جدید درخواستیں۔۔۔کے ایم خالد(مزاح مت)

جنا ب وزیر اعظم صاحب!
عنوان :درخواست برائے اجازت سیاسی ہلہ گلہ
جناب عالی!
گزارش ہے کہ فدوی کوآپ جناب اور آپ کی پارلیمنٹ نے مملکت خداداد پاکستان کا صدر منتخب کیا ہوا ہے ۔چونکہ شہر اقتدار میں ان دنوں خزاں کا موسم ہے اور ہر جانب پیلاہٹ ہی پیلاہٹ نظر آتی ہے جو کہ آنکھوں کو بھلی محسوس نہیں ہوتی ۔آپ کے آ جانے سے دل ذرا بہل جاتا ہے ورنہ تو اتنے بڑے ایوان صدر میں پاکستان کے صدور کی تاریخ کو یاد کرتے ہوئے دن اور رات گزرتی ہے۔جناب زرداری کے صدارت کے نشان ایوان صدر میں جابجا نظر آتے ہیں ۔صدر ہوتے ہوئے بھی وہ کس قدر سیاسی تھے کہ انہوں نے اپنی پارٹی کا پانچ سالہ دور بچوں جیسی معصومیت کے ساتھ گزار دیا ۔

عدالت نے ایک وزیر اعطم کی قربانی لی تو انہوں نے فوراً قربانی کے لئے دوسرا پیش کر دیا لیکن ان کے پارٹی کے لوگوں کی وفاداری پر بھی رشک آتا ہے کہ انہوں نے اپنے صدر کے استنثی پر حرف نہیں آنے دیا، جی تو میرا بھی بہت چاہتا ہے کہ میرا بھی کوئی استثنی اس قدر مقبول ہو جائے کہ چہار عالم اس کی دھوم ہو لیکن یہ سوچ کر چپ ہو جاتا ہوں کہ کون سا استثنی ۔ان کا بیان میڈیا میں سنا اور پڑھا کہ ہم نے صدر کا عہدہ غیر سیاسی کر دیا ہے توبے اختیار تارڑ صاحب یاد آ گئے ۔ وہ خود تو ’’میں ابھی آیا ‘‘کا کہہ کر مجھے شاید  بھول گئے ہیں اور میں یہاں بطور صدر بور ہو رہا ہوں ۔

اس سے قبل کے شہر اقتدار کے گلی کوچوں میں کوئی وال چاکنگ کروا جائے کہ’’ چوہدری ظہور الہی کو رہا کرو‘‘صدر صاحب کو بھی بے ضرر سے سیاسی ہلے گلے کی اجازت دی جائے تاکہ کہ فدوی کا دل بہل سکے ۔آپ تو جانتے ہی ہیں کہ فدوی کو بائیو۔۔لوجی سے کس قدر شغف تھا اسی لئے فدوی آج کل سابق صدر غلام اسحاق اور فاروق لغاری صاحبان کی آٹوبائیو گرافی کو دل جمعی سے پڑھ رہا ہے ۔
فدوی آپ کا مشکور و ممنون رہے گا
العارض
آپ کا اپنا حالیہ صدر!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جناب وزیر خزانہ
واہ فاقہ ای حکومت پاکستان
عنوان :درخواست برائے رد بجٹ
جناب عالی!
گزارش ہے کہ ہر حکومت کو بجٹ دستاویزات کی تیاری کے لئے کروڑوں روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں ۔’’اقتصادی ماہرین‘‘ کی فوج ہے جو عوام کی حالت بدلنے اور حکومت کو اس میدان میں کامیاب کروانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔اس تمام تر تیاری کے باوجود اپوزیشن کا پہلا جملہ یہی ہوتا ہے ’’مزہ نہیں آیا ‘‘کچھ اپنے آپ پر ہی مشتمل پارٹیاں کچھ  زیادہ ہی کھپ مچانے کی کوشش کرتے ہیں تو سپیکر کو مجبوراً ان کے مائیک کا گلا گھونٹنا پڑتا ہے جنہیں متاثرہ فریق نادیدہ قوت کا ہاتھ قراردیتے ہیں۔

جناب ۔۔۔ایک دور تھا جب پاکستان کے بجٹ کو عوام ایک آئیڈیل بجٹ قرار دیتے تھے ٹیکس پروگرام کا ’’خونی کھیل‘‘ سال میں ایک مرتبہ ہی کھیلا جاتا تھاپٹرول ،بجلی،گیس اشیائے خورد نوش کی قیمت بجٹ کے موقع پر ہی بڑھانے کی اجازت ہوتی تھی ،سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں تو پانچ فیصد اضافہ کردیا جاتا لیکن کسی وزیر خزانہ نے مزدور کی مزدوری کی بات نہیں کی تھی اور مزدور کو مارکیٹ کے ’’کھتریوں‘‘ کے حوالے کر دیا جاتا تھا لیکن اس وقت کے مزدورکی گزراوقات سرکاری ملازم سے بہتر تھی ۔

تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں کے منشور میں مزدور کی ’’تعریف ‘‘ کی گئی ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر سیاسی پارٹیاں اپنا پنڈال گرم کرتی ہیں ۔سب کا دعوی ہے کہ اگران کی پارٹی اقتدار میں آ گئی تو وہ مزدور کی قسمت بدل دے گی ۔مگر جب مزدور اپنی مزدوری جو کہ حکومت وقت نے مقرر کی ہے وصول کرتا ہے تووہ مزدوری کسی کریانہ فروش کے ہاتھوں میں پگھل کر نیچے گر جاتی ہے اس کے باپ کی کھانسی ،ماں کی شوگر ،بیوی کے پیوند لگے کپڑے اور منے کے ننھے پیروں کی چپل کے لئے وہ اپنی قوت بازو اور قسمت پر شاکر ہے۔

اب جبکہ روز ہی بجٹ سنایا جا رہا تو پھر ہر سال بجٹ کی کیا ضرورت ہے کیوں جون کی گرمی میں بجٹ کا رولا ڈالا جاتا ہے کیا اس بجٹ سے عوام کی حالت میں کوئی فرق پڑا ہے ’’ ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات ‘‘یہ مزدور کی اوقات تلخ ہی رہنی چاہیے  اگر یہ ایک تولہ سونے کے برابر ہو گئے تو پھر آوے آوے ،جاوے ،جاوے کون کرئے گا ،کون جون میں مارچ کرئے گا،کون جون کی تپتی دوپہروں اور دسمبر کی کڑکتی سردیوں میں پنڈال بھرے گا ،کون دھرنے دے گا۔
گاما بی اے ،بھٹہ مزدور
خوشحال پورہ ،دھوکہ منڈی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جناب تھانہ انچارج صاحب
عنوان : درخواست برائے درج کیے جانے ایف آئی آربرائے چوری شدہ شاعری
گزارش ہے کہ فدوی آپ کے تھانے کی حدود میں ایک مضافاتی علاقے موضع ہو شیار سے تعلق رکھتا ہے ۔اس علاقہ کی زمین شاعری کے لئے بہت زرخیز ہے اور یہاں روز بروز نئے شاعر پیدا ہو رہے ہیں ۔فدوی اس علاقے کا ایک مشہور شاعر ہے جس کا کلام علاقے کے بھانڈوں اور بینڈ باجے والوں میں بہت مشہور ہے فیس بک پر فدوی ہوشیار بھائی کے نام سے مشہور ہے۔فیس بک پر بھائی کے کلام پر لائک کی تعداد سینکڑوں میں ہے ۔بھائی کا کلام تقریبا ً پانچ سو صفحات تک جا پہنچا تھا ۔جسے کسی شاعری دشمن نے رات کے اندھیرے میں چرا لیا اب وہ ناہنجار میرے کلام کو اپنے نام کے ساتھ فیس بک پر روزانہ اپ لوڈ کرتا ہے ۔اس کا یہ فعل میری بدنامی کا باعث بن رہا ہے اور علاقہ کے لوگ جو میری شاعری کے معترف تھے مجھے چربہ اور سرقہ کے نام سے پکارتے ہیں ۔

آپ کے حضور فدوی اس بات کا اظہار کرتے کوئی شر مندگی محسوس نہیں کرتا کہ بھائی نے تک بندی سے کلام موزوں تک کا سفر کیسے طے کیا۔علم عروض تو وہ بھول بھلیاں ہیں کہ شاید ہی کوئی شاعر اس دشت کی مکمل سیاحی کر سکے ۔فدوی کو چند قابل بھروسہ لوگوں سے معلوم ہوا ہے کہ آپ جناب بھی شاعری سے شغف رکھتے اور زخمی تخلص فرماتے ہیں لیکن آپ کو جو کلام میرے ہاتھ لگا ہے وہ کلام موزوں نہیں ہے اور علم عروض پر پورا نہیں اترتا۔میں آپ جناب کے کلام کو موزوں کر سکتا ہوں بلکہ آپ سے کیا پردہ ایک ویب سائٹ بھائی کے ہاتھ لگی ہے جو کہ آپ کے کلام کو موزوں کرنے میں آپ کی معاون ثابت ہو سکتی ہے فدوی نے بھی وہیں سے استفادہ کیا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جناب ۔۔۔گزارش ہے کہ پانچ سو صفحات پر میری ایک ہزار کے قریب شاعری کی مختلف اصناف درج ہیں میں نے آپ جناب کا ایک کام کیا ہے تو فدوی کی بھی شاعری کی چوری کی ایف آئی آر کاٹی جائے تاکہ بھائی اسے فیس بک پر مشتہر کرکے اپنی روز بروز پھیلنے والی بدنامی کو روک سکے۔
العارض
ہوشیار بھائی شاعر،ہوشیار پور!

Facebook Comments

کے ایم خالد
کے ایم خالد کا شمار ملک کے معروف مزاح نگاروں اور فکاہیہ کالم نویسوں میں ہوتا ہے ،قومی اخبارارات ’’امن‘‘ ،’’جناح‘‘ ’’پاکستان ‘‘،خبریں،الشرق انٹرنیشنل ، ’’نئی بات ‘‘،’’’’ سرکار ‘‘ ’’ اوصاف ‘‘، ’’اساس ‘‘ سمیت روزنامہ ’’جنگ ‘‘ میں بھی ان کے کالم شائع ہو چکے ہیں روزنامہ ’’طاقت ‘‘ میں ہفتہ وار فکاہیہ کالم ’’مزاح مت ‘‘ شائع ہوتا ہے۔ایکسپریس نیوز ،اردو پوائنٹ کی ویب سائٹس سمیت بہت سی دیگر ویب سائٹ پران کے کالم باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں۔پی ٹی وی سمیت نجی چینلز پر ان کے کامیڈی ڈارمے آن ائیر ہو چکے ہیں ۔روزنامہ ’’جہان پاکستان ‘‘ میں ان کی سو لفظی کہانی روزانہ شائع ہو رہی ہے ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply