین کرتا ہے سو ہمارے عدالتی ماضی نے بھی ہمارے مستقبل کی راہیں بہت پہلے سے متعین کر دی ہیں ۔تو بے فکر رہ اور راتب پر دھیان دے – ابھی یہی گفتگو چل رہی تھی کہ جانشین کو بغل میں جائے نماز دبائے منہ پھلائے اپنا جل تھل وجود ایک جگہ سے دوسری جگہ گھسیٹتے دیکھا دست سوال پھر سے دراز کیا کہ آقا یہ کیا ماجرا ہے؟ فرمایا! یہ تمام معلومات و ریکارڈ کے از خود پانامہ میں جل جانے کی دعا کر رہا ہےچونکہ وہاں پر اپنی جادو کی چھڑی چل نہیں پا رہی –
میرے حضور پر نور پر کرامتوں کا سایہ ہے وہ ایک فسوں ہے جسکی گردوں تک بھی آپ نہیں پہنچ سکتے – قاضی وقت نے جب جب انکا اسم شریف پکارا میں سجدے میں گرا کہ خدا اس شان کو سلامت رکھے جس کا ڈنکہ چہار سو بجتا ہے اور جس سے میرے گھر کے دیے روشن ہیں – ہم ایسے افتاد گان خاک کہاں اور وہ افلاک بسر ستارہ کہاں -میں دوبارہ حاضر ہوا اور دست بستہ ب عرض کی، اے امت کے آخری چراغ و ملت کے نجات دہندہ آپ کی یہ سبکی اپن سے دیکھی نہیں جاتی، گز گز زمین میں گڑا جاتا ہوں جب جب آپ اور اہل خانہ اپنی قبا در معاملاتِ پانامہ کھولتے ہیں اور میں اپنے شاہ کی شان پانامہ سے جان کی امان پاؤں تو عرض کروں حضور یا تو اپنے شریف خانے میں یکبار گفت و شنید کر لیں اور آپسی بیانات طے کر لیں کہ کون کون کہاں کہاں کیا کیا بیان دے گا کیونکہ ہر ایک الگ الگ دروغ گوئی سے کام لے رہا اور وطن عزیز میں ایک لطیفہ سا بن چلا ہے ان بیانات مقدسہ کی وجہ سے یا پھر گھر والوں کو جدے رخصت پر بھجوا دیجیے اور فقط آپ ہی آپ اس معاملے کو دیکھیے – وہ شیریں دہن وا ہوئے اور فرمایا "دیکھو پیارے جافر، ہم نے یہ گوشہ زمین اگر خدمت خلق کے لیے چنا ہے تو اسکے پیچھے ہماری دور اندیش اور فطین دماغی کارستانی کارفرما ہے چونکہ ہمیں اس خطے کے گونگلو اور عوام دونوں از حد پسند ہیں – ہم عوام کو گونگلو نہیں سمجھتے مگر ہم انکی راہبر شناسی سے بخوبی واقف ہیں۔ یہی تو وہ لوگ تھے جو بابر کے ساتھ جا ملے، یہی تو وہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے رکھوالے تھے یہی تو فرنگی فوج میں ملازم تھے یعنی ہمیشہ خدمت گار ہی رہے ہیں کبھی سر نہیں اٹھایا بالک انکی نسلوں کا تجزیہ کر لینے کے بعد ہی ہم نے ان پر خود کو خدمت کے لیے وار دیا –

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply