طنز میں مزاح

انسانی سوچ بیشمار رویوں کا مجموعہ ہے، ان میں سے بیشتر رویے ایسے ہیں جنہیں انسان اپنی ذات کی کسوٹی پر پرکھے تو سمجھنے میں ناکام ٹھہرے گا لیکن اگر دوسروں کی ذات پر رکھ کر جانچنے کی کوشش کرے تو بات آسانی سے سمجھ آجاتی ہے۔ ایسا ہی ایک رویہ ہے “طنز” جسے اکثر مزاح کا نام دیدیا جاتا ہے یعنی آپ کسی پر طنز کریں ۔۔اگر اسے محسوس ہو جائے پھر تو سمجھو کلیجے کی آگ ہو گئی ٹھنڈی لیکن اگر سامنے والے کو کوئی اثر نہ ہوا تو اسی طنز کو مزاح کانام دیدیا جاتا ہے۔۔
طنز نگار اپنی دانست میں دوسروں کو سمجھانے کی غرض سے ایسے چبھتے ہوئے الفاظ استعمال کر رہا ہوتا ہے جس کا اثر اُلٹ ہی ہوتا ہے۔مزاح نگار نرم طبعیت کا مالک ہوتا ہے جبکہ طنز نگار کی طبعیت میں سختی کا عنصر غالب رہتا ہے جسے وہ معمولی سی بھی خلافِ مزاج بات ہونے پر دوسروں پر انڈیلتا رہتا ہے اور واشگاف لفظوں میں اپنی نفرت کا اظہار کرتا ہے۔حد سے بڑھا ہُوا طنز شدت اختیار کر نے پر دوسروں کو بات بے بات اپنے نشانے پر لے لیتا ہے۔
رونالڈ ناکس اپنی کتاب Essays on satireمیں لکھتا ہے کہ”مزاح نگار خرگوش کے ساتھ بھاگتا ہے اور طنز نگار کتو ں کے ساتھ شکار کھیلتا ہے”
طنز طنز کھیلنے کے دوران کسی کی برائی کو مبالغہ انگیزی کی حد تک بڑھا دیا جاتا ہے کہ اچھائی کہیں جلن اور حسدکے بوجھ تلے دب کر آخری سانس لینے لگتی ہے ارور بلآخر دم توڑ جاتی ہے۔طنز برائے اصلاح میں ضروری ہے کہ نرم الفاظ کا استعمال کیا جائے۔
وزیر آغا کہتے ہیں کہ طنز کی تخریبی کارروائی صرف ناسور پر نشتر چلانے کی حد تک ہے اس کے بعد زخم کا مندمل ہوجانا اور فرد یا سوسائٹی کا اپنے مرض سے نجات حاصل کر لینا یقیناً بڑا کارنامہ ہے لیکن طنز کے لیئے ضروری ہے کہ یہ مزاح سے بیگانہ نہ ہو بلکہ کونین کو شکر میں لپیٹ کرپیش کرے۔کسی خاص فرد کے عیوب کی پردہ دری کو زندگی اور سماج کی عالمگیر ناہمواریوں کی پردہ دری کا وسیلہ بنائے،جہاں ایسا نہیں ہوتا وہاں طنز طنز نہیں رہتا محض پھبتی،استہزا اور ہجو کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور شاید اسی لیئے اپنے صحیح راستے سے بھٹک کر ایسی خارزار میں جا نکلتا ہے جہاں تخریب کا جواب تخریب سے ملتا ہے اور نشانہء تمسخر وار کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنے کی بجائے غضب ناک ہو کر جوابی حملہ کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ مزاح کی طرح طنز بھی موازنہ،مبالغہ لفظی بازی گری اور تحریف وغیرہ کے حربے استعمال کرتی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ مزاح کے برعکس طنز میں نشتریت کا پہلو ضرور غالب رہتا ہے اور یہ اپنے نشانہ ء تمسخر کے خلاف نفرت کے جذبات کا اظہار کرتی ہے۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ انسان جب طنز و مزاح سے دور ہونے لگتا ہے تو پاگل پن کے قریب ہو جاتا ہے۔۔کسی بھی تخلیقی کام کی اہمیت اس وقت صفر ہو کر رہ جاتی ہے جب وہ دوسروں کے لیئے آزار اور تکلیف کا باعث بننے لگے۔آج کل اس کام کو آزادی ء اظہار کہا جا رہا ہے جو کہ کسی بھی طور درست رویہ نہیں،طنز و مزاح کے معیار کے عدم توازن نے بہت سی الجھنوں کو جنم دیا ہے۔ اپنا دماغی بوجھل پن کم کرنے والے مزاح کی بجائے طنز برائے اصلاح کئی درجہ بہتر ہے۔

Facebook Comments

اسما مغل
خیالوں کے سمندر سے چُن کر نکالے گئے یہ کچھ الفاظ ہی میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply