اندھا۔۔زکریا تامر/ترجمہ آدم شیر

شیخ محمود نے نوجوان شاگردوں کو کھڑکی سے جھانک کر آسمان دیکھنے کے لئے کہا تو شاگرد کھڑکی کی جانب لپکے،اور شیخ محمود نے ان سے پوچھا۔
”تم نے آسمان پر کیا دیکھا؟“
”ایک جہاز۔“ شاگردوں نے جواب دیا۔
”اچھی طرح دیکھو، اور کیا نظر آ رہا ہے؟“ شیخ محمود نے سوال دہرایا۔
شاگردوں نے کہا، ”ہمیں بادل کے چند ٹکڑے اورایک سورج نظر آیا۔“
شیخ محمود نے زور دے کر پوچھا،”تمہیں سورج، بادلوں اور جہاز کے علاوہ کچھ نظر آیا؟“ تو شاگردوں نے دوبارہ آسمان کو دیکھا اور کامل یقین کے ساتھ بولے۔
”نہیں۔ سورج اور بادلوں کے سوا کچھ نظر نہیں آیا اور اب جہاز غائب ہو چکا ہے۔“
شیخ محمود نے غصے سے چلاتے ہوئے کہا، ”تم سب بے کار ہو۔ میں اندھوں کو پڑھاتا رہا جنہیں کچھ نظر نہیں آتا۔“
جب ننھے منے شاگرد سکول سے نکل کر گلی میں چل رہے تھے، اُنھیں خیال آ رہا تھا کہ وہ اندھے بھکاری ہیں جنہوں نے بھیک کے لئے ہر در پر دستک دی مگر ان کے لئے کوئی دروازہ نہ کھلا، اوراُنھوں نے اوپر آسمان کی طرف دیکھا لیکن اُنھیں بادلوں اور سورج کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔۔۔
(یہ کہانی زکریا تامر کے فیس بک پر موجود صفحہ سے لی گئی۔ اس کا انگریزی ترجمہ مارلین ہیکر نے کیا تھا)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply