سیرتِ معاویہ رضہ پر ایک نظر

آپ کا نام معاویہ،ابوعبد الرحمٰن کنیت اور والد کا نام ابو سفیان تھا. آپ کا خاندان بنو امیہ زمانہ جاہلیت سے قریش میں معزز اور ممتاز چلا آرہا تھا، آپ کے والد ابو سفیان قریش کے قومی عہدے پر فائز تھے.ابتداء اسلام میں ابوسفیان اسلام کے سخت دشمن رہے، آپ علیہ السلام اور مسلمانوں کو ہر طرح سے تکلیف دی.اللہ نے فتح مکہ کے موقع پراسلام لانے کی توفیق نصیب کی، باپ اور بیٹا دونوں مشرف بہ اسلام ہوئے.حضرت معاویہ رضہ کے اسلام لانے کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خصوصی مبارکباد پیش کی، قبول اسلام کے بعد معاویہ رضہ حنین اور طائف کے غزوات میں شریک ہوئے، آپ علیہ السلام نے خاندانی عزت اور وقار کا لحاظ کرتے ہوئے فتح کے موقع پر کثیر تعداد میں مال غنیمت عطا کیا اور کتابت وحی کا جلیل القدر منصب عطا فرمایا.امیر معاویہ رضہ بلکل آخر میں اسلام لائے تھے، اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ان کو کوئی نمایاں کارنامہ دکھانے کا موقع نہ مل سکا،خلافت صدیقی میں آپ نے اپنی مدبرانہ سوچ سےکارناموں کا آغاز کیا اور عہد عثمانی میں آپ کی قابلیت کے جوہر مزید کھل کر آشکارا ہوئے اسی بنا پر حضرت عثمان رضہ نے آپ کو پورے شام کا والی بنا دیا، آپ نے اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے بحری حملوں کا آغاز کیا اور بحری قوتوں کو اتنی ترقی دی کہ اسلامی بحری بیڑا اس عہد کے بہترین بیڑوں میں شمار ہوتا تھا.عہد عثمانی میں آپ نے بہت سے علاقوں کو فتح فرمایا .
حضرت عثمان رضہ کے دور حکومت میں وہ کربناک شورش بپا ہوئی جن کی وجہ سے خلیفہ ثالث بے دردی سے شہید ہوئے، شہادت کے بعد فتنوں کے باقاعدہ منہ کھل گئے، دشمنوں نے موقع سے خوب فائدہ اٹھا کر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ایک دوسرے کےخلاف برانگیختہ کیا جس کے نتیجے میں جنگ صفین جیسے خونریز اور ہولناک معرکے پیش ہوئے.ان معرکوں کے بعد حضرت علی رضہ اللہ اور ان کے بعد امیر معاویہ رضہ مسند خلافت پر براجمان ہوئے ، آپ اپنے عہد خلافت میں مغربی قوموں سے نبرد آزما ہوئے اور رومیوں کو شکست فاش دی، آپ کے عہد کا سب سے بڑا تاریخی حملہ قسطنطنیہ کا تھا، جس کی بدولت پورے مشرق پر اسلام کا اثر اور دعوتی پیغام پہنچ چکا تھا، امیر معاویہ رضہ کو جو چیز دوسرے اموی خلفاء سے ممتاز کرتی ہے وہ ان کی بے نظیر تدبیر وسیاست اور قوت نظم تھی، آپ اموی سلسلے کے سب سے پہلے بادشاہ تھے اس کے باوجود آپ نے مکمل ترقی یافتہ اور ایک مثالی حکومت کا نمونہ پیش کیا.آپ نے نظم حکومت چلانے کے لیے باقاعدہ مجلس شوری قائم کی ہوئی تھی، تمام معاملات مجلس کے مشورے سے انعقاد پذیر ہوتے تھے .آپ کے عہد خلافت میں دولت اسلامیہ کو مختلف صوبوں میں تقسیم کیا جن پر علیحدہ علیحدہ گورنر مقرر ہوتے تھے.آپ عہدہ داروں کی مکمل اہلیت دیکھ کر انتخاب فرماتے تھے، انتخاب کے بعد ان کی نگرانی اور افعال واعمال پر کڑی نگاہ رکھتے تھے ، حسب ضرورت محاسبہ بھی فرماتے تھے.فوج کی ضرورت کو مد نظر رکھ کر آپ نے اس کی ترقی اور اہم مراکز اور چھاؤنیاں قائم کیں.آپ نے مختلف قلعے تعمیر کروائے اور نو آبادیاں قائم کیں.حکومت کی ضرورت کے تمام اہم شعبے قائم کیے، رفاہ عامہ کے کاموں پر مکمل توجہ دی، مساجد کی تعمیر، حرم کی خدمت، اشاعت اسلام اور اقامت دین آپ کے عمدہ اور نمایاں کارنامے ہیں.آپ فتح مکہ کے موقع پر مشرف بہ اسلام ہوئے، اس لیے آپ کو ذات نبوت کے ساتھ طویل صحبت کا موقع میسر نہ ہوا، لیکن اس مختصر سے عرصے میں زبانِ نبوت سے امیر معاویہ رضہ کے لیے دعائیں نکلی ہیں.آپ علیہ السلام نے فرمایا”خدایا! معاویہ کو کتاب وسنت کا علم عطا فرما”اور فرمایا”خدایا!معاویہ کو ہادی اور مہدی بنا اور ان کے ذریعے سے ہدایت دے “۔
صحبت نبوی زیادہ میسر نہ آئی لیکن اس کے باوجود ذوق وشوق اورتلاش وجستجو سے دینی علوم میں پوری دستگاہ پہنچائی. ان کو اپنے مخالفین سے علمی استفادے میں بھی عار نہ تھا،غرض اس طرح پوچھ پوچھ کر انہوں نے اپنا دامنِ علم اس قدر وسیع کرلیا کہ وہ صحابہ جو اپنے فضل وکمال سے حِبرُ الاُمّہ کہلاتےتھے ان کو فقہاء میں شمار کيا کرتے تھے.احادیث کا ذخیرہ بھی آپ کے سینے میں محفوظ تھا، چنانچہ حدیث کی کتب میں آپ کی 163روایات ملتی ہیں.کبھی کبھی مسائل میں صحابہ کا اختلاف رائے ہوجاتا آپ کی رائے صائب نکلتی تھی.دینی علوم کے علاوہ عرب کے مروجہ علوم میں ممتاز درجہ رکھتے تھے، چنانچہ کتابت میں جس سے عرب تقریبا نا آشنا تھے معاویہ رضہ کو پوری مہارت تھی اور اسی وصف کی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خاص کاتب مقررفرمایا.شاعری اور خطابت میں بھی یکتا ومنفرد تھے. آپ نے باقاعدہ تاریخ کی داغ بیل ڈالی، اور تدوین تاریخ کے لیے ایک باخبر عالم عبید بن شریہ کو مقرر کیا.ان رسمی علوم کے علاوہ امیر معاویہ کے صحیفہ کمال کا سب سے روشن باب آپ کی فطری سیاست اور دانشوری ہے، تمام مورخین انہیں اپنے زمانے کا سب سے بڑا مدبر سیاست دان اور بیدات مغز راہنما مانتے تھے. دعائے نبوی کی وجہ سے آپ کا دامن اخلاقی فضائل سے پر تھا، حلیم بردبار، ضبط وتحمل، فیاضی وسخاوت، خوف خدا اور آخرت کو مکمل یاد رکھتے تھے.آخری عمر میں علالت کے وقت اپنے بیٹے یزید کو خلافت سونپی چند وصیتیں کرنے کے بعد آپ واصل بحق ہوئے.
رضی اللہ عنہ.

Facebook Comments

نعیم الدین
لکھنے پڑہنے والا ایک ادنی طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply