سو فیصد نظریاتی ،اصولی وصولی سیاست ۔۔آصف محمود

اتنی دیر میں تو دلہن کے ہاتھوں پر لگی مہندی کے رنگ پھیکے نہیں پڑتے جتنی دیر میں ہماری 100فیصد نظریاتی سیاست کے رنگ اترنا شروع ہو گئے ہیں ۔ لوگ پریشان ہیں کہاں نواز شریف کا نظریاتی بیانیہ اور کہاں مفاہمت کے یہ تازہ اسلوب ۔نواز شریف کی تازہ سیاست کے دو پہلو بہت نمایاں ہیں ۔ اول : سرکاری وسائل جھونک کر بھر پور جلسے کر کے یہ کامیاب تاثر دیا جا رہا ہے کہ میری سیاسی قوت ابھی قائم ہے۔ دوم : ساتھ ہی یہ عرضی بھی ڈالی جا رہی ہے کہ بندہ ناچیز پوری شرافت سے پرانی تنخواہ پر کام کرنے کو تیار ہے ۔ اس لیے بندے کے ساتھ شفقت کا معاملہ فرمایا جائے ۔

شام ڈھلی تو وزیر اعظم سپریم کورٹ حاضر ہوئے ۔ چیف جسٹس کے ساتھ اس ملاقات کی درخواست خود وزیر اعظم نے کی تھی ۔ کہاں وہ کروفر کہ ارشاد ہوتا تھا کروڑوں عوام کے منتخب نمائندے کو’’ پانچ بندے‘‘ کیسے نکال سکتے ہیں اور کہاں یہ عجز و نیاز کہ جناب وزیر اعظم خود درخواست کر کے صرف ’’ایک بندے‘‘ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ کہاں وہ طنطنہ کہ ہم پارلیمان کی با لادستی کی لڑائی لڑ رہے ہیں اور کہاں یہ برخورداری کہ ارشاد ہوا ’’تعلیم اور صحت کے بارے چیف جسٹس کے ویژن پر مکمل عمل کریں گے‘‘۔ اللہ کے بندے ایک بھرم قائم رکھنے کے لیے ہی کہہ دیا ہوتا کہ تعلیم اور صحت کے بارے آئین میں دیے گئے ویژن پر مکمل کریں گے ۔

اصولی سیاست کا مگر یہی کمال ہے ، گلے پڑتی ہے تو لگتا ہے قدیم قبائل کا کوئی جنگجو میدان کارزار میں اتر آیا ہے اور پاؤں پڑتی ہے تو محسوس ہوتا ہے قدیم یونان کے کسی سردار کا غلام کورنش بجا لا رہا ہے۔ جب گلے پڑنے کا وقت تھا تو کہا گیا ایک وزیر اعظم کو ’’ پانچ لوگوں‘‘ نے کیسے نکال دیا۔اور جب پاؤں پڑنے کی گھڑی آئی تو ایک وزیر اعظم ’’ ایک بندے‘‘ کی خدمت میں درخواست کر کے پیش ہوا اور نہ صرف پیش ہوا بلکہ اس ’’ ایک بندے‘‘ کے ویژن کے مطابق کام کرنے کا اعلان بھی فرما دیا ۔

چلیں آپ یہ مت بتائیں کہ آپ کو چیف جسٹس سے ملاقات کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی لیکن جناب اتنا تو بتا دیجیے کہ اس ایک ملاقات میں آپ کی فکر اتنی ڈرائی کلین کیسے ہو گئی کہ کل تک کام کرنے والے افسروں کو عدالت میں بے عزت کیے جانے کا شکوہ کرنے والے وزیر اعظم کی یوں کایا پلٹ ہو گئی کہ دلوں کے وزیر اعظم کے ویژن کی بجائے چیف جسٹس کے ویژن کے فضائل بیان کرنے لگ گئے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس مختصر ملاقات میں آپ کو اچھی طرح سمجھا دیا گیا ہو کہ جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ جو کیا گیا ایسا اب سوچیے گا بھی مت اور آپ کو اس بات کی خوب اچھی طرح سمجھ آ گئی ہو؟ فرض کریں ایسی ہی ایک ملاقات چیئر مین سینیٹ نے جناب چیف جسٹس کے ساتھ کی ہوتی اور ملاقات کے بعد باہر آ کر کہا ہوتا کہ میں سینیٹ کو چیف جسٹس کے ویژن کے مطابق چلاؤں گا ۔ اہل دربار تو اپنی پیرانہ سالی کا لحاظ کیے بغیر شدت جذبات میں اپنا منہ ہی نہ نوچ لیتے ۔

کہا جاتا چیئر مین کی تو عزت ہی نہیں ہے، اب یہ اپنے ساتھ ایوان کو بھی بے عزت کرا رہا ہے۔ اب مگر ان کے اپنے وزیر اعظم نے اپنی گڈ گورننس ’ ’ ایک بندے‘‘ کے ویژن کے مطابق چلانے کا اعلان کیا ہے تو یاروں پر سکتہ طاری ہے کیونکہ اہل دربار میں اس بات پر اتفاق ہے کہ عزت اور اصول بحق دربار محفوظ ہیں ۔ میمو گیٹ کیس میں اپنے کردار پر میاں نوازشریف اب نادم ہیں مگر جس روز وہ میمو گیٹ سیکنڈل میں عدالت تشریف لے گئے اس روز میں بھی کمرہ عدالت میں موجود تھا ۔ میاں نواز شریف کورٹ روم نمبر ون میں کھڑے ہوئے اور کیس پر بات کرنے کی بجائے تحریک وکلاء میں اپنے کردار پر بات شروع کر دی ۔ عدلیہ بحالی تحریک میں میاں صاحب کا ایک بھرپور کردار تھا اور اب پہلی بار وہ عدالت میں چیف جسٹس افتخار چودھری کی عدالت میں آئے تو ان کی جانب سے یہ تمہید کچھ اتنی نا مناسب بھی نہ تھی ۔

ہمارا خیال تھا وہ عدلیہ بحالی تحریک میں اپنے کردار کا سرسری سا ذکر کر کے کیس کی طرف آئیں گے مگر ایسا نہ ہوا ۔ اپنے کردار کا تذکرہ کرنے کے بعد انہوں نے افتخار چودھری صاحب کی تعریفیں شروع کر دیں ۔ یہ سلسلہ اتنا طویل اور بوجھل ہو گیا کہ خود افتخار چودھری کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور انہیں کہنا پڑا ان باتوں کو چھوڑیں اور موضوع کی طرف آئیں ۔میاں صاحب نے پھر بھی قصیدہ پڑھنا بند نہ کیا تو چیف جسٹس کو ذرا سخت لہجے میں کہنا پڑا کہ غیر متعلقہ باتوں کو چھوڑ کر کیس کی بات کریں ۔ اس کے بعد میاں صاحب نے وارفتگی کے عالم میں ایک جمہوری حکومت کے خلاف وہ فرد جرم عائد کی جس پر اب وہ پچھتا رہے ہیں ۔ میاں صاحب کا یہ پچھتاوا بہت سارے سوالات کو جنم دے رہا ہے ۔

میاں صاحب آئی جے آئی کے حوالے سے پچھتائیں تو بات سمجھ میں آتی ہے ، میاں صاحب ایک دور میں بے نظیر بھٹو کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر سیاستدان کا کردار ادا کرنے پر پچھتائیں تو یہ بات بھی قابل فہم ہے اور ہم یہ گماں کر سکتے ہیں کہ وہ پرانی باتیں تھیں اوراب وقت نے میاں صاحب کو بدل دیا ہے ۔ لیکن میمو گیٹ میں اپنے کردار پر ان کی ندامت ایک سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے کیونکہ کام میاں صاحب نے اپنے سیاسی کیریئر کے آغاز میں نہیں بلکہ اس وقت کیا تھا جب وہ دو دفعہ وزیر اعظم اور ایک دفعہ کی جلاوطنی کا تجربہ جیب میں ڈال کر وطن لوٹے تھے اور دعوی فرمایا جاتا تھاکہ جلاوطنی نے میاں صاحب کو بہت بدل دیا اب وہ ایک عام سیاست دان نہیں ایک مدبر ہیں۔ مدبر صاحب اس وقت کوٹ اور ٹائی لگا کر میمو کیس میں خود پیش ہوئے تھے ۔ والہانہ پن کا یہ عالم تھا کہ وکیل تک نہ کیا ۔ خود روسٹرم پر کھڑے ہو کر دلائل دیے۔ اب وہ اس پر نادم ہیں اور اہل دربار کا اصرار ہے قوم اس ندامت پر بغلیں بجائے کیونکہ میاں صاحب واحد رہنما ہیں جنہوں نے اپنی غلطی تسلیم کی۔ اہل دربار سے مگر سوال یہ ہے کہ جس غلطی پر میاں صاحب نادم ہیں یہ تو بتا دیجیے وہ غلطی انہوں نے کی کیوں؟ نا تجربہ کار تو وہ اس وقت تھے نہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب دو ہی صورتیں باقی بچتی ہیں ۔ اول یہ کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ نے اشارہ کیا اور وہ اس اشارے پر لبیک کہتے میمو گیٹ کا پر چم اٹھائے سپریم کورٹ پہنچ گئے ہوں۔ اس صورت میں ان کی دیانت ایک سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔ دوم یہ کہ وہ کسی کے اشارے پرحرکت میں نہ آئے ہوں بلکہ انہوں نے صدق دل سے سمجھا ہو میمو گیٹ میں فریق بننا چاہیے کیونکہ غداری ہوئی ہے لیکن آج ان پر آشکار ہوا ہو کہ وہ غلطی پر تھے۔ اس صوورت میں ان کی بصیرت سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔ یہ رہنمائی تو اب اہل دربار ہی فرما سکتے ہیں یہ دیانت کا بحران تھا یا بصیرت کا ۔ تو کیا نظریاتی سیاست کی کہانی بس اتنی ہے کہ جب جہاں اور جو اصول چلتا دکھائی دے اسے اختیار کر لیا جائے۔ وصولی سیاست کا امکان روشن ہو تو وصولی سیاست شروع کر دی جائے۔ وصولی سیاست کے دروازے بند ہو جائیں تو اصولی سیاست شروع کر دی جائے۔ حصول اقتدار کے لیے ضروری ہو تو اسٹیبلشمنٹ کی انگلی پکڑ لی جائے اور اقتدار کے امکانات ختم ہونے لگیں تو نظریاتی سیاستدان بن جایا جائے۔ پورا ایک سو فیصد نظریاتی۔ جی ہاں ایک سو جس کا نصف پچاس ہوتے ہیں۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply