انتظار

انتظار
عقیل خان
انتظار ایسا لفظ ہے جس سے ہر کوئی بخوبی واقف ہے۔ اس لفظ سے انسان کا ہر وقت چولی دامن کاساتھ رہتا ہے۔ کوئی دن ، کوئی گھڑی ایسی نہیں جس میں اس لفظ کو استعمال نہ کیا جاتا ہو یا اس پرعمل کام نہ کیا جاتا ہے ہو۔انتظار کے معنی ہیں دیکھنا، راہ تکنا وغیرہ۔ اس لفظ کے مترادف میں امید، آرزو، خواہش،آس، منتظرجسے الفاظ شامل ہیں۔ پنجابی زبان میں انتظار کواُڈیک یا اُڈیکنا بھی کہا جاتاہے۔
جیسے کہ پہلے لکھ چکا ہوں کہ اس لفظ کا ہماری زندگی سے بہت گہرا تعلق ہے کیونکہ پیدا ئش سے لیکر موت آنے تک ہم سب انتظا ر میں ہوتے ہیں۔
کبھی کسی کے کیے گئے وعدے کا انتظار تو کبھی کسی کے آنے کاانتظار۔ لفظ انتظار کے اوپر جتنے مرضی واقعات آپ خود اپنی زندگی میں دیکھ سکتے ہیں۔ بقول پروین شاکر
وہ نہ آئے گا ہمیں معلوم تھا، اس شام بھی…..
انتظار اس کا مگر کچھ سوچ کر،کرتے رہے
انتظار ویسے نام کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ آدمی اور عورت دونوں میں یہ نام پایا گیا ہے۔ ادب کے میدان میں انتظارنام بہت اہمیت کا حامل ہے۔ جی انتظارحسین کا نام ادب کی دنیا میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ اردو کے ناول نگار، افسانہ نگار اورتنقید نگار تھے۔
تعلیم کے میدان میں جو طالب علم’’ علم‘‘ حاصل کررہے ہوتے ہیں ان کو ہر کلاس میں اپنے امتحان کے رزلٹ کا انتظار ہوتا ہے اور جو ناکام ہوتے ہیں وہ اگلی بار دوبارہ امتحان دیکر اچھے نتائج لینے کا انتظار کرتے ہیں اور جو کامیاب ہوجاتے ہیں وہ پاس ہونے کی خوشی میں اپنے رشتے داروں، دوستوں اور گھروالوں سے تحائف لینے کا انتظا ر کرتے ہیں۔
کھیل کے میدان میں نہ صرف ٹیموں کو بلکہ تماشائیوں کو بھی میچز ،ٹورنامنٹ اور ورلڈکپ کا انتظارہوتا ہے۔ جیتنے والی ٹیم جب جیت جاتی ہے تو پھر اس شہر ، ملک کے لوگوں کو اپنی جیتی ٹیم کی واپسی کا انتظار ہوتا ہے تاکہ جب وہ واپس آئیں تو پھر ان کا دل کھول کر استقبال کیا جائے ۔
شادی بیاہ کی بات کی جائے تو اس میں انتظار کا اہم کردار ہوتا ہے۔ منگنی سے شروع ہونی والی یہ کہانی شادی پر اختتام ہوتی ہے۔ اور شادی والے دن لڑکی والوں کا بارات کا انتظار ہوتا ہے اور لڑکے والوں کے گھروالوں کو دلہن آنے کاانتظار ہوتا ہے اور دونوں طرف ان کے استقبال کی تیاری بڑے زور و شور کی جاتی ہے۔
انتظار کی یہ تو وہ مثالیں ہیں جن کا ہماری زندگی سے روزمرہ کا تعلق ہے۔ کچھ انتظار ایسا بھی ہوتا ہے جو انسان انتظار کرکے کرکے تھک جاتا ہے مگر مایوسی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ پچھلے کئی سالوں سے پاکستان میں بجلی کابحران بہت شدید ہے مگر اس بحران کا حل ابھی تک نہیں نکل سکا۔ مشرف دور دیکھا اس میں بھی ہمیں تسلی اور انتظار کے علاوہ کچھ نہ ملا اس کے بعد زرداری کا دور بھی آیا اس میں بھی آس ، امید اور دل کو بہلانے کے لیے مختلف ہیلے بہانے سنا کر انتظار کروایا کہ شاید یہ بجلی کا بحران اس سال ختم ہوجائے۔ ہمارے پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے پی پی کے دور حکومت میں مینار پاکستان پر جو کچھ کیا وہ آج کل لطیفے کے طور پر سنایا جارہا ہے مگر عملی طور۔۔۔۔۔
اب جب 2013میں الیکشن ہوا تو یہ بجلی کابحران کا خاتمہ صف اول میں شامل تھا۔ ن لیگ حکومت نے بلند و بانگ دعوے کیے اوربجلی کی لوڈشیڈنگ چھ ماہ میں ختم کرنے کا وعدے کرکے عوام کو انتظار کی سولی پر بٹھا دیا۔ ہر سال یہ سوچ کر انتظار کرتے رہے کہ شاید اس سال بجلی کا بحران ختم ہوجائے گا۔ اسی انتظار میں 2017آگیا مگر بحران کا خاتمہ تو دور کی بات تھوڑی بہت کمی بھی واقع نہیں ہوئی۔ اب پھر پاکستانی عوام کو2018میں بجلی کے بحران کے خاتمے کاانتظار کرایا جارہا ہے بلکہ مودی سرکا ر تک بجلی مہیا کرنے کاسنہری خواب بھی دکھانے کی ناکام کوشش کرائی جارہی ہے ۔کیونکہ بقول وزیراعلیٰ پنجاب کہ ’’ہم اگلے سال اتنی بجلی پیدا کریں گے کہ مودی سرکا ر بھی مہیا رکرسکتے ہیں۔‘‘
اللہ کے بندو مودی سے رشتے داری بعد میں پالنا پہلے پاکستان کی ضرورت کی بجلی دے دو تو وہی کافی ہوگا۔ آج ابھی گرمی شروع ہوئی ہے اور بجلی اختتام کو پہنچ چکی ہے۔ جب گرمی عروج پر ہوگی تو پھر بجلی کو ’’دیوا‘‘ لیکر تلاش کروگے توبھی نہیں مل پائے گی۔ بجلی ہماری زندگی میں ایسے شامل ہوگئی ہے جیسے ہوا اور پانی۔ ہمارا چھوٹے سے چھوٹا کام بھی بجلی کے سہارے پر چل رہا ہے۔ ایک دکان سے لیکر صنعت تک سب بجلی کے مرید ہیں۔ بے شک بہت سے لوگوں نے بجلی کے نعم البدل دوسرے ذرائع سے بجلی حاصل کی ہے مگر اس کو حاصل کرنے کے بعد استعمال کی اشیاء مہنگائی کی اتنی اونچی سطح پر پہنچا دیا ہے کہ غریب آدمی اس تک نہیں پہنچ سکتا۔
بزرگوں سے سنا ہے کہ سو سال بعد تو ’’کوڑی‘‘کی بھی سنی جاتی ہے۔اسی انتظار میں ہم رہتے ہیں کہ شاید ملکی حالات تبدیل ہوں اور ہمارے ملک میں خوشحالی آئے اور ہمارے بھی دن سنور جائیں۔بس اسی انتظار میں ہم صبح سے شام کردیتے ہیں اور آخر میں جب کچھ نہ بن پائے تو یہ کہہ کر اپنے آپ کو تسلی دے لیتے ہیں کہ جو اللہ کو منظور تھا وہ ہونا ہے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply