خان کا سین۔۔ذوالنورین سرور

زید اور بکر جنگل میں ایک درخت کے نیچے رہتے تھے۔زندگی کے دن یونہی کٹ رہے تھے کہ ایک دن بکر نے مکان بنانے کی سوچی۔اس نے جب اپنا ارادہ زید کے سامنے رکھا تو وہ کچھ پریشان سا ہو گیا !!! زید نے اسے کہا کہ آخر تمھیں درخت کے نیچے زندگی گزارنے میں کیا مسئلہ ہے ؟؟؟ بکر نے جواب دیا کہ میاں دھوپ پڑتی ہے.  زید نے جواب دیا کہ میاں دھوپ کسی ایک طرف پڑتی ہے، تم اٹھ کر دوسری طرف چلے جاؤ … بکر نے کہا کہ بارش ہوتی ہے تو میں بھیگ جاتا ہوں !!! زید نے کہا کہ یہ تو کوئی ایسا مسئلہ نہیں… اگر مکان بنا لو گے اور اس سے باہر ہو گے تو وہاں بھی بارش میں بھیگ جاؤ گے، ویسے بھی تو نہانا ہوتا ہے۔ کوئی صحیح مسئلہ بیان کرو تاکہ میں بھی سمجھ سکوں. زید نے کہا میاں اور تو کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن میں نے ان باتوں کی وجہ سے مکان ضرور بنانا ہے اب تم یہ بتاؤ کہ میرا ساتھ دو گے یا نہیں؟؟؟
بکر نے کہا کہ میں تو اپنے درخت کے نیچے بہت خوش ہوں، تم جاؤ اپنا مکان بناؤ !!!
خیر بکر صاحب وہاں سے اٹھے اور سامنے ایک قطعہ زمین پر جا کر کھڑے ہو گئے اور کہا کہ یہاں مکان بنے گا.۔
زید صاحب بیٹھے انھیں دیکھتے رہے۔پھر کیا تھا زور و شور سے مکان کی تعمیر شروع ہو گئی۔ بکر صاحب کو مکان بنانے کا صفر تجربہ تھا۔بس دیکھا اور سنا تھا کہ یوں بنا کرتے ہیں۔سب سے پہلے تو انھوں نے ایک سانچہ تیار کیا اس میں مٹی اور پانی ڈال کر گارا بنایا اس سانچے کو آگ پر رکھ کر ایک اینٹ تیار کی، اس طرح ایک دو، نو، سو غرض ہزاروں اینٹیں تیار ہو گئیں۔ اینٹوں کے بعد کا کام زیادہ صبر آزما تھا… سیمنٹ بجری، سریا، لکڑی کے پھٹے، بانس کے ڈنڈوں کا اکیلے انتظام کیا۔ اور تو کوئی تھا نہیں ایک زید تھا جو مزے سے اپنے درخت کے نیچے بیٹھا سب کچھ دیکھ رہا تھا۔
خیر اب کبھی دیواریں ٹیڑھی ہو جائیں ، کبھی چھت بیٹھ جائے، کبھی کمروں میں دروازہ رکھنا بھول جائیں، کبھی بارش ہو جائے، کبھی گارے میں پانی زیادہ ڈال بیٹھیں۔جب بھی کوئی ایسا مسئلہ آئے تو زید صاحب ہنسیں اور انھیں کہیں کہ یار کس کام میں پڑ گئے ہو ؟؟؟ یہ نہیں ہونا اور تم سے تو بالکل نہیں ہونا۔ دفع کرو یار ادھر آ جاؤ، دیکھو درخت کے نیچے کتنا آرام ہے. بکر بھی دھن کا پکا تھا اپنے کام پر لگا رہا۔
یہاں اس کہانی کو روکتے ہیں اور آپ سے ایک سوال پوچھتے ہیں کیا آپ ان کرداروں سے واقف ہیں ؟؟؟ ذرا ذہن پر زور ڈالیں۔۔جی ہاں یہ دراصل عمران خان اور اس کے مخالفین کی کہانی ہے۔ جب اٹھارہ کروڑ بندے کرپشن کے سائے تلے چین کی بانسری بجا رہے تھے تو ایک آدمی اٹھا۔اس نے کہا کرپشن سے پاک، نیا پاکستان بنے گا۔اس نے کبھی اتنے کرپٹ ملک کو کرپشن سے نجات دلوائی  نہیں تھی۔اس سے بہت غلطیاں ہوئیں اور اس کے ناقدین ہر غلطی پر ہنستے رہے۔اسے یاد دلاتے رہے کہ یہ کام اس کے بس سے باہر ہے۔ اسے سب چھوڑ کر واپس “اپنوں” میں آ کر بیٹھ جانا چاہیے۔
یہ کہانی میں نے ڈیڑھ سال پہلے لکھی تھی۔چھاپی نہیں کیونکہ اس وقت یہ نامکمل تھی۔ اب اسے میرا خیال ہے عمران خان کی شخصیت اور سیاسی جدوجہد کے تجزیے  میں بہرحال استعمال کیا جا سکتا ہے.خ۔
اس کہانی کی بنت ایک خیال کی بنیاد پر کی گئی کہ خان ایک اچھا آدمی ہے اور اس کا آنا ملک کے لئے اچھا ہو گا۔ اس کہانی پر بہت سے سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں جن میں سے چند اہم کا ہم ذکر کر دیتے ہیں۔کیا کرپشن سے کسی ملک کو پاک کیا جا سکتا ہے ؟؟؟
کیا ملک کا وزیر اعظم اسے کرپشن سے پاک کر سکتا ہے ؟؟؟
کیا خان صاحب کی پارٹی کرپشن سے پاک ہے جسے وہ برسراقتدار لانے کی جدوجہد کر رہے ؟؟؟
کیا کرپشن ہی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ؟؟؟ وغیرہ وغیرہ۔
عمران خان کی شخصیت کے تجزیے  میں یہ بات تو بہرحال ملحوظ خاطر رکھنا ہو گی کہ وہ ایک intellectual being ہے !!! ایسے آدمی کے اندر طاقت کی آرزو پیدا ہونا بالکل فطری ہے۔ہم ان کے اس فطری میلان کے حوالے سے کوئی بدگمانی نہیں رکھتے.۔سوال یہ ہے کہ طاقت کا موجودہ نظام ان کی اس فطری ضرورت کو کیسے پورے کرے اور جن لوگوں کی حمایت انھیں درکار ہے وہ کیسے حاصل ہو ؟؟؟
عمران خان ایک پڑھے لکھے آدمی ہیں اور حیرانی کی بات ہے کہ ان کے مخالفین کی وجہ سے ان کے پاس نظریاتی سیاست کرنے کا بھی بھرپور موقع تھا لیکن انھوں نے اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا !!!
مثلاً آپ نے ایک سادہ سی بات کرنی ہے کہ حکومت ایسے آدمی کی ہونی چاہئے جو مزدور کے ساتھ ہو نہ کہ فیکٹری مالکان کے ساتھ ہے۔ ہم کچے گھروں والوں کے ساتھ ہیں نہ کہ سیمنٹ کی فیکٹری والوں کے ساتھ وغیرہ وغیرہ۔ یعنی ان کا سیاسی بیانیہ تو بنا بنایا تھا جو آج تک سامنے ہی نہیں آ سکا !!! نظریاتی سیاست کا ایک فائدہ یا نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ سے اختلاف کرنے کی بنیاد مہیا ہو جاتی ہے.خ۔اس وقت ان کی سیاست اور جماعت شتر بے مہار ہے اور چاہنے والے پریشان۔
دوسرا اہم نکتہ جو طاقت حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے وہ یہ کہ آدمی دائرہ جمہور اور شخصی دائرہ کا فرق سمجھے۔
میکملن برطانیہ کے وزیر اعظم ہو گزرے ہیں۔ ایک دفعہ ان سے انٹرویو میں سوال پوچھا گیا کہ آپ کس چیز سے ڈرتے ہیں؟؟؟ انھوں نے جواب دیا” واقعہ سے میاں واقعہ سے” ۔واقعات ہی تو انسان کی پہچان بنتے ہیں۔ انہی سے تو وہ تاریخ میں جانا جاتا ہے۔حتی کہ جو لوگ اس سے کبھی نہیں ملے ہوتے انھیں اس کے ذکر سے گھن آنے لگتی ہے۔اس کی سادہ سی مثال ہے جنرل امیر عبداللہ خان۔ آپ پاک فوج کے ایک جنرل گزرے ہیں لیکن شومئی  قسمت کہ غلط وقت پر فوج کی کمان ان کے ہاتھ میں تھی.خ۔
سقوط ڈھاکہ جنرل امیر عبداللہ خان کی براہ راست غلطیوں کا نتیجہ نہیں تھا۔ انھوں نے کوئی ایسی بڑی جنگی غلطی نہیں کی تھی جس کے نتیجے میں ہمیں دشمن کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانی پڑی۔تاریخ کا قابل سے قابل جنرل بھی ہمیں اس شکست سے نہیں بچا سکتا تھا۔لیکن وہ واقعہ کی اہمیت کو نہیں سمجھے۔ اگر آپ کا ہندوستانیوں سے ملنا جلنا ہو تو آپ کو پتا چلے کہ وہ بھی ہماری بولی ہی بولتے ہیں۔ان کے ساتھ کسی بھی بات پر ہنسا جا سکتا ہے۔لیکن وہ واقعہ بہت بڑا تھا۔ ایسے موقعوں پر انسان کا عمل ہی اس کے اختیار میں ہوتا ہے۔دائرہ جمہور میں کیسے چلنا ہے؟؟؟ یہ بات جنرل صاحب کو سمجھ نہ آئی ۔وہ آج بزدلی اور بے حمیتی کا ایک استعارہ ہیں۔ جس نام سے وہ جانے جاتے ہیں وہ یہاں لکھنا کچھ نسل پرستانہ سا معلوم ہوتا ہے۔
خیر تو دائرہ جمہور اور شخصی دائرہ میں بہت فرق ہوتا ہے۔ آپ شخصی دائرے میں اپنے خاندان ، دوست احباب سے براہ راست بات کرتے ہیں۔ اپنے عمل کی ان سے معافی مانگ سکتے ہیں، توجیہات پیش کر سکتے ہیں، الغرض ان کی سوچ پر اثر انداز ہو کر اسے بدل سکتے ہیں۔
دائرہ جمہور، جس میں خان صاحب کے لئے پوری پاکستانی قوم آتی ہے،  بدقسمتی سے وہ اس کی نفسیات سے واقف نہیں۔ مفلوک الحال اور متوسط طبقے کی سماجی اور اخلاقی قدروں سے انھیں کماحقہ آگاہی نہیں۔
وہ آزادی اور عقلی بنیادوں پر اپنے معاملات کو چلا رہے ہیں جس کا انھیں پورا حق حاصل ہے لیکن پاکستانی سماج ان چیزوں کو کیسے دیکھتا ہے اور یہ ان کی سیاست پر کس طرح اثرانداز ہوتی ہیں۔اس کا انھیں ادراک نہیں۔
واقعہ کی اہمیت وہ نہیں جان پائے۔اس معاملے میں ان کے ناپسندیدہ ترین شخص کا بیان کئے بغیر چارہ نہیں۔ بینظیر کی وفات پر وہ ہسپتال پہنچے تھے۔۔بی بی کے جیالے ان کے سینے لگ کر روئے تھے وہ منظر ابھی تک قوم کے حافظے  سے محو نہیں ہوئے۔سینٹ کے الیکشن میں وہ تین کلومیٹر جا نہ سکے اور ووٹر جو زیادہ تر پڑھا لکھا طبقہ ہے، پڑھائی  اور روزگار کے سلسلے میں دیہی   علاقوں سے نکل کر سینکڑوں میل دور بڑے شہروں میں مقیم ہے۔ اس سے مطالبہ ہے کہ ووٹ ڈالنے جاؤ۔
نظریاتی سیاست نہ کرنے کی وجہ سے جس قماش کے لوگ ان کے ساتھ نتھی ہیں اس کا تو بیان کرنا ہی سمجھ سے باہر ہے…  مثال کے طور پر اگر ہم جوہری سطح پر جا کر جہانگیر ترین اور نواز شریف کا تجزیہ کریں تو سر مو کوئی فرق  نہیں ہے۔ماسوائے یہ کہ اول الذکر، مؤخر الذکر کی تمام خوبیوں سے محروم ہے۔تمام برائیاں جبکہ اس میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے تو ابھی آپ انھیں جوہری سطح پر لے کر ہی نہیں گئے.خ۔جہانگیر ترین  چھوٹے نواز شریف ہیں۔ ایک سرمایہ دار کو اٹھا کر دوسرے کو وہ طاقت کے دسترخوان پر بٹھانا چاہتے ہیں۔ یہ کیا بوالعجبی ہے ؟؟؟
ان “پیران پیر” اور “روشن ضمیر” حضرات کو اپنے جلو میں لے کر جوانوں اور تبدیلی کی بات کرنا شاید اتنا بے سود ہے کہ ملک اور قوم کے ہاتھ تو خیر کیا ہی آنا، شاید خان صاحب بھی مثل سکندر ہی ثابت ہوں۔۔  “زید” کو لگتا ہے کہ مکان نہیں بنایا جا سکتا۔ اس لاحاصل جدوجہد کا حصہ بن کر میں کیوں خود کو غلط ثابت ہوں۔ لیکن مکان تو بننا ہے، بکر نہیں بنائے گا تو کوئی  اور بنائے گا !!!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply