سن لو اتحاد و وحدت کی نصیحتیں۔۔ ڈاکٹر ندیم عباس

مسلم معاشرے بالعموم اور پاکستان،عراق اور شام جیسے مسلم ممالک کے معاشرے بالخصوص فرقہ ورانہ تقسیم کا شکار ہیں ۔یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت اور خوش آئند ہے کہ پاکستان میں جس قدر فرقہ واریت پھیلانے کی کوشش کی گئی پاکستانی سماج نے اسے رد کر دیا ہے۔یہ اس اس مٹی کی کا اثر ہے کہا یہ انتہا پسندی کو کو تھوڑا عرصہ ہی برداشت کرتی ہے اور اس کے بعد لوگ اسے رد کر دیتے ہیں۔ بہت سے شہروں میں مختلف چوکوں اور چوراہوں کے نام فرقہ ورانہ شناخت کی بنیاد پر رکھے گئے تھے مگر تھوڑے ہی عرصے بعد یہ شناخت ختم ہو جاتی ہے اور مقامی شناخت اس پر غالب آ جاتی ہے۔لوگ مذہب کو پسند کرتے ہیں اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر انتخابات میں مذہبی طبقے کو بڑے پیمانے پر کامیابی نہیں ملتی ہے۔مذہبی جماعتوں کو اس کی وجوہات تلاش کرنی چاہیں۔ایم ایم اے نے جس قدر کامیابی حاصل کی اس کی دیگر وجوہات بھی ہوں گی مگر ایک اہم وجہ یہ تھی کہ بہت سے لوگوں نے یہ سمجھا کہ اب علمائے کرام فرقہ واریت سے بلند ہو کر اتحاد و وحدت کی باتیں کر رہے ہیں ۔میرے خیال میں مذہبی جماعتوں کو ووٹ نہ ملتے کی ایک وجہ یہی فرقہ واریت ہے جس سے پاکستانی سماج تنگ ہے۔ایک اہم بات یہ ہے ۔
پاکستانی معاشرے میں خانقاہ اور دربار کا تصور بہت اہم ہے۔آج جب یہ بطور ادارہ بالکل مفلوج ہو چکے ہیں۔بعض جگہوں پر تو یہ منفی رول کردار بھی ادا کر رہے ہیں۔معاشرے کو جو رہنمائی یہاں سے ملا کرتی تھی اب معاشرہ اس سے محروم ہو گیا ہے۔موجود دور میں اکثر جگہوں پر موجود شخصیات کے متعلق حضرت اقبال کا شعر بالکل درست لگتا ہے:
میراث میں آئی ہے انہیں مسندِ ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
خانقاہ اور دربار سے پیر کی زبانی ملا پیغام حرف آخر سمجھ کر قبول کیا جاتا تھا ۔کافی عرصہ تک یہی حیثیت علما کے کلام کو بھی رہی۔ان کی باتوں کو لوگ اللہ اور اس کے رسولﷺ کا پیغام سمجھ کر قبول کرتے تھے اس کے خلاف سوچنے کو جرم سمجھتے تھے۔علما نے بھی معاشرے میں بہت اعلی کردار ادا کیا۔
جس طرح سے خانقاہ کا کردار معاشرے میں بالکل محدود سے محدود ہو گیا اس کی وجوہات پر الگ سے بات ہو سکتی ہے اسی طرح معاشرے میں علمائے کرام کا کردار بھی محدود ہونے کا خدشہ ہے اور اس کی وجہ وہ لوگ ہیں جو علما کے لباس میں معاشرے میں منفی کردار ادا کر رہے ہیں۔لوگ بدامنی اور قتل و غارت سے تنگ آ گئے ہیں انہیں سکون چاہیے ،انہیں امن چاہیے جو ترقی لیکر آئے بالکل اسی طرح جیسے حضرت ابراہیمؑ نے اپنی اولاد کو آباد کرتے ہوئے دعا فرمائی تھی:
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَـٰذَا الْبَلَدَ آمِنًا(سورہ ابراہیم 34 )
(ابراہیم کی یہ دعا بھی یاد کرو) جب انہوں نے کہا کہ اے میرے پروردگار! اس شہر کو امن واﻻ بنادے۔
امن سے ہی شہر آباد ہوتے ہیں،تہذیبوں کا ظہور ہوتا ہے،نظریات پنپتے ہیں اور زندگی صحیح معنوں میں زندگی بنتی ہے ۔ہمارے دوست فرحان پتافی صاحب زیارات کے لیے عراق تشریف لے گئے وہاں پر ان کی ملاقات عالم اسلام کے مایہ ناز عالم اور عراق کی بزرگ شخصیت آیۃ اللہ العظمی سید علی حسینی سیستانی سے ہوئی انہوں نے پاکسانیوں سے اپنے خطاب میں چند باتوں کی نصیحت کی آپ فرماتے ہیں:
1۔دوسرے مذاہب کے لوگوں کا خیال رکھو ان کے پاس آیا جایا کرو انہیں تکلیف نہ دو ۔
2۔مسلمانوں فرقہ کے درمیان اتحاد و وحدت کی کوشش کرو ۔
3۔اپنے مسلک کے لوگوں کے درمیان اتحاد کو قائم رکھو۔
ان کی ان نصیحتون کو پڑھتے ہوئے میں سوچ رہا تھا عراق میں بیٹھے ایک بزرگ ہمارے مسائل سے کس قدر آگاہ ہیں۔ہم غور کریں تو ہمارے ہاں بسنے والے غیر مسلم کسمپرسی اور خوف کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ان کے بارے میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی تعلیمات کو ہم نے پس پشت ڈال دیا ہے پہلی نصیحت میں انہوں نے ان تعلیمات کو زندہ کرنے کی نصیحت کی ہے جو ایک اہم اسلامی قدر کا احیا ہے۔دوسری نصیحت میں انہوں اس آگ کو بجھانے میں اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کرنے کا کہا ہے جو آج ہر گھر کو متاثر کر رہی ہے جس نے ہم سے ہزاروں قیمتی جوان چھین لیے جو ہم سے ہمارے سکون چھین کر لے گئی جس نے ہماری مساجد الگ کر دیں۔تیسری نصیحت بھی اہم ہے آج ہر مسلک تقسیم در تقسیم کا شکار ہے جس نے ہر مسجد و مدرسہ میں کئی دیواریں کھڑی کرا دی ہیں اس لیے ضروری ہے کہ اس تقسیم کو یہیں روک دیا جائے اور معاشرے کو مزید تقسیم سے بچایا جائے۔عراق کو فرقہ واریت کی دلدل سے نکالنے کے لیے اس بزرگ نے سب سے اہم کردار ادا کیا ہے ملکی اور بین الاقوامی حالات کا خوب اداراک رکھنے والے اس بزرگ کی نصیحتوں کو پلے باندھ لیا جائے تو ہمارے معاشرہ بہتر ہو سکتا ہے۔علمائے کرام سے گذارش ہے کہ وہ معاشرے میں اپنا پیار و محبت والا کردار ضرور ادا کریں اور میدان عمل میں نکلیں بقول اقبال
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیریؑ

کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری

Advertisements
julia rana solicitors london

ترے دین و ادب سے آ رہی ہے بوئے رُہبانی
یہی ہے مرنے والی امتوں کا عالمِ پیری

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply