ہرشخص “ہاکنگ ریڈی ایشن” کی تکرار لگائے ہوئے ہے۔ میں ان پڑھ سا بندہ ہوں، مجھے تو پتہ نہیں تھا اس لیے سوچا کہ پتہ چلایا جائے ویسے جنہوں نے تکرار لگائی ہوئی ہے پتہ انہیں بھی نہیں۔ تو پیشِ خدمت ہے، المہشور حاجی اللہ رکھا کے دہی بھلے اور فروٹ چاٹ۔۔۔ او معذرت۔ میرا مطلب ہے “ہاکنگ کی تابکاری”۔
ستارے کی موت کا نام تو سنا ہوگا؟ اور ستارے موت کے بعد بلیک ہولز بن جاتے ہیں۔ مگر کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ کیونکہ اگر کائنات میں ہر چیز فانی ہے۔ بلیک ہولز سمیت تو بس “ہاکنگ ریڈی ایشن بلیک ہول کی فنا سے متعلق ہی ہے۔
ستارے کی موت کیسے واقع ہوتی ہے، بلیک ہول کیسے بنتے ہیں، یہ الگ موضوع ہے جس پر پھر کبھی گفتگو ہوگی۔
اس تھیوری کو ہاکنگ-بیکنسٹائن یا ہاکنگ-زیلڈووِچ تھیوری کا نام بھی دیا جاتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ فقط سٹیفن ہاکنگ کا ہی کارنامہ نہیں تھا بلکہ امریکی تھیوریٹکل فزسسٹ جیکب بیکنسٹائین اور ہاکنگ کے 1973 میں روس کے دورے پر ملنے والے سوویت سائنسدان یاکوو زیلڈووچ اور الیکسی سٹاروبنسکی کی مدد بھی شامل تھی۔
سٹیفن ہاکنگ نے تھیوریٹکلی ثابت کیا کہ بلیک ہولز اتنے بھی بلیک نہیں ہیں جتنے دکھتے ہیں۔ کچھ سفید پارٹیکلز یا زیرجوہری ذرات بھی ہر وقت خارج ہوتے رہتے ہیں جو کہ اس وجہ سے روشنی منعکس نہیں کر پاتے یا نہ ہونے کے برابر روشنی منعکس کرتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج تک یہ عمل مشاہدہ میں نہیں آسکے۔
خلا میں بھی ہر وقت زیرجوہری ذرات بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں۔ یہ ذرات ایک جوڑے کی شکل میں مادہ اور ضدِ مادہ سے بنتے ہیں۔ اور پھر فوری طور پر ایک دوسرے سے ٹکرا کر فنا ہو جاتے ہیں۔ ایک پر منفی اور ایک پر مثبت چارج ہوتا ہے۔ بلیک ہول کی باؤنڈری جسے ایونٹ ہورائزن کہا جاتا ہے، کے قریب یہ عمل قدرے سست ہوتا ہے۔ جس کے باعث دونوں میں سے ایک ذرے کا بلیک ہول کی باؤنڈری میں داخل ہونے کا امکان رہتا ہے۔ اگر ذرے پر منفی چارج ہو تو یہ ایک مخالف چارج کے ذرے کے اخراج کو بھی ممکن بنا دیتا ہے۔ جیسے کہ اگر الیکٹران داخل ہوگا تو ایک پازیٹران بھی خارج ہوگا جو اپنے ساتھ کافی توانائی بھی لے کر بلیک ہول میں ایک خلا چھوڑ دے گا۔ جس سے بلیک ہول سکڑ جائے گا۔ اسی عمل کو ہاکنگ ریڈی ایشن یا تابکاری کا نام دیا جاتا ہے۔
یہ عمل مسلسل جاری رہتا ہے۔ بڑے بلیک ہولز میں چونکہ کشش ثقل زیادہ ہوتی ہے اس لیے بہت کم ذرات کو اخراج کا موقع ملتا ہے۔ جیسے جیسے بلیک ہول کا ماس کم ہوتا جائے کششِ ثقل بھی بتدریج کم ہوتی جاتی ہے اور یہ عمل رفتہ رفتہ تیزی پکڑتا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ یہ عمل بلیک ہول کے مرکزے میں ممکنہ طور پر واقع اکائیت تک پہنچ جاتا ہے اور بلیک ہول ایک دھماکے کے ساتھ ایک شاندار اختتام کو پہنچ جاتا ہے۔ یہ دھماکہ کائناتی لحاظ سے تو بہت چھوٹا ہوتا ہے۔ مگر پھر بھی تقریباً ایک میگاٹن کے دس لاکھ ہائیڈروجن بمبز جتنی شدت رکھتا ہے۔
بلیک ہول کی ابتدا سے فنا تک کا عمل ہماری سوچ سے بھی زیادہ یعنی لاکھوں، کروڑوں سال یا اس سے بھی زیادہ طویل ہو سکتا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں