شہاب الدین پر اتناواویلاکیوں؟۔۔۔ نازش ہما قاسمی

مشہور دانشور میلکم ایلکس نے کہا تھا کہ’’اگر تم میڈیا کے حربوں سے چوکنا نہیں تو یہ تمہیں مظلوموں کا بدخواہ اور جابروں کا خیرخواہ بنا کر چھوڑے گا‘‘۔ ہمارے ملک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے میڈیا پر جب ہم طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ کس طرح میڈیا ظالم کو رہبر و مسیحا اور مظلومین کوگنہگار و دہشت گرد بنائے ہوئے ہے۔ میڈیا کی نظر میں فلسطین کی آزادی کے لیے لڑنے والا دہشت گرد ہوجاتا ہے لیکن وہیں غاصب اسرائیل اسے تہہ و تیغ کرتے ہوئے امن عالم کا پیامبر کہلاتا ہے۔ افغانستان، اپنے بقا کی جدوجہد کرنے والا، آتنک واد قرار دیا جاتا ہے لیکن امریکہ، ان کی آزادی کو سلب کرنے والا، ان کے بنیادی حقوق کی پامالی کرنے والا انسانیت کا عظیم مسیحا کہلاتا ہے۔

ہمارے ملک میں بھی میڈیا کا یہی رویہ ہے اگر مسلمان کسی جرم میں ملوث ہوتا ہے تو اسے اس طرح بریکنگ نیوز کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے جیسے اس مجرم کی وجہ سے ہندوستان کی بقا کو خطرہ لاحق ہے اس کے جرم سے ہندوستانی جمہوریت شرمندہ ہے لیکن وہیں اگر کوئی غیر مسلم جرائم میں ملوث پایا جاتا ہے تو اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہوتا۔ میڈیا کے اسی دوہرے رویہ کی وجہ سے ملک کی عالمی پیمانے پر جو شبیہ خراب ہوئی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں یہاں تک کہ نام نہاد انسانیت کے علمبرداروں کو بھی یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہندوستانی میڈیا محض یک رخی اپنانے کی وجہ سے اقلیت اور دیگر طبقوں کے حقوق کی پامالی کررہا ہے۔ وہ ظالم کو رہبر اورمظلوم کو دہشت گرد بناکر پیش کررہا ہے۔

ابھی ہم بات کرتے ہیں شہاب الدین کی جو لالو یادو کی پارٹی سے ہیں، گیارہ سال سلاخوں کے پیچھے رہنے کے بعد گزشتہ دنوں وہ کورٹ کے حکم کی بناء پر جیل سے باہر آئے ہیں۔ دبنگ لیڈر شہاب الدین کے باہر آنے پر اپوزیشن جماعتوں نے بہار حکومت پر حملہ تیز کر دیا ہے۔ بی جے پی لیڈر اور سابق وزیر اعلی سشیل کمار مودی نے کہا کہ حکومت کے اشارے پر پولیس اور وکلاء کے ڈھیلے پن کی وجہ سے شہاب الدین کو ضمانت ملی ہے۔ مودی نے مزید کہا کہ نتیش حکومت میں جان بوجھ کر شہاب الدین کو باہر نکالنے کا راستہ تیار کیا گیا۔ سشیل مودی نے ٹویٹ کیا کہ اب ایک طرف لالو یادو بدعنوانی کی علامت ہوں گے اور دوسری طرف شہاب الدین دہشت گردی کی علامت ہوں گے۔ مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے کہا کہ نتیش کمار مجبوری کے وزیر اعلی ہیں اور آر جے ڈی کے دباؤ میں شہاب الدین کے جیل سے نکلنے کا راستہ تیار کیا گیاہے ۔بی جے پی ترجمان پریم شکلا نے کہا کہ شہاب الدین کے جیل سے باہر آنے پر حکومت پر برستے ہوئے کہا کہ صوبے میں شراب پینے والوں کو جیل میں ڈالا جا رہا ہے، جبکہ خون پینے والوں کو باہر لایا جا رہا ہے۔ شہاب الدین کو نکالنے کے الزامات میں بہار کے نائب وزیراعلیٰ تیجسوی یادو نے کہا کہ یہ عدالت کا فیصلہ ہے حکومت کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس فیصلے پر برسنے والے لوگ ہائی کورٹ کی توہین کر رہے ہیں۔

یہ سب تو اپوزیشن اور مخالف پارٹیوں کے بیانات تھے لیکن میڈیا جس کا رویہ جانبدارانہ ہوناچاہئے اگر وہ شہاب الدین کی رہائی کو غلط قرار دیتی ہے تو اسے دیگر ہندو دہشت گردوں کے تئیں بھی وہی رویہ اپناناچاہئے نہ کہ ٹرائل کرتے ہوئے ملک میں امن وامان کی فضا کو بگاڑنے کا کام۔ ملکی میڈیا نے پورے ہفتے جس طرح سے شہاب الدین کا ٹرائل کیا ہے، ایسا لگتا ہے ان کے جیل سے باہر آنے کی وجہ سے ہندوستان کو خطرہ عظیم لاحق ہے۔ اگر وہ اسی طرح باہر کی دنیا میں رہے تو میڈیا کی نظروں میں شاید برادران وطن کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ہمیں افسوس ہوتا ہے ملکی میڈیا پر آج شہاب الدین کے رہا ہونے پر جتنا واویلا مچایا جارہا ہے ، جس طرح سے نام نہاد دانشوران کو بلاکر ان کی رہائی پر ڈسکس کیا جارہا ہے، کیا اسی طرح امت شاہ کی رہائی پر ہوا تھا؟ کیا اسی طرح ونجارہ کی رہائی پر ڈسکس ہوا تھا؟ کیا اسی طرح مایاکوڈنانی کے مسئلے پر واویلا مچایا گیا تھا ؟ نہیں ہر گز نہیں، تو پھر آخر شہاب الدین کی رہائی پر اتنا ہنگامہ کیوں بپا ہے؟ محض اس وجہ سے نا کہ وہ ایک مسلمان نام رکھتا ہے۔ ہمیں شہاب الدین کی طرف داری نہیں کرنی، وہ یقیناً جرم کی دنیا میں رہے ہیں۔ ان پر تاوان، اغوا اور مرڈر جیسے الزامات ہیں۔ وہ یقیناًمجرم تھے لیکن اپنے جرم کی سزا وہ گیارہ سال کاٹ کر کورٹ کے حکم پر ضمانت پر رہا ہوئے ہیں ۔ اگر ان کی رہائی پر ہنگامہ مچانا درست ہے تو ملکی میڈیا امت شاہ کے وقت کہاں تھا جب کورٹ نے انہیں گجرات بدر کیا تھا ۔ کیوں کورٹ کے فیصلے کو نہیں مان رہے تھے کیوں ان کے گجرات بدر پر واویلا مچا رہے تھے اسی لیے نا کہ وہ ہندو نام تھا اسی لیے نا کہ وہ آر ایس ایس سے واابستہ ہیں۔ حالانکہ شہاب الدین کے جرائم، ان بابو بجرنگی،مایا کوڈنانی،سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر، کرنل پروہت جیسے سنگین نہیں ہیں، پھر بھی زرد صحافت کے علمبردار وں نے محض مسلم نام ہونے کی وجہ سے انہیں ہندوستان کے لیے خطرہ عظیم بنانے پر تلے ہیں۔

شہاب الدین پر بھی وہی الزام ہے جو اترپردیش میں راجہ بھیا، ڈی پی یادو، برج بھوشن سنگھ، ہری شنکر تیواری اور بہاری میں سورج بھان ،منا شکلا، پپو یادو اور دیگر پرہیں اور ان میں سے زیادہ تر لیڈران شہاب الدین کے مقابلہ ان پر بڑے سنگین الزام ہیں لیکن وہ پارٹیوں کے اہم رکن اور ممبران اسمبلی ہیں۔ اگر یہ تمام مذکورہ اشخاص سرعام قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے جمہوریہ ہند کا پوری دنیا میں مذاق بناتے ہیں تو میڈیا کی نظر میں وہ صرف اور صرف ایک مجرم ہوتے ہیں۔ لیکن یہی نام کسی یعقوب میمن، مختار انصاری یا شہاب الدین کا ہوتا ہے تو پورا میڈیا یک طرفہ فیصلہ سناتے ہوئے عدالتی احکام کی سرعام رسوائی کرکے اسے براادران وطن کی نگاہوں میں ان کی جان کا سب سے بڑا دشمن اور ملک عزیزکے لیے سب سے بڑا خطرہ بنا کر پیش کرتا ہے ۔ اتنی شدت سے بریکنگ نیوز چلائی جاتی ہے کہ برادراان وطن تو خیر، مسلمان بھی اسے دہشت گرد گردانتے ہوئے احتجاج کرنے نکل پڑتے ہیں ۔ شہاب الدین مختار انصاری اور دیگر جرائم پیشہ افراد کے تئیں نفرت کا اظہار کرتے ہوئے اخبارات میں ان کے خلاف بیان دیتے ہیں۔ ان سے اظہار برأت کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ملکی میڈیا کے نزدیک چھوٹا راجن جیسا شخص راشٹرواد ڈان کہلاتا ہے اس کے جرائم کو ہلکا کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ وہ مجبوری میں غلط راستے پر گیا۔ اور 93بلاسٹ میں ماخوذ یعقوب میمن دہشت گرد قرار دے کر پھانسی کے پھندے پرجھلادیا جاتا ہے اور اسی طرح سادھوی پرگیہ کی بلاسٹ کی جگہ گاڑی پائے جانے پر اس کے تئیں نرم رویہ اپنایا جاتا ہے۔ بابو بجرنگی مسلم بچوں کو مار کر خود کو شیواجی اور مہارانا پرتاپ جیسا سمجھ رہا ہے لیکن ملکی میڈیا ان جیسے دہشت گردوں کے کیس پر مکمل خاموشی اختیار کئے ہوتی ہے۔ مظفر نگر میں فرضی ویڈیو دکھا کر مسلمانوں کی نسل کشی کرنے والے سوم مسیحا کہلاتا ہے اور اس فسادات میں مرنے والے بے قصور دہشت گرد قرار دئے جاتے ہیں۔ کیا یہ رویہ صحیح ہے؟ اس طرح مظلوم کو دہشت گرد اور دہشت گرد کو خیر خواہ بناکر پیش کیا جانا ملک کی سلامتی کے لئے درست ہے؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply