جمہور کا ابہام۔۔زاہد سرفراز

 

ہمارے علمی دیوالیہ پن کا یہ عالم ہے کہ ہم اکیسویں صدی میں بھی جمہوریت کو محض ایک طریقہ انتخاب ہی سمجھتے ہیں ہمارے اس ابہام نے جہاں ہماری علمیت کو مسخ کر دیا ہے وہیں ہماری عملی جدو جہد بھی گمراہی اور جہالت کا شاخسانہ بن کر رہ گئی ہے۔ یقین جانیے آپ کو اپنے بہت سے پی ایچ ڈی ڈاکٹرز سے بھی یہی سننے کو ملے گا کہ جمہوریت ایک طریقہ انتخاب کا نام ہے حتی کہ جناب اقبال بھی شاید یہی سمجھتے تھے ملاحظہ کیجیے۔۔

جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں

بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے!

اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم نے کسی علمی بات کو ہمیشہ اس کے اصل ماخذ سے حاصل کرنے کے بجائے دوسرے یا تیسرے درجے کے کسی ذریعہ علم سے اخذ کیا ہو گا چلو عام آدمی کی حد تک تو یہ بات ٹھیک ہے کہ ان کو نہیں پتہ یا حکمران اس سے نا واقف ہیں کیونکہ وہ رہنمائی کے لیے اپنے اہل علم حضرات سے ہی رجوع کریں گے لیکن کیا ایک اہل علم کا بھی یہی دستور ہونا چاہیے کہ وہ اصل بات کو کسی دوسرے یا تیسرے درجے کے علمی ذرائع سے سمجھ کر عوام تک پہنچائے یا اس کی یہ علمی ذمہ داری ہے کہ وہ اصل ذرائع سے براہِ راست بات کو سمجھ کر آپ کے سامنے اپنی رائے پیش کرے۔

مغرب کے بارے میں اقبال نے کیا کہا، سر سید یا مودودی صاحب کیا کہتے تھے یا شاہ ولی اللہ اور عبیداللہ سندھی کا کیا موقف تھا یہ عوام کے لیے تو اول ذریعہ علم ہو سکتا ہے لیکن اہل علم کے لیے یہ دوسرے یا تیسرے درجے کے ذرائع علم میں شمار ہوتے ہیں، اس سے آپ جو بات سمجھیں گے اس میں بہت سے علمی مغالطے اور ابہام پیدا ہو جاتے ہیں کیونکہ ان میں سے اکثر حضرات مغربی فلسفے سے پوری طرح آگاہ ہی نہیں تھے، اس کے علاوہ وہ معروض ہی موجودہ زمانے کی بہ نسبت یکسر مختلف تھا جس میں ان لوگوں نے جنم لیا۔ اس کے بعد آج تک سماج بہت ترقی کرچکا ہے اس لیے اس کی اشد ضرورت ہے کہ ہم مغربی فلسفے کو اس کے اصل ماخذ سے براہِ ے راست سمجھیں اور پھر کوئی رائے قائم کریں۔ تو پھر تب ہی جا کر وہ ملت اور قوم کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے ، ورنہ ہم اسی طرح جہالت میں مبتلا رہیں گے اور اپنی کمزوریوں اور خرابیوں کے لیے مغرب کو کوستے رہیں گے۔

اپنی اس مختصر تمہید کے بعد اب میں آتا ہوں اصل موضوع کی طرف کہ جمہوریت کیا ہے؟
کیا جمہوریت واقعی محض طریقہ انتخاب کا نام ہے؟ جیسا کہہ عمومی طور پر سمجھا جاتا ہے یا پھر کچھ اور چیز ہے؟
اگر یہ صرف طریقہ انتخاب کا نام ہے تو پھر اس طریقہ کارر سے تو ایک مطلق العنان حکمران کو بھی منتخب کیا جا سکتا ہے ،چند افراد کو بھی منتخب کیا جا سکتا ہے اور بہت سے افراد کو بھی منتخب کیا جا سکتا ہے ، جبکہ ہم جانتے ہیں کہ فرد واحد کی حکومت کم سے کم جمہوری نہیں ہوتی خواہ اس حکمران کو عوام کی اکثریت ہی کیوں نہ منتخب کرے۔

تو ا س کا مطلب ہے پھر جمہوریت کچھ اور شئے ہے اور ہم اسے سمجھنے میں کہیں غلطی کر رہے ہیں پھر جمہوریت کیا ہے؟
اس بات کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے آپ اس ابہامم کو دور کر لیں کہ عوام بھی کبھی حکمران ہوسکتے ہیں کیونکہ بیک وقت یہ ممکن نہیں ہے کہ عوام حکمران بھی ہوں اور رعایا بھی ،چنانچہ یا تو عوام حکمران ہوں گے یا پھر رعایا ہوں گے اگر عوام حکمران ہوں گے تو پھر وہ حکومت کس پر کریں گے اور اگر سارے رعایا میں شامل ہیں تو حکمران کون ہو گا، پہلی بات تو ممکن ہی نہیں ہے کہ عوام حکمران ہوں ۔لہذا یہ ماننا پڑے گا کہ عوام ہمیشہ رعایا ہی رہیں گے اس لیے کہ عوام کا حکمران ہونا محال ہے۔

جب عوام حکمران نہیں ہو سکتے تو پھر لازمی طور پر عوام کے اوپر کوئی نا کوئی حکمران ہو گا تاکہ ریاستی معاملات کو چلایا جا سکے ۔یہاں یہ سوال پیدا ہو گا کہ وہ حکمران اپنی مرضی سے آئے گا ، معاشرے میں موجود چند افراد کی مرضی سے آئے گا یا پھر سب کی مرضی سے آئے گا ان تینوں ممکنہ صورتوں کے نتیجے میں حکومت کی بھی تین ہی ممکنہ صورتیں ہو سکتی ہیں
1- فرد واحد کی حکومت۔۔۔۔ آٹو کریسی
2- چند افراد کی حکومت۔۔۔۔ اولیگارکی
3- کثیر افراد کی حکومت۔۔۔۔ ڈیمو کریسی
11- آٹوکریسی۔

فرد واحد کی حکومت آٹو کریسی کہلاتی ہے، جسے عرف عام میں آمریت بھی کہا جاتا ہے ،جس میں صرف ایک فرد کے احکامات مانے جاتے ہیں اور وہ حکومت میں آتا بھی اپنی مرضی سے ہے یہ ریاستی معاملات چلانے کے لحاظ سے بہت ہی فعال حکومت ہوتی ہے اگر حکمران دیانت دار اور اچھا ہو تو ملک و قوم ترقی کرتے ہیں ورنہ عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور نظامِ زندگی درہم برہم ہو جاتا ہے، پھر اس میں اقتدار کی منتقلی بھی قتل و غارت کا باعث بنتی ہے۔

2-اولیگارکی۔

یہ چند افراد پر مشتمل حکومت ہوتی ہے جس میں بارہ تیرہ یا جتنے بھی افراد ہوں انہی کے احکامات مانے جاتے ہیں اور وہی حکومت کا نظم و نسق بھی چلاتے ہیں اس میں حکومت پر صرف کسی ایک مخصوص قبیلے یا گروہ کا حق سمجھا جاتا ہے اور حکمران کو بھی اسی قبیلے یا گروہ کے افراد اپنی مرضی سے منتخب کرتے ہیں اس میں خرابی یہ ہے کہ کسی ایک قبیلے یا گروہ کے افراد حکومت پر قابض ہو کر عوام کا استحصال کر سکتے ہیں اور نسل در نسل مستقل حکومت پر بھی قابض رہ سکتے ہیں جس سے چھٹکارہ پانا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ اس قبیلے یا گروہ کے افراد مسلسل حکومت میں رہنے کی وجہ سے بہت مضبوط ہو جاتے ہیں اور عرصہ دراز تک حکومتی افعال سرانجام دینے کی وجہ سے سیاست کے رموز و اوقاف سے بھی اچھی طرح واقفیت حاصل کر لیتے ہیں۔

3- ڈیموکریسی ۔

یہ کثیر افراد کی حکومت کہلاتی ہے جس میں حکمران افراد کی تعداد تین چار سو تک یا اس سے زائد بھی ہو سکتی ہے جس کا تعین آبادی کے تناسب کے لحاظ سے کیا جاتا ہے ان افراد کا انتخاب عوام ووٹ کے ذریعے کرتے ہیں اس طرز حکومت میں سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ اس میں ایک تو درمیانے درجے کے افراد منتخب ہو کر آگے آتے ہیں جو زیادہ تر حکومت چلانے کے اہل ہی نہیں ہوتے ،دوسرا حکومت میں موجود افراد کی کثیر تعداد حکومتی خزانے پر ایک بوجھ بن جاتی ہے اور اگر ان افراد کی تنخواہیں بھاری بھر کم ہوں تو یہ عوام کے لیے اور بھی عذاب بن جاتا ہے ،پھر اگر حکمرانوں کا طرز زندگی شاہانہ ہو تو وہ لازمی طور پر ان تنخواہوں سے اپنے اخراجات پورے نہیں کر پائیں گے جس سے کرپشن جنم لیتی ہے جبکہ سرمایہ دارنہ جمہوریت میں تو سرمایہ دار کے علاوہ کسی دوسری کلاس کے فرد کا حکومت میں آنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے کیونکہ الیکشن کے پورے عمل میں کثیر سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے جو ظاہر ہے سرمایہ دار کے پاس ہی ہو سکتا ہے ،لہذا عملی طور پر یہ طرز جمہوریت اریسٹوکریٹک ہوتا ہے جسے جمہوریت سے موسوم کیا جاتا ہے ۔

یہ وہ تین ممکنہ صورتیں تھیں جن کو مختلف ادوار میں اختیار کیا جاتا رہا اب ان تینوں طریقہ کار میں جو سب سے بڑی خرابی تھی وہ یہ تھی کہ حکومت محض صرف انسانی مرضی پر موقوف تھی وہ جیسا چاہتا تھا ویسے حکمرانی کرتا تھا۔ جس طرح چاہتا تعلیمی نظام اختیار کرتا جیسے اس کی مرضی عدالتیں قائم ہوتیں، جیسی چاہتا ویسی معیشت اختیار کرتا اور جیسا چاہتا سماج کو ویسا بنا دیتا۔ مگر تاریخ کے دھارے میں اسلام کی آمد نے انسان کو آئینی حکومت کا تصور دیا جس نے ایک نظام کی تخلیق کو ممکن بنا دیا۔

اب سوال یہ پیدا ہوا کہ اس نظام کے لیے علمیت کونسی اختیار کی جائے گی؟۔۔ وہ علمیت جو مغرب نے اختیار کی، وہ سرمایہ دارانہ علمیت کہلاتی ہے ، جس نے ہیومن ازم کے نام سے ایک نیا ڈسکورس پیدا کیا جس کی تشریح کی ذمہ داری اہل علم حضرات کے سپرد تھی اس ڈسکورس نے ہیڈن ازم کے فلسفے کو بنیاد بنایا ،جو انسانی خوشی اور نفسانی تسکین پر بیس کرتا ہے۔ گویا انسان pleasure seeking animal قرار دے دیا گیا اب یہ خوشی اور نفسانی تسکین چونکہ سرمائے کے حصول کے بغیر ممکن نہ تھی ،اس لیے نظام معیشت کے طور پر سرمایہ داری کو اختیار کیا گیا تاکہ سرمائے میں لامحدود اضافہ کر کے انسانی خوشی اور نفسانی تسکین کو ممکن بنایا جا سکے لیکن اس عمل میں ارتکاز سرمایہ کو مطلق آزادی دے دی گئی جس سے معاشرے میں ایک ایسی کلاس پیدا ہوئی جس نے اپنی دولت کے بل بوتے پر مجموعی انسانیت کو غلام بنا لیا۔

اس طرح مغرب میں جو طرز حکومت اختیار کیا گیا وہ جمہوری نہیں ہے بلکہ وہاں اریسٹوکریٹک جمہوری حکومتیں قائم ہیں جن میں حکمران افراد کی تعداد کم سے کم ہوتی ہے اور ان کا طرز رہن سہن کسی حد تک سادہ ہوتا ہے مگر تمام پالیسیاں سرمایہ دار کی مرضی اور منشاء کے مطابق بنائی جاتی ہیں جبکہ عوام اپنی خوشی اور نفسانی تسکین کے لیے سرمایہ دار کے غلام ہوتے ہیں جن کو بظاہر تو آزادی دے دی جاتی ہے مگر ان کی سوچ اور عمل کو میڈیا اور رول آف لاء کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے۔

یہ ہے اصل حقیقت جس کو ہم محض طرز انتخاب کا نام دیتے ہیں، درحقیقت وہ طرز انتخاب نہیں بلکہ حکومت میں موجود حکمرانوں کی کثیر تعداد اور ہیومن ازم کے سرمایہ دارانہ فلسفے کے تسلط کا نام ہے، جسے ہم عوام کی حکومت کا نام دے کر اپنے لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں۔ اس ضمن میں مذہبی طبقہ بھی شدید قسم کے ابہام کا شکار ہے ،کوئی کہتا ہے اسلام میں جمہوریت ہے کوئی اسلام کو شوریٰ کی وجہ سے جمہوریت کا علمبردار سمجھتا ہے جبکہ اسلامی حکومت تھیوکریٹک اولیگارکی کہلاتی ہے جمہوریت نہیں ہوتی اور نہ ہی جمہوریت سے اس کا دور تک کوئی تعلق ہی بنتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ حکومت کس طرح کی ہوتی ہے اور اس کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے۔۔ اس میں حکمران کون ہوتا ہے، اصل میں یہ انسان کی حکومت نہیں ہوتی بلکہ کائنات کے اس مالک کی حکومت ہوتی ہے جس نے اس کائنات کو تخلیق کیا ہے لیکن وہ تو معاشرے میں موجود نہیں ہوتا پھر حکومت کیسے کرتا ہے، وہ حکومت اپنے اتارے گے احکامات کے ذریعے کرتا ہے، انسان کا کام صرف ان احکامات کا نفاذ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ھے کہ حکومت کا نظم نسق چلانے والے کو حکمران نہیں سمجھا جاتا بلکہ اسے خلیفہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ھے یعنی منتظم اعلی۔
چنانچہ سب سے پہلے ویسا معاشرہ تخلیق کیا جاتا ہے جسس میں اللہ کی مرضی سے انسانوں کی خدمت کے لیے اعلی درجے کے افراد پیدا کیے جاتے ہیں جو سب سے بہترین انسان ہوتا ہے وہی خلیفہ ہوتا ہے ۔اس نظام میں کسی کم علم یا خائن شخص کو حکومت نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی کسی ایسے شخص کو حکومت کی باگ ڈور دی جا سکتی ہے جو خود کو خلافت کے لیے پیش کرے ،اگرچہ اس میں خلیفہ چننے کا باقاعدہ ایک طریقہ کار ہے مگر وہ طریقہ کار جمہور یا عوام کی مرضی کا نہیں بلکہ اللہ کی مرضی کا ہوتا ہے جو اس کے دیے گے نظام کے مطابق اختیار کیا جاتا ہے
اسلامی معاشرتی عمل کے نتیجے میں جو بہترین افراد پیداا ہوتے ہیں وہ آٹومیٹک اسلامی مجلس شوری کے ممبر قرار پاتے ہیں جو خلیفہ کے انتخاب کیلیے اجلاس بلاتے ہیں اور اپنے اس اجلاس میں سب سے بہترین فرد کو مشاورت سے اسلامی حکومت سونپ دی جاتی ھے اس خلیفہ کو پھر عوام اپنی اطاعت کا اوتھ دیتے ہیں جسکے بعد وہ اپنی کابینہ یا حکومت میں شامل افراد کا انتخاب کرتا ھے یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ھے کہ انسان کو یہ طرز حکومت کیوں اختیار کرنا چاہیے
وہ اس لیے کہ اس نظام میں اللہ کی مرضی کو انسان کےے بہترین مفاد میں سمجھا جاتا ہے ۔ جسکی وجہ یہ ھے کہ اس حکومت کا فائدہ بلواسطہ یا بلاواسطہ طور پر انسان کو ہی حاصل ہوتا ہے ، حاکم یعنی رب کو اس حکمرانی سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی اسے انسان سے کسی طرح کا کوئی لالچ ہی ھے اس حکمران کے شایان شان بھی یہی ھے کہ وہ صرف دینے والا ہو لینے والا نہ ہو انسان بس اس کی رضا کو اپنی بقاء کا ضامن سمجھ کر خوشی سے راضی ہو کر خود کو اس کے نظام کے سپرد کر دیتا ہے جو اس کی حفاظت اور نشوو نما کا مکمل ذمہ دار ہوتا ہے۔
اسی لیے رب نے کہا ہے کہ اگر زمین کے سارے انسانن مجھ پر ایمان لے آتے تو ان پر آسمان سے رزق اس طرح برستا جیسے آسمان سے پانی برستا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply