سندھ یونیورسٹی کی موجودہ حالت اور اصلاحات کی ضرورت
السلام علیکم!
آپ کی توجہ سندھ یونیورسٹی کی موجودہ صورتحال پر مبذول کرانا چاہتا ہوں، جس کا احوال نیچے ایک تفصیلی رپورٹ میں دیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں جنوری 2021 سے نومبر 2024 تک، ڈاکٹر محمد صدیق کلہوڑو کی وائس چانسلری کے دوران اختیار کے ناجائز استعمال، قواعد و ضوابط کی کھلی خلاف ورزی، اقربا پروری، میرٹ کے اصولوں کی پامالی، اور نااہل افراد کو اہم عہدوں پر فائز کرنے جیسے سنگین الزامات سامنے آئے ہیں۔ ان اقدامات نے نا صرف یونیورسٹی کے تعلیمی معیار کو متاثر کیا بلکہ ادارے کی عالمی حیثیت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
سندھ یونیورسٹی، جو کبھی ایک معیاری تعلیمی و تحقیقی ادارے کے طور پر جانی جاتی تھی، آج بدانتظامی اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے اپنی ساکھ اور معیار کھو بیٹھی ہے۔ SCImago انسٹیٹیوشنز رینکنگ کے مطابق، 2023 میں یونیورسٹی کی مجموعی رینکنگ 6140 تھی، جو 2024 میں مزید گر کر 7121 پر پہنچ گئی۔ اسی طرح تحقیق اور جدت (Innovation) کے میدان میں بھی یونیورسٹی کی کارکردگی انتہائی ناقص رہی ہے۔
یہ خط سندھ یونیورسٹی کی زبوں حالی اور اصلاحات کی فوری ضرورت کے حوالے سے ہے۔ اطلاعات کے مطابق، سندھ یونیورسٹی میں انتظامیہ کی نااہلی اور کرپشن نے اس تعلیمی ادارے کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ 33 انتظامی عہدوں پر تعینات افسران سالانہ کروڑوں روپے تنخواہ لے رہے ہیں، لیکن موجودہ وائس چانسلر صدیق کلہوڑو صاحب نے ان افسران کو سائیڈ پوسٹس پر منتقل کر دیا اور ان کی جگہ سیاسی رشوت کے طور پر کرپٹ اور نااہل افراد کو تعینات کیا ہے۔ یہ افراد بغیر تدریسی ذمہ داریوں کے تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں اور لُوٹ مار میں مصروف ہیں۔ بدقسمتی سے اس تمام عمل میں اساتذہ کی تنظیم “سوٹا” ان کی مکمل حمایت کر رہی ہے۔
وائس چانسلر صدیق کلہوڑو نے اپنے عہدے کو طول دینے کے لیے پچھلے چار سالوں میں سینکڑوں اساتذہ کو جعلی پروموشنز دیے، جس کی وجہ سے ادارے کا تعلیمی معیار شدید متاثر ہوا ہے۔ یونیورسٹی کے 500 پی ایچ ڈی اساتذہ میں سے کئی کا علمی معیار میٹرک کے طالب علموں کے برابر بھی نہیں۔
یہ بھی افسوسناک امر ہے کہ کلہوڑو صاحب نے خود رٹائرمنٹ کے بعد بھی اپنے لیے بے شمار مراعات حاصل کی ہیں، جن میں 50 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ، پنشن، رہائش، گاڑیاں، اور اضافی مراعات شامل ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے خود کو “پروفیسر ایمیریٹس” کا خطاب دلوایا، جس کی بدولت وہ زندگی بھر مزید مراعات حاصل کریں گے۔
سات سال قبل بھی سندھ یونیورسٹی میں کرپشن اور سازشوں کا یہی ماحول تھا، جس کی وجہ سے مجھے اس یونیورسٹی کو خیرباد کہہ کر استنبول آنا پڑا۔
میری آپ سے گزارش ہے کہ سندھ یونیورسٹی کی موجودہ حالت کا نوٹس لیں اور اس ادارے کو بچانے کے لیے فوری اور سخت اقدامات کریں۔ نااہل افراد کو برطرف کرکے میرٹ اور شفافیت کو یقینی بنایا جائے تاکہ یہ ادارہ اپنی اصل شناخت بحال کر سکے۔
درج اہم مسائل یہ ہیں:
1. انتظامی نااہلی
ڈاکٹر محمد صدیق کلہوڑي کی وائس چانسلری کے دوران انتظامی معاملات میں بے پناہ نااہلی کا مظاہرہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں یونیورسٹی کی عالمی رینکنگ میں نمایاں کمی آئی اور ادارہ تحقیق کے لحاظ سے بھی پیچھے چلا گیا۔
2. انفرا اسٹرکچر کی ترقی میں ناکامی
2017 میں وفاقی حکومت کی طرف سے 1600 ملین روپے کا منصوبہ منظور کیا گیا، مگر سات سال گزر جانے کے باوجود اس منصوبے پر عمل درآمد نہیں ہوسکا اور صرف سوشل سائنس کی عمارت پر کچھ کام ہوا۔
3. سولر انرجی پارک کا منصوبہ
2022 میں 400 ملین روپے کا سولر انرجی پارک منظور کیا گیا، مگر 2023 میں اس کا ٹینڈر بھی نہ ہوسکا اور پیسے ضائع ہوگئے۔
4. ادارے کی انتظامی ناکامی اور غیر ملکی تعلقات
ڈاکٹر کلہوڑی کی غیر دلچسپی اور ناقص پالیسیوں کی وجہ سے یونیورسٹی کی عالمی ساکھ متاثر ہوئی، غیر ملکی مہمانوں نے یونیورسٹی کے بارے میں منفی تاثر پایا۔
5. سلیکشن بورڈ میں بدعنوانی
وی سی نے سلیکشن بورڈ میں مخصوص گروپوں کے لیے بدعنوانی کی اور اپنے حامیوں کو ترقی دی جبکہ مخالفین کو ترقی سے محروم رکھا۔
6. پروفیسر ایمرٹس کا متنازع اعزاز
ڈاکٹر کلہوڑي نے اپنے آخری دنوں میں خود کو پروفیسر ایمرٹس بنانے کا فیصلہ کیا، حالانکہ ان کا تحقیقی ریکارڈ غیر تسلی بخش تھا۔
7. تحقیق کے لیے فنڈز کی کمی
ڈاکٹر کلہوڑي کے دور میں تحقیق کی ترقی کے لیے ضروری مالی معاونت فراہم نہیں کی گئی اور یونیورسٹی عالمی تحقیق میں شامل نہیں ہو سکی۔
8. تھیسس کی جائزہ لینے میں مشکلات
یونیورسٹی نے پی ایچ ڈی تھیسس کے لیے پیسے ادا نہیں کیے، جس سے تحقیق کے معیار اور ڈگری دینے کے عمل پر سوالات اٹھے۔
9. فیسوں میں بے تحاشا اضافہ
داخلہ، ٹیوشن، سرٹیفیکیٹس، مارک شیٹس اور ڈگریوں کی فیسوں میں 300 سے 400 فیصد تک اضافہ کیا گیا۔
10. اٹینڈنس میں چھوٹ کا غلط استعمال
ڈاکٹر کلہوڑي کی پالیسی کے تحت سو فیصد اٹینڈنس چھوٹ دی گئی، جس سے یونیورسٹی کا تعلیمی معیار متاثر ہوا۔
11. تحقیق اور سیمینارز میں دلچسپی کی کمی
ڈاکٹر کلہوڑي نے چور سالوں میں ایک بھی پی ایچ ڈی سیمینار کی صدارت نہیں کی اور تحقیق کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔
12. تحقیقاتی چیئرز کی تباہی
تحقیقی چیئرز جیسے علامہ آئی آئی قاضی اور بینظیر بھٹو چیئرز کو تباہ کردیا گیا اور تحقیق کے لیے ضروری وسائل مہیا نہیں کیے گئے۔
13. تحقیقی جرنلز کی بے توقیری
ایچ ای سی کی جانب سے یونیورسٹی کے مختلف تحقیقی جرنلز کو ڈی لسٹ کر دیا گیا اور اہم جرنلز کو ایڈیٹر بھی نہیں ملے۔
محترم وزیر اعلیٰ صاحب ،
یہ صورتحال سندھ کے تعلیمی مستقبل کے لیے ایک خطرناک اشارہ ہے۔ سندھ یونیورسٹی جیسے قدیم ادارے کی تباہی ہمارے نوجوانوں کی ترقی کے راستے مسدود کر رہی ہے۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ فوری طور پر ایک آزاد اور شفاف انکوائری کمیٹی تشکیل دیں تاکہ ان معاملات کی تحقیقات کی جا سکے اور ذمہ داروں کو کٹہرے میں لایا جا سکے۔
یونیورسٹی کو اس کے اصل معیار اور وقار پر بحال کرنا نہ صرف وقت کی ضرورت ہے بلکہ حکومت سندھ کی ذمہ داری بھی ہے۔ آپ کی فوری توجہ اور عمل درآمد کے منتظر،
امید ہے کہ آپ سندھ کے تعلیمی مستقبل کے لیے سنجیدگی سے اقدامات کریں گے۔
والسلام،
آپ کا خیرخواہ
سندھ کا باشندہ
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں