• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سامراجی مالیاتی اداروں کی انسان کش لوٹ کھسوٹ۔۔ ہمایوں احتشام

سامراجی مالیاتی اداروں کی انسان کش لوٹ کھسوٹ۔۔ ہمایوں احتشام

استعماریت نے کرہ ارض پر قوموں کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ کے لیے جو نت نئے بہروپ بھرے ہیں ان میں ننگی جارحیتوں سے لیکر “ترقی میں معاون ومددگار” بن کر استحصال کے صدہا ہتھکنڈے شامل ہیں. اس کی ایک مثال برٹین ووڈ معاہدے 1944 کے بعد عالمی مالیاتی فنڈ یا آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا قیام تھا۔ ان اداروں کا بظاہر مقصد جنگ سے تباہ معیشتوں کو سہارا دینا اور پسماندہ ممالک کی امداد کرنا تھا، مگر اپنے جوہر میں چونکہ یہ استعماری طاقتوں کی لوٹ کھسوٹ کے لیے کی جانے والی تخلیق تھیں، اسی لیے سرمایہ دارانہ لوٹ مار اور استحصال کا انسانیت کش پہلو تو اس میں موجود ہونا ہی تھا۔ پس تخلیق سے ہی ان اداروں نے “ساہوکار ” یا “بنیے” کا کردار ادا کیا۔ ان کا طریقہ واردات بڑا سادہ ہے یعنی کسی ملک کو معاشی طور پر باجگزار ریاست بنانے کے لیے منظم سازش کا پورا پلاٹ تخلیق دیا جاتا ہے۔ جیسے، پہلے کسی ملک کے حالات استعماری فوج یا خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے خراب کرائے جاتے ہیں، مثلاً چلی اور گوئٹے مالا میں منتخب عوامی حکومتوں کے خلاف امریکی استعمار کی سازشیں اور ان کا انہدام، یا پھر استعمار کا لبرل فوجی آمریت کی حوصلہ افزائی کرنا، بلکہ نیولبرلزم کو لانے کے لیے فوجی آمریت اور ملائیت کی مکمل حمایت کرنا مثلاً ایرانی ملائیت کا قیام یا مارکوس اور ضیاء الحق اور سہارتو کی نیو لبرل آمریتوں کا ظہور،یا پھر ان “سرکش” ریاستوں کو “دہشت گرد” کا چارج لگا کر ان پر پابندیاں لگانا مثلاً کیوبا اور عوامی جمہوریہ کوریا پر لگائی گئیں پابندیاں۔ ایسے میں جب سرکش ملک گھٹنے ٹیک دے تو پھر اس کو معاشی امداد کی مد میں اپنا باجگزار بنانے کی بھیانک سازش پر عمل درآمد شروع ہوجاتا ہے۔ ویسے آج تک تیسری دنیا کا جو بھی ملک اس ادارے یعنی آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسا وہ آزاد نہ ہوسکا، بلکہ اس کی حالت ابتر ہوتی چلی گئی۔
مثال دیتے ہیں گھانا کی، ایک خوبصورت افریقی ملک سونا اور معدنیات سے مالامال، زرخیز زمین چاول کی کاشت کے لیے نہایت موزوں۔ کوامے نکرومہ کی حکومت نے ملک میں کاشتکاروں کو سبسڈیاں دیں، جس سے ملک چاول کی پیداوار میں خودکفیل ہوتا چلا گیا، یعنی وہ اتنا چاول اگاتا کہ اپنی آبادی کو بھی کھلاتا اور باقی برآمد کرکے کافی زرمبادلہ کماتا۔ کوامے نکرومہ کی سامراج مخالف حکومت چونکہ گھانا کو ترقی کی جانب لے جارہی تھی اور ملکی معیشت کا انحصار آئی ایم ایف سے ختم کرکے خودکفالت کی حکمت عملی پہ کاربند تھی، پس نکرومہ حکومت کو سازش کے تحت فوجی کُو کرکے گرایا گیا اور امریکی حمایت یافتہ، لبرل فوجی آمر جنرل جوزف آرتھر اقتدار میں آگئے۔ کچھ ہی عرصے میں زیر تعمیر معیشت کا فوجی آمر کی نیو لبرل غلط پالیسیوں کی وجہ سے دیوالیہ نکل گیا اور آخر گھانا نے آئی ایم ایف کے در پہ دستک دے دی۔ بھاری قرضہ دیا گیا جو رشوت ستانی، بدعنوانی اور کمیشن کی مد میں ختم ہو کر بہت ہی کم ملکی مفاد میں استعمال ہوا۔ ایسے میں نئے بجٹ کی تشکیل دینے کے لیے سرمایہ کی ضرورت تھی جبکہ ملکی خزانے کا عالم یہ تھا کہ پچھلے قرض کا سود لوٹانے کی بھی استطاعت نہیں تھی اور مزید قرض حاصل کرنا بھی ضروری تھا۔ پس گھانا نے پھر سے آئی ایم ایف کے در پہ دستک دی، اب کی بار آئی ایم ایف نے جہاں بڑی سماجت کے بعد قرض دیا وہاں ساتھ ہی کٹوتیوں پہ مبنی ایک “آسٹریٹی پروگرام” بھی دیا۔ اس پروگرام کے تحت سب سے پہلے شمالی علاقوں کے چاول کے کاشتکاروں کو دی گئیں سبسڈیاں ختم کی جائیں، اور کاشتکاروں پہ بھاری ٹیکس نافذ کیے جائیں۔ اس پروگرام کے نفاذ نے گھانا کی زراعت کا دیوالیہ نکال دیا، کاشتکاروں کے پاس سرمایہ ختم ہوگیا، چاول کی کاشت ہونا بند ہوگئی۔ وہ لوگ جو ملکی ضروریات کا چاول اگاتے تھے اب خود اپنے کھانے کے لیے چاول مانگنے پہ مجبور ہوگئے۔ کاشتکاروں نے زراعت سے منہ موڑ کر شہروں کی جانب رخ کرلیا۔ اور حالت یہ ہوگئی کہ جو گھانا چاول برآمد کرتا تھا، اب وہ مغربی ممالک سے چاول درآمد کرنے پہ مجبور ہوگیا۔ اب گھانا زرعی اجناس کی ستر فیصد اشیا امریکہ سے درآمد کرتا ہے۔
اس ساری روداد کو بغور دیکھا جائے تو اس سے معاشی فائدہ صرف استعمار کا ہوا، اور استعمار اپنی سرمائے کی برآمد کی حکمت عملی کو کامیابی سے ترقی دیتے ہوئے گھانا کو “جدید نوآبادی” بنانے میں کامیاب ہوگیا۔
اسی طرح جس شرح سے پچھلے دس سال میں پاکستان پر آئی ایم ایف کا قرضہ بڑھا ہے، اس شرح کی نظیر ملک کی پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔ ریاستی قرض کی اوسطاً شرح 2000 سے 2007 کے درمیان 6.6 فیصد فی سال تھی، مگر 2007 سے 2013 کے درمیان ریاستی قرض کی شرح 21.5 فیصد فی سال تک جا پہنچی۔ اب یہ شرح 30% کے آس پاس ہے۔
جون 2013 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان پہ بیرونی قرضہ 62 بلین ڈالر تھا۔ جبکہ داخلی قرضہ بیرونی قرضے سے کہیں زیادہ تھا جس کا تخمینہ 75 بلین ڈالر کے قریب ہے۔ 60 سال تک حکومتوں نے 6040 بلین روپے قرض لیا جبکہ اکیلی پیپلز پارٹی کی 2008-13 تک کی حکومت نے صرف پانچ سال میں 8215 بلین روپے کا قرض حاصل کیا۔ 2013-17 کے درمیان بیرونی قرضوں کی شرح میں 30% تک اضافہ ہوا اور یہ 60 بلین ڈالر سے بڑھ کر 79.2 بلین ڈالر ہوگیا۔ یعنی اس حکومت نے 18 بلین ڈالر کا بیرونی قرض لیا۔ 2017 کے سال میں پاکستانی تاریخ میں ایک ہی ماہ میں سب سے زیادہ قرض لیا گیا یعنی 10.1 بلین ڈالر۔
کچھ دن پہلے پاکستانی میڈیا میں یہ خبر گردش کررہی تھی کہ پاکستانی ذرمبادلہ کے ذخائر کم ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ اس صورتحال پر قابو پانے کیلئے سٹیٹ بنک آف پاکستان نے اچانک پاکستانی روپے سے اپنی سپورٹ ہٹا کر اسے آزاد چھوڑ دیا جس سے امریکی ڈالر 116 روپے کا ہوگیا ہے اور اوپن مارکیٹ میں 118 روپے تک بک رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ماہرین کے بقول پاکستانی روپے کی موجودہ ناقدری ایسے ہی جاری رہے گی کیونکہ حکومت کے پاس غیرملکی قرضوں یعنی آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے سود کی رقم ادا کرنے کے پیسے نہیں ہیں اور ملک کو بنک کرپٹ سے بچانے کیلئے ایسا کرنا ضروری تھا تاکہ زیادہ سے زیادہ فارن کرنسی پاکستان آ سکے۔
پاکستانی کرنسی کی ناقدری سے پاکستان جو پہلے ہی قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے مزید قرضوں کے بوجھ تلے آ گیا ہے۔
جب پاکستانی روپیہ ڈالر کے مقابلے میں کم ہوتا ہے تو پاکستان کے قرضہ میں خود بخود اضافہ ہو جاتا ہے۔ مثلاً پہلے ڈالر 115 روپے کا تھا اور اگر پاکستان کا قرضہ ایک ارب ڈالر ہو تو پاکستانی روپے میں 115 ارب روپے بنتا تھا۔ اب چونکہ سات روپے بڑھ گیا ہے تو وہی قرضہ 122 ارب روپے ہوگیا ہے۔
آئی ایم ایف کے بقول پاکستان اچھا مقروض ملک ہے کیونکہ یہ اپنی اقساط باقاعدگی سے ادا کرتا ہے، حتیٰ کہ 2005 میں جب بدترین زلزلہ آیا یا 2010 میں سیلاب آیا یا شمالی وزیرستان کے آپریشن کے دوران جب لاکھوں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے، انفراسٹرکچر تباہ ہوگیا، اس کی از سر نو بحالی کے لیے کثیر رقم درکار تھی تو پاکستان کے حکمران طبقے نے لوگوں پر بدترین ٹیکس لگا کر، اور ان کے فلاح و بہبود کے لیے مختص فنڈز سے بے شرمی سے پیسے چوری کر  کے آئی ایم ایف کو دیے۔ یعنی عوام کو فائده پہنچانے کے بجائے ان حکمرانوں نے آئی ایم ایف کی جیب کو بھرا، وہ بھی شدید بے شرمی سے۔
2013 میں ایکسٹینڈیڈ فنڈ سہولت کے تحت پاکستان کو تین سال کا تازہ بیل آوٹ پیکج 6.6 بلین ڈالر فراہم کرنے کا معاہدہ ہوا، اور ساتھ ہی وہ طریقہ بھی نافذ کرنے کا حکم دیا جس کے  ذریعے عوام الناس کی انتڑیوں سے یہ سرمایہ نکالنا ہے۔ نج کاری، اور زیادہ ٹیکسوں کا نفاذ، بجلی اور توانائی کے شعبے میں سبسڈیوں کا خاتمہ، زیادہ سے زیادہ بجلی کے ٹیرف میں اضافے۔
ان حالات میں ٹیکسوں کا نفاذ جبکہ ملک کے 131 میں سے 80 اضلاع میں خوراک کی قلت کا سامنا ہے، اور 48.6 فیصد آبادی کو پیٹ بھرنے کی خوراک بھی دستیاب نہیں، ایک بدترین لوٹ مار اور استحصال کے مترادف ہے، کیا یہ اعدادوشمار آئی ایم ایف کو نہیں پتا ؟ ان کو بالکل پتا ہیں لیکن اگر انسانیت کا احساس کیا تو بدترین منافع نہیں کماسکیں گے۔
آئی ایم ایف کے 6.64 بلین ڈالر کے بیل آوٹ پیکج کے علاوه ایشیائی ترقیاتی بینک 1.6 بلین ڈالر کا قرض دے گا اور ورلڈ بینک 1.5 بلین ڈالر کا۔ ان کے قرضوں کی واپسی کرنی ہوگی، اور ان کا بھی نج کاریوں اور کٹوتیوں کا ایک منصوبہ نافذ کرنا ہوگا اور اس سب کا ملبہ بدترین ٹیکسوں اور کٹوتیوں کی صورت میں عوام پر گرے گا ۔
معیشت دانوں کے مطابق آئی ایم ایف کے قرضوں نے پاکستان میں طبقاتی تفریق کی خلیج کو مزید وسیع کردیا، اور امیر غریب کے درمیان خلیج پہلے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔
اب تیس ریاستی اداروں کو منتخب کیا گیا ہے کہ ان کی نج کاری کی جائے گی، پینتیس پہلے ہی نج کاری کی جانے والی فہرست میں موجود ہیں۔ یہ نج کاریاں بیروزگاری اور غربت میں بدترین اضافہ کریں گی، اور یہ سب آئی ایم ایف کے ایما پر ہورہا ہے۔
اگر یہ 65 ادارے فروخت کردیے جاتے ہیں تو مطلب 1.2 ملین افراد بیروزگار ہوجائیں گے اور ان سے جڑے خاندان غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے۔ آئی ایم ایف کے حکم پہ ٹیکس ریونیوز 9.7 % سے بڑھا کے 15% تک 2018 کردیے گئے۔ استعمال شدہ کپڑے جن کو اکثریت غریب لوگوں ہی استعمال کرتے ہیں ان پہ سیلز ٹیکس 2% سے بڑھا کر 5% کردیا گیا۔ تاہم اس سارے دورانیے میں جاگیردار یا سرمایہ دار طبقے پہ کوئی قابل ذکر ٹیکس نافذ نہیں ہوا۔ چونکہ پاکستان اپنے ٹیکس وصولی کا تخمینہ حاصل نہیں کرسکا تو ریاست نے خریداری ٹیکس کی مد میں اشیائے خوردونوش کے نرخ بڑھا دیے، جس سے سارا بوجھ اکثریتی طبقے یعنی غریبوں پہ آگرا۔
غربت کا عالم یہ ہوگیا ہے کہ ریاست نے چوہے مارنے والی گولیوں اور سر کے بال سیاہ کرنے والے سفوف کالے پتھر پر پابندی عائد کردی ہے کیونکہ غربت سے تنگ لوگوں کے لیے خودکشی کرنے کا سب سے سستا طریقہ یہی ہے۔ “شان پاکستان” مینار پاکستان خودکشی کرنے والوں کا موزوں ترین مقام بن چکا ہے۔ ماں باپ کا غربت سے تنگ آ کر بچوں سمیت اجتماعی خودکشی کرنے کے بہت سے واقعات ریکارڈ ہوچکے ہیں۔
46% آبادی جس ملک کی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرتی ہو وہاں تعلیم سے زیادہ روٹی اہم ہوتی ہے۔ اس آدھی آبادی کے بچے سکولوں میں نہیں جاتے، کیونکہ تعلیم ناممکن بن چکی ہے، یا ریاست تعلیم کو بھی فروخت کرنے کے درپے ہے۔
بیرونی قرضوں نے معیشت کو کمزور کردیا ہے، کرنسی کو بے وقعت کردیا ہے، لوگوں کی قوتِ خریدختم کردی  ہے  اور امیر طبقے کے مفادات کو مزید مستحکم کیا ہے۔

Facebook Comments

ہمایوں احتشام
مارکسزم کی آفاقیت پہ یقین رکھنے والا، مارکسزم لینن ازم کا طالب علم، اور گلی محلوں کی درسگاہوں سے حصولِ علم کا متلاشی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply