ڈوبتا سُورج- موروثی روایتوں کا امیں مرقعء سُخن/پروفیسر عامر زریں

سہیل ساجدؔ سٹونز آبادی ، ایک صاحبِ فکر ، پُر تنوع اور فعال تخلیقی شخصیت ہیں۔ انہیں خُدائے بزرگ و برتر نے فہم و دانش اور ادرا ک جیسی نعمتیں اورشعری سُخن کا ہنر مرحمت فرمایا ہے۔ وہ ایک صاحبِ دیوان شاعر ہیں۔ انہوں نے اپنے مشاہدات، فکری میلانات اور تجربات کوخوب صورت پیرایہء اظہار میں ڈھالنے کے لئے اُردو ادب کی اصناف میں سے غزل گوئی کا انتخاب کیا ہے۔ اُن کی تصانیف میں ‘‘ خالی کشکول، یادیں(نثر)، تیرے جانے کے بعد، غزل کیوں لکھوں، نغماتِ ساجدؔ اور ظُلمت سے نُور تک’’شامل ہیں۔ سات کا عدد جو کہ الہامی صحائف میں کاملیت کا عدد ہے، زیرِ نظر ، ‘‘ڈوبتا سورج’’ ساجدؔ کا ساتواں مجموعہء کلام ہے۔

ساجدؔ کا خاندانی پس منظر پاسبانہ خدمت کے انمول رنگوں سے مزین ہے ۔ اور پھر سونے پہ سہاگہ کہ تعلیمی و ادبی ماحول میں مسیحی دانشوروں اور عُلمائے اکرام کی قُربت نے انہیں مروجہ فن وادب کے اسرارو رموز اور ان کی عمیقیت سے آشنا کیا ۔وہ اپنے شعری اظہار میں فنی اور تکنیکی پیچ و خم اور پیچیدگیوں کی بجائے تخلیق کار کے احساسِ فرض اور عقیدت کو زیادہ شد و مد سے پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ زیرِ نظر مجموعہء کلام، ‘‘ ڈوبتا سُورج’’ سہیل ساجدؔ کے شعرو سُخن کے سفرِ ناتمام کا ایک اور پڑاؤ ہے۔ساجدؔ نے اپنے شعری اظہار میں اپنے تجربات ،مشاہدات ، فہم و فراست اور دل جمعی سے ترو تازہ لہجہ میں زندگی کے کینوس کو رنگوں سے سجایا ہے۔ موصوف کا تازہ صد رنگ مجموعہ ء کلام اپنے موضوعات، اسلوب اور برتاؤ کے لحاظ سے ایک عمدہ تخئیل اور اعلٰی تخلیقی جوہر کا لازوال شاہکار ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ہر حساس ادیب ، شاعر اور با شعور انسان اپنے ماحول کے زیرِ اثرہوتا ہے۔ اور اپنے نثری و شعری اسلوب اور انداز کی بدولت مضامین کو فکر کے قالب میں ڈھالتا ہے تو بات ہی علیٰحدہ انداز میں ہوتی ہے۔ معروف افسانہ نگار اور شاعرہ محترمہ رومانہ رومی ۔۔سہیل ساجدؔ کے شعری اسلوب کے بارے میں رقمطراز ہیں، ‘‘جناب سہیل ساجدؔ نے عشق ومحبت کی حکایت اور درو وغم کی دل گداز داستان کو ایک نئے انداز اور حوالے سے پیش کیا ہے۔ فکر کی پختگی، الفاظ کا دروبست، موضوع کی گرفت اور مضمون کی بندش کہنہ مشقی اور ریاضت چاہتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ساجدؔ کے یہاں غزل کی پوری روایت نے سلیقے سے جو اظہار پایا ہے اس کے لئے وہ قابل ِ تعریف ہیں۔ ’’ رومی مزید لکھتی ہیں‘‘۔ساجدؔ روئے زمین پر ہونے والے واقعات و حالات سے سخت نالاں ہیں ۔ مادیت کے اس دور میں جب کہ ہر سو بے یقینی اور مایوسی کی کیفیت طاری، بے راہروی، جبر و تشدد، نا انصافی، عدم مساوات اور حرص و آرزو انسان کو لپیٹ میں لینے کے لئے کوشاں ہیں تو سخت بے زاری کا اعلان کرتے ہیں اور اپنے لئے ایک ایسے جہان کی آرزو کرتے ہیں جہاں وہ ہر منافقت سے پاک زندگی شاد کرسکیں۔’’

ہر شاعر کسی نہ کسی شعری روایت کا اتباع کرتا ہے اور اپنے بیان و سُخن میں ان روایات اور بندشوں سے خود کو منسوب رکھتے ہوئے اپنے شعری تجربے کی پرداخت کرتا ہے۔ معروف ادیب ، دانشور،شاعر، محقق اور نقاد جناب حمید ہنری نے ساجدؔ کی اسلوب و بیان پر اس طور اظہارِ خیال کیا ہے،‘‘۔ساجدؔ کی شاعری میں سادگی، سہلِ ممتنع اور ابلاغ کا عنصر بدرجہ ء اتم موجود ہے۔ لٰہذا اُن کے کلام میں دو راز کار تشبیہات، اجنبی استعارے اور غیر مانوس تلازمے نہیں ملتے۔وہ ناموس الفاظی کی بجائے اپنی بات کو عام فہم پیرائے میں قاری تک پہنچانے کا ہنر جانتے ہیں۔’’ مزید رقمطراز ہیں‘‘۔۔مشکل سے مشکل زمین میں بھی ساجدؔ کے اشعار میں روانی اور سلاست کی کمی نہیں۔ اُن کی غزلوں میں جذبے کی گھلاوٹ، درد مندی اور سادگی پائی جاتی ہے۔اُن کے اشعار میں خلوص اور زندگی کی تڑپ ہے۔ حسن وعشق کی لطیف کیفیات کو انہوں نے پُر تاثیر لب و لہجہ میں بیان کیا ہے۔اُن کی مسلسل غزلوں میں سماجی اور مذہبی شعور کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ چھوٹی سبک اور رواں بحروں میں ساجدؔ نے بری عمدگی کے ساتھ حسن وعشق، مذہبیت، اخلاقیات،پندو نصائح اور سماجی مسائل سے متعلق مضامین کو باندھا ہے۔’’

سہیل ساجدؔ ادبی حلقوں میں نیا نام نہیں بلکہ وہ اپنے تخلیقی اور جُداگانہ صفات کے حامل کلام اور اپنے نصف درجن سے زائد تصانیف کے باعث ناقدینِ ادب سے داد وصول کر چکے ہیں۔ معروف شاعر، ادیب، سفر نامہ نگار جناب جاوید یادؔ۔۔ سہیل ساجدؔ کی ہمہ رنگ سُخن گوئی کے بارے یو ں گویا ہیں، ‘‘۔سہیل ساجدؔ سٹونزآبادی لفظوں سے تصویریں بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔ ہمیں اُن کی شاعری میں آج کے مسائل بھی دکھائی دیتے ہیں اور غزل کا روایتی اسلوب بھی ان کی شاعری میں جھلکتا ہے۔ اُن کی شاعری آج کی شاعری ہے جس میں آنے والے کل کے مسائل بیان کئے گئے ہیں۔’’

رضی الدین رضیؔ (شاعر ، ادیب ، دانشور)  سہیل ساجدؔ کے زیرِ نظر مجموعہ کلام، ‘‘ڈوبتا سُورج’’ کے بارے میں رقمطراز ہیں کہ، ‘‘ پاکستان کے ساتھ وابستگی اور محبت ان کی شاعری کی بنیاد ہے۔ وہ محبت کا پیغام دیتے ہیں، روٹھے ہوؤں کو منانے کی بات کرتے ہیں، اپنے دُشمن سے پیار کرنے کی بات کرتے ہیں۔ وہ سر اُٹھا کر جینا چاہتے ہیں اور اپنے زخموں کو سینا چاہتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہمیں ان کی شاعری میں خوف کا وہ پہلو بھی دیکھائی دیتا ہے جو اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے ہمارے ہر دوست کے دل میں موجود ہے۔’’

Advertisements
julia rana solicitors london

ربّ ِذوالجلال کی عنایات میں فہم و فراست ا ور دانش لازوال تحفے ہیں اور ان کا اہل ایک خوش قسمت ترین شخص ہے، الہامی صحائف سے اقتباس ہے کہ‘‘دانش مند کی باتیں پنیوں کی مانند ہیں۔’’سہیل ساجد ؔ صاحب کا زیرِ نظر مجموعہ کلام، ‘‘ ڈوبتا سورج’’ جہاں ہمیں زندگی کے کئی ایک پہلووں پر خوب صورت شعری اسلوب کے باعث روشناس کرواتا ہے ، وہیں اپنے عنوان ، ‘‘ڈوبتا سورج’’ کے ذریعے انسانی زندگی کی ایک بے ثباتی اور اٹل حقیقت ،‘‘ فنا’’ کی طرف توجہ دلاتا ہے۔انسان جو سراسر فنا ہے کتاب ہی اس کی بقاء ہے۔ سہیل ساجدؔ کا زیرِ نظر ساتواں شعری مجموعہ ء کلام 107 خوب صورت غزلوں مرقع ہے جو کہ 152 صفحات پر مشتمل ہے۔اس گُلدستہء سُخن کو ‘‘گردوپیش پبلیکیشن (ملتان، لاہور، اسلام آباد، کراچی)’’ نے ماہِ مئی 2023ء میں پورے اہتمام سے زیورِ طباعت سے آراستہ کیا ہے۔ ساجدؔ کا مجموعہء کلام، ‘‘ ڈوبتا سُورج’’ سنجیدہ اور اعلٰی تخلیقِ فن کا نمونہ ہے۔میں دُعا گو ہوں کہ ذاتِ ربّ ِکریم، سہیل ساجدؔ کی فکری بصارت اور زورِ بیان کو اور بھی وسعت دے اور یہ دیوانِ سُخن،اہلِ ذوق کو ادبی تسکین بہم پہنچائے، آمین ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply