انصاف کا معیار

عصر حاضر میں انصاف ایک کھیل اور تماشہ لگتا ہے ،جس پرچند لوگ قابض ہیں ، یہ بات محض ایشیائی اور عرب ممالک سے متعلق نہیں بلکہ یورپ بھی مکمل طور پر انصاف پر فائز نہیں ہے۔آج کے انصاف کا معیار یہ ہے کہ جب کسی غریب ملک پر ظلم و بربریت کا پہاڑ ٹوٹتا ہے یا ان کی عورتوں اور بچیوں کی عزتیں نیلام ہوتی ہیں یا وہاں دہشتگردی کا سا ماحول پیدا ہو جائے تو عالمی دنیا اس غریب ملک کی حالت پر خاموشی اختیار کر لیتی ہے اور اس کے مقابلے میں ان قوموں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں جو طاقت اور مالی اعتبار سے مضبوط ان غریب ممالک پر تشدّد کر رہے ہوں۔اسی طرح جسے بھی موقع ملتا ہے وہ انصاف کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے مفادات کو ترجیح دیتا ہے۔
لہٰذا یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ عصر حاضر میں ہر ملک خواہ وہ جتنا بھی تہذیب یافتہ اور متمدّن ہو انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر سکتا۔دنیا میں بہت سے ایسے واقعات و حادثات رونما ہو چکے ہیں اور عوام بھی ان سے مکمل طور پر آگاہ ہیں جن میں انصاف کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے فیصلے دیئے گئے یا فیصلے کی تاریخ کو اتنی طویل مدّت تک موخر کیے رکھا کہ اس فیصلے کا کوئی جواز ہی نہیں رہا۔دور حاضر میں لوگ اس امر کو فراموش کر بیٹھے ہیں کہ انصاف میں دیر نا انصافی اور بددیانتی کی علامت ہے۔انصاف کے بروقت فراہم نہ ہونے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ لوگوں نے اپنے اوپر غلامی اور مظلومیت کی چادر اوڑھ لی ہے۔
وسری وجہ یہ ہے کہ لوگ انصاف کے ناقص نظام سے تنگ آ کر آواز اٹھانا مناسب نہیں سمجھتے اور خاموشی کے گھونٹ پی کر اپنی بقیہ زندگی بھی اسی ذلت کے ساتھ گزار دیتے ہیں۔ایسے میں یہ سوال ہمارے سامنے آتا ہے کہ کسی ملک میں انصاف کو کیسے بحال کیا جا سکتا ہے ؟ بہت سی تحریروں میں یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ انصاف کوعام معنی میں استعمال کیاجاتا ہے اور اس کے لئے عوام کی کوشش کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔جبکہ نفسیاتی پہلو دیکھا جائے تو ہر انسان کی سوچ وفکر ،عادات و خصوصیات ایک دوسرے سے قطعاً مختلف ہیں۔ عوام کی کوششوں کو اگر بنیاد بنایا جائے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ تمام افراد ایک ہی نظریے پر متفق ہوں اور اگر ایک نظریے کو مانتے ہوئے چلیں بھی تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ آگے چل کے ان میں مخالفت کا پہلو اجاگر نہیں ہو گا۔لہٰذا نفسیاتی طور پر عوام کی کوشش کو بنیاد بنا کر انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے جا سکتے۔لیکن اگر مسلمانوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو عدل و انصاف کی باقاعدہ ایک مثال خلیفہ کے طور پر ہمارے سامنے آتی ہے ،جو خدا تعالیٰ کا نائب ہوتا ہے اور اپنے اور رعایا کے ہر عمل کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
ایسے میں جو انصاف کا عنصر ہمارے سامنے آتا ہے وہ ذمہ داری اٹھانے کا ہے۔یہ ذمہ داری خواہ حکمرانِ مملکت ادا کرے یا کوئی اعلیٰ عہدِیدار یا عوام خود۔ آج بھی اگر ہر فرد اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے نیک نیتی سے اپنے تمام فرائض ادا کرے اور دوسروں کے حقوق کا خیال رکھے تو معاشرے میں انصاف کی ایک اعلیٰ مثال قائم ہو گی۔ جو انسانیت کیلئے مشعلِ راہ ہو گی۔لہٰذا تاریخی پہلو سے عوام کی کوشش کو بنیاد بنا کر انصاف کے تقاضے پورے کئے جا سکتے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply