کیا سلطان محمود غزنوی لٹیرا حکمران تھا؟۔احید احسن

 محمود غزنوی کی نسل میں حکمرانوں میں سے ایک ابراہیم بڑا دین دار اور رعایا پرور حکمران تھا۔ رات کو غزنی کی گلیوں میں گشت کرتا اور محتاجوں اور بیواؤں کو تلاش کرکے ان کی مدد کرتا۔ وہ اعلیٰ درجے کا خوش نویس تھا۔ ہر سال ایک قرآن مجید لکھتا جسے ایک سال مکہ معظمہ اور دوسرے سال مدینہ منورہ بھیجتا۔ اس کو محلات سے زیادہ ایسی عمارتیں بنانے کا شوق تھا جن سے عوام کو فائدہ پہنچے چنانچہ اس کے عہد میں 400 سے زائد مدارس، خانقاہیں ، مسافر خانے اور مساجد تعمیر کی گئیں ۔ اس نے غزنی کے شاہی محل میں ایک بہت بڑا دوا خانہ قائم کیا جہاں سے عوام کو مفت ادویات ملتی تھیں ۔ اس دوا خانے میں خصوصاً آنکھ کی بیماریوں کی بڑی اچھی دوائیں دستیاب تھیں ۔

یہ کیسے چور اور لٹیرے مسلمان حکمران ہیں جو عوام کو اتنی زبردست سہولیات دے رہے ہیں اور راتوں کو گشت کرتے ہیں پاکستان تقریباً 200 سال تک غزنی کی سلطنت کا حصہ رہا اور اس زمانے میں اسلامی تہذیب کی جڑیں مضبوط ہوئیں ۔ کوہ سلیمان کے رہنے والے پٹھانوں نے اسی زمانے میں اسلام قبول کیا اور لاہور پہلی مرتبہ علم و ادب کا مرکز بنا۔ کیا عوام کو اسلام سے متعارف کرانے والے یہ حکمران لاہور کو علم و ادب کا مرکز بنوانے والے چور اور لٹیرے تھے؟ غزنوی حکمران علم و ادب کے بڑے مربی و سرپرست تھے۔ خصوصا محمود غزنوی کے دور کے فردوسی اور البیرونی کے کارنامے دنیا آج بھی یاد کرتی ہے۔

فردوسی کا شاہنامہ فارسی شاعری کا ایک شاہکار سمجھاجاتا ہے اور دنیا اسے آج تک دلچسپی سے پڑھتی ہے۔ البیرونی اپنے زمانے کا سب سے بڑا محقق اور سائنس دان تھا۔ اس نے ریاضی، علم ہیئت، تاریخ اور جغرافیہ میں ایسی عمدہ کتابیں لکھیں جو اب تک پڑھی جاتی ہیں ۔ غزنویوں کے دور میں لاہور پہلی مرتبہ علم و ادب کے مرکز کے طور پر ابھرا۔ اس زمانے میں فارسی کے کئی ادیب اور شاعر یا تو لاہور میں پیدا ہوئے یا یہاں آکر آباد ہوئے۔ یہاں کے شاعروں میں مسعود سعد سلمان اور عوفی بہت مشہور ہیں ۔ ان کا شمار فارسی کے صف اول کے شعراء میں ہوتا ہے۔ یہ دونوں شاعر سلطان ابراہیم اور اس کے جانشینوں کے زمانے میں تھے۔ کیا اتنے عظیم علمی کارناموں کا سبب بننے والے یہ لوگ چور اور لٹیرے تھے؟

لاہور کے علماء میں حضرت علی بن عثمان ہجویری (400ھ تا 465ھ) بہت مشہور ہیں ۔ وہ ایک بہت بڑے ولی تھے جن کی وجہ سے لاہور کے علاقے میں اسلام کی اشاعت ہوئی اور بہت سے ہندو مسلمان ہوئے۔ حضرت ہجویری آج کل داتا گنج بخش کے نام سے مشہور ہیں ۔ انہوں نے 40 سال تک اسلامی دنیا کے بہت بڑے حصے کی سیر کی اور آخر میں لاہور آکر رہنے لگے۔ ان کا مزار لاہور میں موجود ہے۔ حضرت ہجویری ”کشف المحجوب“ نامی ایک کتاب کے مصنف ہیں ۔ یہ علم تصوف میں فارسی زبان کی پہلی کتاب ہے اور تصوف کی سب سے اچھی کتابوں میں سے ہے۔ یہ کتاب انہوں نے لاہور میں لکھی تھی۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی ہوگیا ہے۔ عہد غزنوی کی دو عظیم ہستیاں ابو سعید ابوالخیر (357ھ تا 440ھ) اور سنائی (465ھ تا 545ھ) ہیں ۔ ابوالخیر اپنے عہدے کے بڑے صوفی اور ولی تھے۔ ان کی شہرت زیادہ تر رباعیوں کی وجہ سے ہے کیونکہ وہ فارسی زبان کے پہلے بڑے رباعی گو شاہر تھے۔ ان کی یہ رباعیاں آج بھی مقبول ہیں اور خدا سے محبت اور اخلاقی تعلیم ان کا خاص موضوع ہے۔ سنائی غزنویوں کے آخری دور کے سب سے بڑے شاعر ہیں اور فارسی میں صوفیانہ شاعری کے بانی ہیں ۔ ان کا کلام سوز و گداز اور اخلاقی تعلیم سے بھرا ہوا ہے۔ ابو سعید ابوالخیر کا تعلق خراسان سے تھا اور سنائی کا شہر غزنی سے۔

عربی زبان کا مشہور ادیب بدیع الزماں ہمدانی (متوفی 1007ء ) بھی اسی زمانے سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ ہرات کا رہنے والا تھا۔ اس کی کتاب ”مقامات“ عربی انشا پردازی کا اعلیٰ نمونہ سمجھی جاتی ہے۔ سلجوقی سلطنت 11ویں تا 14ویں صدی عیسوی کے درمیان مشرق وسطی اور وسط ایشیا میں قائم ایک مسلم بادشاہت تھی جو نسلا اوغوز ترک تھے۔ یہ سلطنت 1037ء میں قائم ہوئی جب کہ محمود غزنوی 1030ء میں وفات پا چکا تھا۔پھر کس طرح غزنوی نے اس سلطنت پہ حملے کیے جب کہ یہ سلطنت ہی ان کی وفات کے بعد قائم ہوئی۔ دراصل لوگ ادھوری اور سنی سنائی تاریخ کو سچ سمجھتے ہیں , خود کچھ جاننے کی کوشش نہیں کرتے – ہندوستان پہ حملوں کا جواز خود جے پال نے مہیا کیا تھا بلکہ بار بار معاہدے توڑتا رہا۔ ہمیں کیا فضول ادھوری تاریخ بتائی جاتی ہے

اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ غزنوی خلیفہ بغداد کو دھمکیاں دیتا تھا اور سلطنت پرست تھا۔یہ کون سی دھمکی تھی کہ خلیفہ بغداد نے سلطان محمود غزنوی کو خود ہی یمین الدولہ۔ امین الملت کا لقب دیا تھا اگر خلیفہ کو غزنوی کی طرف سے دھمکی کی بات کو سچ مان لیا جائے۔ محمود غزنوی کی خدمت میں ایک شخص حاضر هوا اور عرض کی کہ: میں مدت سے حضور صلى الله عليه وسلم کے دیدار کا طلب گار تھا، قسمت سے گزشته رات مجھے  آپ صلى الله عليه وسلم کا دیدار کرنے کی سعادت ملی حضور صلى الله عليه وسلم سے میں نے عرض کی يا رسول الله صلی الله عليه وسلم میں ایک ہزار درهم کا مقروض ہوں , اس کی ادائیگی سے عاجز ہوں اور ڈرتا ہوں که اگر اسی حالت میں مر گیا تو قرض کا بوجھ میری گردن پر ہوگا (اس وجه سے بروز قیامت میں پھنس جاؤں ) رحمت عالم, صلي الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا :”محمود سبکتگین کے پاس جاؤ وه تمهارا قرض اتاردے گا. میں نے عرض کی,وه کیسے اعتماد کریں گے? اگر ان کے لئے کوئی نشانی عنایت فرمادی جا ئے تو کرم بالا کرم (یعنی:کرم پر کرم) ہوجاۓ گا. آپ صلي الله عليه وسلم نے فرمایا,جا کر اس سے کہو, “اے محمود! تم رات کے اول حصے میں تیس ہزار (30000) بار درود پڑھتے ہو اور پهر بیدار ہو کر رات کے آخری حصے میں مزید تیس ہزار (30000) بار پڑھتے ہو. اس نشانی کے بتانے سے (ان شآالله عزوجل) وه تمہارا قرض اتار دے گا”. سلطان محمود غزنوی نے جب شاه خير انام صلي الله عليه وسلم کا رحمتوں بهرا پیغام سنا تو رونے لگے اور تصدیق کرتے ہوۓ اس کا قرض اتار دیا اور ایک ہزار درهم مزید پیش کیے. وزراء وغیره متعجب ہو کر عرض گزار ہوۓ! عالی جاه! اس شخص نے ایک ناممکن سی بات بتائی ہے اور آپ نے کبھی  اتنی تعداد میں درود شریف پڑھا  ہی نهیں اور نہ ہی کوئی آدمی رات بھر  میں ساٹھ ہزار بار درود شریف پڑھ سکتا ہے. سلطان محمود عليه رحمة نے فرمایا! تم سچ کہتے ہو لیکن میں نے علماۓ کرام سے سنا ہے که جو شخص دس هزاری درود شریف ایک بار پڑھ لے اس نے گویا دس ہزار بار درودشریف پڑھا۔ میں تین بار اول شب میں اور تین مرتبه آخر شب میں دس هزاری درود پاک پڑھ لیتا ہوں . اس طرح سے میرا گمان تھا که میں ہر رات ساٹھ ہزار بار درود شریف پڑھتا ہوں . جب اس خوش نصیب عاشق رسول صلي الله عليه وسلم نے شاه خير الانام صلي الله عليه وسلم کا رحمتوں بھرا پیغام پہنچایا, مجھے اس دس هزاری درود شریف کی تصدیق ہوگئی , اور گریہ کرنا (یعنی:رونا) اس خوشی سے تھا که علماۓ کرام کا فرمان صحیح ثابت ہوا کہ رسول غیب دان,رحمت للعالمين صلي الله عليه وسلم نے اس کی گواہی دی. جو شخص اتنا بڑا نیک اور عاشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھا،اس کے بارے میں آپ ایک جھوٹے مورخ کی تواریخ کی بنیاد پہ کہتے ہیں کہ غزنوی لٹیرا اور چور تھا۔ فیضان سنت باب:فیضان بسم الله ص166. بحواله (تفسیر روح البیان ج٧ صفحه ٢٣٤ مكتبه عثمانيه كؤٹه)

تاریخ میں تو غزنوی کے بارے میں یہ بھی لکھا ہے۔پھر آپ نے کس طرح لٹیرا اور چور والی بات پہ یقین کیا اور یہ بات نظر انداز کردی کہ وہ اتنا بڑا عاشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تھا۔ کہتے ہیں کہ اس نے ہندوستان پہ اتنے حملے کیے۔کیا ان کو پتہ ہے کہ ان حملوں کی وجہ کیا تھی۔تاریخ پیش کرتا ہوں ۔ جب سامانی حکومت کمزور ہوگئی اور اس کے صوبہ دار خودمختار ہوگئے تو ان میں ایک صوبہ دار سبکتگین (366ھ تا 387ھ) نے افغانستان کے دار الحکومت کابل کے جنوب میں واقع شہر غزنی میں 366ھ میں ایک آزاد حکومت قائم کی جو تاریخ میں دولت غزنویہ اور آل سبکتگین کے نام سے جانی جاتی ہے۔ بعد میں سبکتگین کا خراسان پر بھی قبضہ ہوگیا۔ اسی سبکتگین کے زمانے میں مسلمان پہلی مرتبہ درہ خیبر کے راستے پاکستان میں داخل ہوئے۔ اس زمانے میں لاہور میں ایک ہندو راجہ جے پال حکومت کرتا تھا اس کی حکومت پشاور سے آگے کابل تک پھیلی ہوئی تھی اور اس کی سرحدیں سبکتگین کی حکومت سے ملی ہوئی تھیں ۔ راجہ جے پال نے جب دیکھا کہ سبکتگین کی حکومت طاقتور بن رہی ہے تو اس نے ایک بڑی فوج لے کر غزنی پر حملہ کردیا لیکن لڑائی میں سبکتگین نے اس کو شکست دے دی اور جے پال کو گرفتار کرلیا گیا۔ جے پال نے سبکتگین کی اطاعت قبول کرکے اپنی جان بچائی اور سالانہ خراج دینے کا وعدہ کیا۔ اب سبکتگین نے جے پال کو رہا کردیا اور وہ لاہور واپس آگیا لیکن اس نے وعدے کے مطابق خراج نہیں بھیجا جس کی وجہ سے سبکتگین نے حملہ کردیا اور وادی پشاور پر قبضہ کرلیا۔ راجہ جے پال کی طرف سے غزنی پہ حملہ اور غزنوی سے کیے گئے امن معاہدے کی خلاف ورزی کی بات کیسے نظر انداز کی جا سکتی ہے۔کیا اس کے بعد بھی سلطان ہندوستان پہ حملہ نہ کرتا؟

جنوب میں غزنوی نے رے، اصفہان اور ہمدان فتح کرلئے جو بنی بویہ کے قبضے میں تھے۔ مشرق میں اس نے قریب قریب وہ تمام علاقہ اپنی سلطنت میں شامل کرلیا جو اب پاکستان کہلاتا ہے۔ کیا ایک شیعہ سلطنت جس میں صحابہ کرام پہ گالی تبرا جائز تھا،اس کو اپنی سلطنت میں شامل کرکے اس سے پاک کرنا غلط تھا؟ محمود عدل و انصاف اور علم و ادب کی سرپرستی کے باعث بھی مشہور ہے۔ اس کے دور کی مشہور شخصیات میں فردوسی اور البیرونی کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔یہ کیسا چور اور لٹیرا تھا جو علم و سائنس کی سرپرستی کر رہا ہے۔آپ کہتے ہیں کہ غزنوی نے سلجوقی سلطنت کے خلاف حملے کیے جب کہ سچ یہ ہے محمود کے لڑکے مسعود کے آخری زمانے میں وسط ایشیا کے سلجوقی ترکوں نے غزنوی سلطنت کے شمال اور مغربی حصوں پر قبضہ کرلیا۔ اب سلاطین غزنی کے قبضے میں صرف وہ علاقے رہ گئے جو اب مشرقی افغانستان اور پاکستان پر مشتمل ہیں ۔ تاریخ تو آپ کی بات کے بالکل الٹ بتا رہی ہے۔پھر کس بات پہ آپ یقین کریں گے۔ دور زوال کے غزنوی حکمرانوں میں سلطان ابراہیم (451ھ تا 492ھ) کا نام سب سے نمایاں ہے۔ اس نے اپنے 40 سالہ دور حکومت میں سلطنت کو مستحکم کیا، سلجوقیوں سے اچھے تعلقات قائم کئے اور ہندوستان میں مزید فتوحات حاصل کیں ۔ اس کے عہد میں ہندوؤں نے مسلمانوں کو پنجاب سے بے دخل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے۔ ابراہیم نے دہلی تک تمام علاقہ غزنی کی سلطنت میں شامل کرلیا اور اس کی افواج نے بنارس تک کامیاب حملے کئے۔

اعتراض کرنے والےکہتے ہیں کہ غزنوی جارح حکمران تھا جس نے ہندوستان پہ سترہ حملے کیے۔اس سوال کا جواب تو ہمیں آج سے دس سال پہلے ہمارے استاد نے دیا تھا۔اصل وجہ یہ تھی کہ بار بار ہندوستان میں بغاوت ہوجاتی تھی جسے فرو کرنے کے لیے غزنوی کو بار بار حملے کرنے پڑتے۔لوگوں نے ان حملوں کو سترہ حملے بنا دیا۔ محمود غزنوی کا کارنامہ یہ تھا کہ اس نے کابل کے ان بادشاہوں کو زیر نگین کیا جو ہندوستانی کشمیری حکمرانوں کے تعاون سے افغان علاقوں جیسا کہ زابل وغیرہ پہ قابض تھے۔اس نے اس ہندو مزاحمت کا خاتمہ کیا اس نے کابل کی بھمادیوا شاہی کو شکست دی کیونکہ غزنی کی فتح کے بعد یہ ہندو راجے ان کے لیے مزاحمت پیش کر رہے تھے۔ کابل اور کیپیسا کے افغان صوبے ہندو سلطنت کا حصہ تھے۔لہذا انہوں نے سلطان محمود غزنوی کے خلاف شدید مزاحمت کی جس کا نتیجہ ان کی ہندوؤں اور ہندوستان کے خلاف ایک وسیع اور لمبی جنگ کی صورت میں نکلا جس کی وجہ سے ان کے اور ہندو راجاؤں کے درمیان سترہ جنگیں ہوئی جس کو لوگوں نے غزنوی کے ہندوستان پہ سترہ حملے قرار دے ڈالا۔

مورخین کے مطابق یہ سترہ حملے در اصل حملے نہیں تھے بلکہ دو سلطنتوں کے درمیان جنگ کا ایک تسلسل تھا۔لہذا اسے سترہ جارحانہ حملے قرار دے کر غزنوی پہ تنقید کرنا غلط ہے۔ جب محمود غزنوی نے کابل کی ہندو شاہی کو شکست دی تو اس کے بعد کابل کی ہندو شاہی نے پیش قدمی کرکے غزنی کے کچھ علاقوں پہ قبضہ کر لیا اور وہاں لوٹ مار کی۔اس طرح محمود غزنوی اور ہندوؤں کے خلاف جنگوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا جس میں پانچ حملے اس شاہی ہندو حکومت اور آٹھ حملے اس کی مدد کرنے والی حکومت کے خلاف تھے۔یہ ایک دشمن کے حملے کا جواب تھا۔سترہ جارحانہ حملے نہیں تھے۔ غزنوی کی طرف سے بتوں اور مندروں کے توڑے جانے کی بات تاریخی طور پہ غلط ہے۔۔اس نے جنگ کی لیکن عبادت گاہوں کو نقصان نہیں پہنچایا۔خود اس کی فوج اور دارالحکومت میں ہندو کئی اعلی عہدوں پہ فائز تھے.

ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ آخر کیوں غزنوی کے نام نہاد سترہ حملوں کا ڈھنڈھورا پیٹا جاتا ہے جب کہ صدیوں سے ہندو راجے کابل کیپیسا زابل تک قابض رہے اور بیسیوں بار افغانستان پہ حملہ آور ہوئے۔ان کے حملوں کو کیوں نظر انداز کیا جاتا ہے۔ جب کہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ راج پال کے بعد اس کے بیٹے انند پال اور اس کے بعد اس کے بیٹے تریلونجرپال نے کالنجر، کنوج، دھار انگری کے رام آف بھوج سے مدد طلب کی لہذا محمود غزنوی کے خلاف ہندو شاہی کی مدد کرنے پہ سلطان نے ان کے خلاف مہم کا آغاز کیا جس کا نتیجہ ان کے اور ہندوؤں کے درمیان وسیع جنگوں کی صورت میں نکلا جس کو نام نہاد سترہ حملوں کا نام دے دیا گیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ محمود غزنوی پہ سترہ حملوں اور لوٹ مار کا الزام دینے والے ان ہندو راجاؤں کی طرف سے ہندوستان پہ بار بار قبضے اور صدیوں کی لوٹ مار کو کیوں بھول جاتے ہیں ۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ غزنوی نے جب ان غاصب ہندؤ راجاؤں کا کابل زابل اور کیپیسا سے قبضہ چھڑانے کی کوشش کی تو اس کے خلاف سارے ہندو راجے اور راجپوت بادشاہ متحد ہوگئے اور سلطان کو ان سب کے خلاف جنگ کرنی پڑی جس کو لوگوں نے اس کے جارحانہ سترہ حملوں کا نام دے دیا۔ کیا اسلام کی سچائی کے لیے لازمی ہے کہ ہم تاریخ کی ہر غلط صحیح بات پہ یقین کریں اور کفار و ملحدین اسی تاریخ کو اسلام پہ اعتراض کے لیے استعمال کرتے رہیں ؟

جب واقعہ سومنات تاریخ میں ہے ہی متنازعہ اور اس کوکئی  مورخین جیسا کہ Thapar, Eaton, and A. K. Majumdar غلط قرار دے چکے ہیں تو لازمی اس واقعے کو فخر کے طور پہ کیوں پیش کرنا ہے جب کہ یہ اسلام پہ فخر کا نہیں اعتراض کا ذریعہ ہے۔ ہندوستان پر غزنویوں کے حملوں کی اصل وجہ تو ہندوستان کا راجہ جے پال خود تا اس کی سلطنت غزنویہ سے ملنی تھیں جب 976ء میں سبکتگین سلطان بنے تو جے پال نے غزنی پر حملہ کر دیا۔ لمغان اور غزنی کے درمیان زور کا رن پڑا جے پال کو عبرت ناک شکست ہوئی۔ صلح نامہ میں طے ہوا کہ جے پال ہاتھی، گھوڑے اور نقد مال و زر دے گا اس کام کے لیے سلطان کے لوگ ساتھ ہوئے مگر جے پال نے بد عہدی کی اور سلطان کے لوگوں کو قیدی بنا لیا۔ اس بدعہدی کی سزاء کے لیے سلطان کی فوجوں نے چڑھائی کی جس پر جے پال نے معافی مانگی تو اسے چھوڑ دیا گیا محمود غزنوی کو بار بار ہندو راجوں کی بد عہدیوں کی سزاء دینے کے لیے ہندوستان پر حملہ کرنا پڑا۔ محمود غزنوی نے ہندستان کو فتح کر کے یہاں اسلام کا علم لہریا اس نے مساجد تعمیر کرائیں ۔ اس کے دور میں علماء و اولیا اللہ نے تبلیغ سے ہندوستان کو نور اسلام سے بھر دیا۔ ہندو ناشرین مسلمانوں کی دل آزاری کی غرض سے  ایسی کتابیں شائع کیا کرتے تھے جن میں مسلمان حکمرانوں کو نہایت مکروہ شکل میں پیش کیا جاتا تھا۔ جب انگریزوں کے ساتھ ہند وستان میں ہندو اقتدار میں شریک ہوئے تو انہوں نے برعظیم کے تمام سرکاری سکولوں میں تاریخ ہند کے نام سے ایک کتاب پڑھانا شروع کی جس میں مسلمان حکمرانوں اور اسلامی عہد کی تاریخ سے سخت ناانصافی سے کام لیا گیا۔ اس کتاب میں درج ہے کہ محمد بن قاسم نے حرص و طمع کے سبب ہندوستان پر حملہ کیا، سلطان محمودغزنوی غاصب ظالم لالچی او بے انصاف بادشاہ تھا، اورنگ زیب عالم گیر تمام برائیوں کا مجسمہ تھا وہ ہندوؤں کے مندروں اور مقدس مقامات اور ان کے رسوم و رواج کا سخت دشمن تھا (ہفت روزہ نوائے وقت 1928ء )

1924ء میں ہندی زبان کے فروغ کے لیے مہاتما گاندھی کی صدارت بھارت ہندی پرچار سبھا قائم کی گئی تھی۔ اسی سبھا کے تحت سال میں دو مرتبہ ہندی کے امتحانات ہوئے تھے۔ 1940ء میں اوسط درجے کے امتحان کے لیے ایک تاریخی کتاب سچی کہانیاں نصاب میں داخل کی گئیں ۔ نوائے وقت کا کہنا ہے کہ کوئی ناپاک جھوٹ ایسا نہیں جو اس کتاب میں نہ بولا گیا ہو (پندرہ روزہ نوائے وقت 1940ئ) مشہور ہندو ناشر عطر چند کپور نے ہائی روڈر آف انڈین ہسٹری ( High Roads of Indian History) کے نام سے چھٹی جماعت کے طلباء کے لیے ایک کتاب شائع کی جس میں سلطان محمود غزنوی کی شخصیت کو مسخ کیا گیا تھا (روزنامہ زمیندار، اداریہ 7 جون 1928ء ) اسی اداریہ میں لکھا ہے کہ ایک آریہ سماجی اخبار نے سلطان محمود غزنونی کو طوائف کا بیٹا لکھ کر مسلمانوں کے جذبات کو سخت مجروع کیا ہے۔ سلطان محمود کے اعلیٰ کردار کا اعتراف بہت سے ہندو دانشور کرنے پر مجبور ہوئے۔ چنانچہ پروفیسر سینتی کمار چیٹر جی نے لکھا محمود غزنوی کا سکوں پر سنسکرت لکھوانا اس کی سیاسی ہوش مندی کا ثبوت ہے اس کی اعلیٰ دماغی اور فراخ دلی کی دلیل ہے۔ (البیرونی ہاد گار جلد ایران سوسائٹی کلکتہ 98) ْ اس کی فوج میں ہندو سردار اور لشکری بھی تھے (تاریخ لمیس بحوالہ الیٹ، جلد دوم ص32)۔

محمود کے بارے میں یہ کہیں نہیں آتا کہ اُس نے ہندو کو اپنا مذہب چھوڑنے پر مجبور کیا۔ پالٹیکس ان پری مغل ٹائمز  از ڈاکٹر ایشور ٹوپاص 45-46)۔ سی وی دیدیہ نے اپنی کتاب ہسٹری آف مڈویول ہندو انڈیا ج 3 میں لکھا ہے کہ ایک انسان کی حیثیت سے وہ ایک سخت ضبط و نظم او اعلیٰ کردار کا حامل انسان تھا اس کے حملوں میں خون ریزی ہوئی قیدی غلام بنائے گئے لیکن عورتوں کی عصمت ریزی یا ان کے قتل و خون کی کوئی مثال نہیں ملتی وہ عدل پسند تھا۔الہ آباد یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ایشوری پرشاد اپنی کتاب مڈیول انڈیا میں لکھتے ہیں مسلمانوں کی نظر میں محمود غازی اور اسلام کا علمبردار تھا۔ ہندوئوں کی نظر میں آج بھی سنگ دل اور ظالم لیٹرا ہے جس نے ان کی مقدس عبادت گاہوں کو ملیامیٹ کر کے ان کے مذہبی جذبات کو صدمہ پہنچایا لیکن غیر متعصب محقق اور مورخ اس کا زمانہ کی صور حال کو پیش نظر رکھ کر کچھ اور ہی فیصلہ دینے پر مجبور ہوگا بلا شک و شبہ وہ دنیا کے بہترین اور عظیم ترین حکمرانوں میں شامل کئے جانے کے لائق ہے۔

اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ دیبل کی فتح سے پہلے مسلمانوں کو شکست بھی ہوئی اور مسلمان اس شکست کو تسلیم نہیں کرتے۔جو میں نے پڑھا ہے وہ یہ ہے کہ 22 ھ میں مسلمان مجاہد ایران فتح کرنے کے بعد مکران پر حملہ آور ہوئے تو سندھیوں نے ان کی بھرپور مخالفت کی۔ مسلمانوں نے سندھ اور مکران پر کے متحدہ لشکر کو شکست دی۔ لیکن اس وجہ سے مسلمانوں اور حکومت سندھ کے درمیان عناد کا بیج بویا گیا۔جنگ میں ہار جیت ہوتی ہے۔اس کا ہم انکار نہیں کرتے۔ باہمی دشمنی کی فضا کو راجہ داہر نے برقرار رکھا اور جب مکران میں ایک سردار محمد علافی نے مکران کے گورنر کو قتل کرکے سندھ کی راہ لی تو راجہ داہر نے اسے اپنے ہاں پناہ دی اور اپنی فوج میں اسے عہدہ بھی دیا۔ اتنا مجھے پتہ ہے کہ محمد بن قاسم سے پہلے سندھ کی فتح کی دو کوششیں ناکام رہی تھیں ۔میں تسلیم کرتا ہوں یہ بات لیکن تیسری کوشش محمد بن قاسم کی سرپرستی میں کامیاب ہوئی۔جو دو شکست ہوئی ان کی تفصیل یہ ہے حجاج بن یوسف نے راجہ داہر کے نامعقول رویہ کی وجہ سے 710 ء میں عبید اللہ کی قیادت میں ایک فوج بھیجی لیکن اسے شکست ہوئی۔ اگلے سال دوسری مہم بدیل کی سرکردگی میں بھیجی گئی لیکن اسے بھی راجہ داہر کے بیٹے نے شکست دی۔ ان دونوں مہمات کی ناکامی کے بعد مسلم حکومت کے وقار کو بحال کرنے کے لیے سندھ کی فتح ناگزیر ہوگئی تھی۔ اس لیے حجاج بن یوسف نے خلیفہ ولید بن عبدالملک سے اس کی اجازت حاصل کی۔

تاریخ کو مذہب پرست طبقے سے زیادہ مذہب مخالف طبقے نے غلط استعمال کیا جس نے مذہب اور اسلام کے خلاف وہ وہ باتیں مشہور کی جو اج خود تاریخ غلط ثابت کر رہی ہے۔اور ہمارے نزدیک قرآن و حدیث ہی مستند ہیں نہ کہ تاریخ. محمود غزنوی کی پہچان کیسے بت شکن کے حوالے سے ہے۔اگر وہ تھا ہی بت شکن تو خود اپنے ہی ملک افغانستان میں بدھا کے مجسمے کیوں چھوڑ دیے۔کیا کسی مستند تاریخی حوالے سے اعتراض کرنے والے ثابت کریں گے کہ وہ مندر اور بت توڑتا تھا۔ میں نے سومنات کے مندر کے توڑے جانے کے خلاف جن مورخین کے نام پیش کیے ہیں کیا ان میں کسی مسلمان کا نام ہے؟ اعتراض کرنے والے کیسے کہ سکتے ہیں کہ یہ صفائی مسلمانوں نے دینا شروع کی جب کہ پہلی بار یہ مضمون ہی ایک ہندو اور دو یورپی مورخین نے چھیڑا.جنگ میں روس اور امریکہ مسجدوں پہ بمباری کر دیتے ہیں اس پہ تو غزنوی پہ اعتراض کرنے والوں نے کبھی اعتراض نہیں کیا۔ اگر غزنوی اور دیگر مسلم۔ حکمرانوں نے مندر ہی توڑے ہوتے تو 700 سالوں میں انڈیا میں ایک بھی ہندو نہ ہوتا۔ چھوٹا سا برما ہے اس میں بھی قلیل مسلمان موجود ہیں انہیں نہیں چھوڑا جا رہا۔ 700 سالوں میں تو ہندوؤں  کا وجود ختم ہو جاتا۔ لیکن تاریخ کے حقائق آج بھی وہاں ہندو اکثریت میں موجود ہیں اور کئی قدیم مندر بھی موجود ہیں ۔ غزنوی پہ اعتراض کرنے والوں کی بابری مسجد کی شہادت پہ رائے نہیں آتی۔منافقت اور دوغلا پن اسے کہتے ہیں ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس مضمون کی تیاری میں درج ذیل لنک سے بھی مدد لی گئی ہے

سلطان محمود غزنوی لٹیرا یا ”مجاہد غزوہ ہند”

 

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply