دوڑا دینا ہمارا بحرِ ظلمات میں گھوڑے۔۔محمد اشفاق

سی ویو کلفٹن پہ کیکڑا نما گاڑی کو ساحل کی لہروں میں دوڑاتے پھرنے کے بعد جب پارکنگ کی جانب واپس لوٹے تو دو عدد خوبصورت گھوڑوں پر نگاہ پڑی- ایک اسپِ سفید اور دوجا اسپِ سیاہ، جو اصل میں ڈارک براؤن تھا مگر اس کے کالے کرتوتوں، جن کا مفصل ذکر ہونے کو ہے، کی وجہ سے اسے اسپِ سیاہ کا خطاب دیا گیا- باہمی مشورے سے طے پایا کہ لگے ہاتھوں ساحلِ سمندر پر گھڑ سواری کا مزا بھی لیا جائے-

سائیس، کہ اپنی طرز کا ایک ہی مردِ کائیاں تھا، نے میرے سوار ہونے کے اشٹائل ہی سے غالبا” میری اندرونی کیفیات کو بھانپ لیا اور بولا ” صاحب! چلا لو گے یا میں ساتھ چلوں؟”

دیکھیں، ایک تو یہ کہ اپنی ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ کا بیشتر قیمتی وقت ہم نے اغیار یا ایک دوجے پہ لشکرکشی میں صرف کر رکھا، جو ظاہر ہے گھوڑوں پہ ہی کی جاتی تھی- دوم یہ کہ بعض ضعیف خاندانی روایات میں دادا جان مرحوم کی گھڑ سواری کا تذکرہ بھی ملتا ہے- چنانچہ یہ تو طے ہوا کہ اگرچہ ہم نے خود کبھی نہ کی، مگر گھڑ سواری کے جراثیم ہمارے خون میں یقیناً  پائے جاتے ہیں- لیکن اگر ایسا تھا تو گھوڑے پہ سوار ہوتے ہی خون سرد سا کیوں محسوس ہونے لگا؟

“صاحب! چلا لو گے یا میں بھی ساتھ چلوں؟” قدرے بلندآہنگ اور قدرے طنزیہ انداز میں سائیس کے سوال دہرانے پہ میرا مراقبہ ٹوٹا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اسپِ سپید سوار کے ہمراہ، سائیس کی زیرقیادت کوئی سو میٹر آگے جا چکا ہے- اس کے چال چلن پہ غور کیا تو اندازہ ہوا کہ گھوڑا بہرحال موٹرسائیکل کے مقابلے میں کہیں سادہ اور غیرپیچیدہ مشین ہے- جب ہم مؤخرالذکر کو ایک دن میں سات سو کلومیٹر کامیابی سے بھگا سکتے ہیں تو اول الذکر کو چلا لینا کون سا مشکل کام ہے؟ یہ سوچ کر کسی قدر نخوت سے جواب دیا کہ ہاں، ہاں چلا لوں گا، تم بس یہ بتاؤ کہ کرنا کیا ہے؟ اس نے چمڑے کی دو رسیاں سی ہاتھ میں تھما کر گھوڑے کو نیویگیٹ کرنے کا طریقہ سمجھایا اور منہ سے ایک بے ہنگم سی آواز نکلی، جسے سنتے ہی گھوڑا حرکت میں آ گیا-

اس حرکت میں مگر برکت مفقود تھی- اللہ جانے اسے میں یا میرے بیٹھنے کا انداز پسند نہیں آیا تھا، یا اس کی باگیں میں نے غلط انداز سے پکڑ رکھی تھیں، یا میری ایڑیوں کا دباؤ اس کے پیٹ پر غلط انداز سے پڑ رہا تھا، بجائے صراطِ مستقیم میں سفر کرنے کے وہ سیاہ رو مسلسل دائیں مڑنے پہ آمادہ تھا- ایک تو اس قدر ہموار زمین پہ اس قدر شدید جھٹکے میری توقع کے خلاف تھے، دوسرا وہ اس کا مسلسل دائیں جانب غچہ دینا میرا دل دہلائے جا رہا تھا- اسے راہِ راست پر لانے کے کئی اٹکل پچو آزمائے، حتیٰ کہ تھوڑی ہمت کر کے آگے جھک کر اس کا کان تک مروڑنے کی کوشش کی، مگر وہ مجہول جانور آمادہ شر ہی رہا- بلکہ اس کی سرکشی اس حد تک بڑھ گئی کہ مجھے لگا وہ مجھے گرا دینے ہی کے درپے ہے-

مقامِ شکر ہے کہ ساحل پہ آوارہ روح کی طرح منڈلاتے پروفیشنل فوٹوگرافر کی خدمات حاصل نہیں کی گئی تھیں، ورنہ میرے چہرے پہ اڑتی ہوائیاں ریکارڈ پہ آ جاتیں- کالا میرا تختہ الٹنے کی کوشش کرتا اب سفید کے خطرناک حد تک قریب ہو چکا تھا اور مجھے ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں اس کے اوپر ہی نہ جا چڑھے، کہ سفید گھوڑے کے سائیس نے دوسرے ہاتھ میں اس کی رسی تھام لی- میرا گھوڑا بدبخت بھی یوتھیا ہی نکلا- اس کی تمام تر تیزی طراری، شوخی و سرکشی مجھ جمہوری قوتوں کے نمائندے کیلئے ہی تھی- اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں لگام آتے ہی کسی بھیڑ کی طرح معصوم بن کر چلنے لگا-

خدا لگتی کہوں تو گھڑ سواری کا لطف اسی میں ہے کہ آپ کے گھوڑوں کی باگ ڈور سائیس نے سنبھال رکھی ہو، ساحلِ سمندر کی ٹھنڈی خوشگوار ہوائیں آپ سے اٹکھیلیاں کرتی پھر رہی ہوں، سمندر کی شوریدہ سر موجیں آپ کے گھوڑوں کے سموں پر سر پٹخ رہی ہوں، نیلے آسمان پر سفید پرندے اڑانیں بھر رہے ہوں اور آپ اپنے ہم سفر سے سمال ٹاک کرنے میں مشغول ہوں- گوکہ اس سمال ٹاک کے دوران مجھے اپنی آواز کہیں بہت دور سے آتی، یا کہیں بہت نیچے سے نکلتی محسوس ہو رہی تھی، پھر بھی اس مختصر سے وقت میں، میں نے خود کو سرکارِ انگلشیہ کا لائق و فائق وائسرائے محسوس کیا- مگر عیش و نشاط کا یہ دورانیہ ضرورت سے زیادہ مختصر ثابت ہوا- کاش کہ کوئی حکیمِ حاذق یا عبقری والے اس ٹائپ کے پرکیف لمحات کو طویل تر کرنے کا کوئی نسخہ بھی افادہءعام کیلئے مشتہر فرماویں تو کتنا اچھا ہو-

ہوا یوں کہ ایک مخصوص یا غیر مخصوص مقام پر رک کر سائیس نے گھوڑوں کا منہ طرف میکڈونلڈز شریف کے کیا اور یہ کہتے ہوئے رسیاں چھوڑ دیں کہ اب گھوڑے آپ کو خود واپس لے جائیں گے- اس کا اتنا کہنا تھا کہ میرے سیاہ رو، سیاہ باطن اسپ نے گویا ہوا میں ایک زقند بھری اور۔۔۔ ذرا یہیں رک جائیں-

اب میں ہمہ تن گوش ہوا، سائیس کے فرمودات سننے میں مگن تھا، اس لئے میرا اوپری دھڑ بالکل ساکت تھا- جبکہ کسی نامراد نیوٹن کے کسی منحوس قانونِ حرکت کے طفیل میرا نچلا دھڑ اس زقند میں گھوڑے کے ساتھ شامل تھا- نتیجہ یہ نکلا کہ جھٹکے سے میرا سر گھوڑے کی دم سے جا ٹکرایا- اس کمرتوڑ قسم کے سٹنٹ کا فری میں مظاہرہ کرنے کے بعد میں نے سنبھلنے کی اپنی سی کوشش کی مگر اب معاملہ میرے بس میں نہیں رہا تھا- میری بدبخت سواری کو واپس جانے کی نامعلوم کیا جلدی تھی- آٹو ہوتے ہی اس نے ٹربو گئیر لگایا، پیچھے سے نوس کا اخراج بھی کیا ہوگا اور گویا ہوا سے باتیں کرنے لگا- اس کے ہوا سے یا کسی سے بھی باتیں کرنے پہ مجھے مطلق اعتراض نہ تھا مگر حالت یہ تھی کہ پاؤں کے ناخنوں سے لے کر سر کے بالوں تک “انگ انگ پھڑکے میرا” والی کیفیت تھی- ایک ایک بال، ایک ایک مسام، ایک ایک پٹھا اور ایک ایک جوڑ اچھلے چلے جا رہا تھا- مگر یہ اچھل کود بیرونی اعضاء تک بھی محدود رہتی تو غنیمت تھا-

دل تو خیر اسپِ سیاہ کی پہلی جست کے ساتھ ہی اچھل کر حلق میں آن اٹکا تھا اور تاحال وہیں پایا جاتا تھا- دیگر اعضائے رئیسہ و خبیثہ مثلا” گردے، پھیپھڑے، جگر، معدہ، آنتیں وغیرہ اچھل اچھل کر ایک دوسرے کے ساتھ جگہ بدل رہی تھیں- فنشنگ پوائنٹ جو بمشکل پانچ چھ سو میٹر دور ہوگا، اب صدیوں کی مسافت پہ لگنے لگا تھا- میکڈونلڈز کی عمارت اور ملحقہ پارکنگ میں کھڑی گاڑیاں ہوا میں تین تین فٹ اوپر اچھل رہی تھیں- تجربے سے ثابت ہوا کہ ایسے مواقع پر آیتہ الکرسی پڑھنا نہایت مفید ثابت ہوتا ہے، مزید تجربے سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ایسے مواقع پر آیۃالکرسی بھول بھی سکتی ہے- یونہی حرکت تیز تر اور سفر آہستہ آہستہ جاری تھا کہ اچانک ہواؤں کے دوش پہ سفر کرتی اپنے ہم سفر کی ایس او ایس کال سماعتوں سے ٹکرائی-

گردن موڑ کر دیکھنے میں جان جانے کا اندیشہ تھا، اس لئے آواز کی ٹون، پچ، ڈیپتھ اور فریکوئنسی پہ غور کر کے یہ نتیجہ نکالا کہ وہ جو شاہسوار بنے پھرتے تھے، حال ان کا بھی میرے والا بلکہ ابتر ہی ہے- اب مجھے کچھ کرنا چاہئے، مگر کچھ بھی کرنے کا تمام تر بوجھ گھوڑے نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا تھا- ترلے کرنے والے انداز میں اسے پچکار کر ڈرتے ڈرتے باگ کھینچی- حیرت انگیز طور پر کمال تابع فرمانی سے اس نے اپنی رفتار مدھم کر لی- اپنی قسمت کو مزید آزماتے ہوئے اسے بائیں جانب مڑنے کا انڈیکیٹر دیا تو وہ نہایت سمجھداری سے بائیں مڑ گیا- اس کا اسی قدر تعاون غنیمت سمجھا مبادا مزید احکامات کی بجاآوری اس کی طبع نازک پہ پھر گراں گزرے-

اب سیاہ گھوڑا سفید گھوڑے کے دوش بدوش چل رہا تھا- دور دور سے ہم سفر کو اپنی بھرپور اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کا یقین دلایا اور منزل قریب ہونے کی آس دی- منزل پہ پہنچے، زمین پر قدم رکھا تو بے اختیار سجدہ ریز ہونے کو جی چاہا، مگر سائیس کو دانت نکوستے دیکھ کر رکوع ہی سے قیام کو لوٹے- بہت دیر تک پاؤں کے نیچے زمین لرزتی کانپتی محسوس ہوتی رہی- یہ بیگار مفت کی نہیں تھی، معاوضہ یا تاوان بھرنے کو والٹ نکالا تو وہ بھی تھر تھر کانپ رہا تھا، جانے کیوں؟

اپنے مستقر و مقام الیٰ حین کو لوٹ کر دو گولیاں بروفن نگلنے کے بعد بستر پہ اوندھا ہو کر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ گھوڑا درحقیقت نہایت ہی شاندار سواری ہے- مگر اس کا کماحقہ لطف اٹھانے کیلئے اس میں کچھ معمولی سی، چھوٹی چھوٹی آلٹریشنز ضروری ہیں- ایک عدد ہینڈل، اگلی پچھلی بریک، تھروٹل اور کلچ اور دو مناسب سائز کے شاکس کی جوڑیاں لگا دی جائیں تو یقین جانیں گھوڑے جیسی کوئی سواری نہیں- اور اگر اگلے پچھلے اشارے بھی لگ سکیں تو کیا ہی بات ہے-

Advertisements
julia rana solicitors

آپ کیا کہتے ہیں؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply