بادشاہ یا ماچھی

آپ وکالت کے پیشے سے وابستہ ہوں تو طرح طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے، بعض اوقات دلچسپ و عجیب لوگوں سے۔ چند دن قبل ایک دوست کے دفتر میں بیٹھا تھا، چائے اور گرما گرم پکوڑوں کا دور چل رہا تھا۔ ایک کلائنٹ دفتر میں آئے بیٹھے تھے، وہ علاقے اور جثے دونوں کے اعتبار سے پٹھان تھے۔ اُن کی گفتگو سے میری معلومات میں کافی اضافہ ہوا۔ اُس دن مجھے پتہ چلا کہ سورۃ فاتحہ کے ولالضالین کو دواد کی بجائے دواد سے پڑھا جائے تو اس کے معنی بدل جاتے ہیں۔ یہ انکشاف بھی ہوا کہ حضرت آدم علیہ السلام پٹھان تھے اور سب سے دلچسپ اضافہ میری معلومات میں یہ ہوا کہ مجھے پتہ چلا کہ کھوتے اور گھوڑے کا فرق کیسے پتہ لگایا جاتا ہے۔ موصوف نے ایک واقعہ یا حکایت کہہ لیجئے سنایا، آپ بھی سنیے۔
کسی سلطنت میں ایک بیوہ رہتی تھی، اُس کا ایک بیٹا تھا جو بیکار پڑا رہتا تھا، کوئی کام کاج نہیں کرتا تھا۔ بیوہ بڑی پریشان رہتی تھی کہ بیٹا کوئی کام نہیں کرتا۔ ایک دن وہ بیٹے کو لیکر بادشاہ کے دربار جا پہنچی۔ بھلے وقتوں کی بات ہے جب رعایا کی بادشاہوں تک رسائی کوئی زیادہ مشکل بات نہیں تھی۔ تھوڑی سی تگ ودو کے بعد وہ بادشاہ تک پہنچ گئی اور جان کی امان پا کر بادشاہ سلامت سے ہاتھ جوڑ کر عرض کی کہ میرے بیٹے کو دربار میں کسی کام پر رکھ لیجیے۔ بادشاہ نے جوان سے پوچھا کہ بھئی تمہیں کوئی کام آتا ہے۔ لڑکے نے نفی میں جواب دیا۔ بادشاہ نے پھر پوچھا کہ کوئی چھوٹا موٹا کام ہی آتا ہو، لڑکے نے پھر انکار میں سر ہلایا۔ بادشاہ نے پھر پوچھا کہ کسی قسم کا کوئی ہنر، کوئی دھندہ جس میں اُسے دلچسپی ہو لیکن لڑکے کا جواب پھر بھی نہ میں ہی تھا۔ عورت مایوس ہو کر دربار سے نکلنے لگی کہ لڑکے نے بادشاہ سے کہا کہ کوئی ہنر تو نہیں لیکن کھرے اور کھوٹے میں تمیز اسے بخوبی کرنا آتی ہے۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ اِس لڑکے اور اس کی بیوہ ماں کو رہنے کی جگہ دی جائے اور لڑکے سے کہا کہ ہر روز شام کو وہ شاہی تندور سے دو روٹیاں لے جایا کرے۔ لڑکا ہر روز شام کو آتا اور شاہی تندور سے دو روٹیاں لے جاتا، ایک خود کھاتا اور ایک ماں کو کھلاتا اور روٹی کھا کر دونوں ماں بیٹا سو رہتے۔ کچھ دن یہ سلسلہ چلتا رہا کہ ایک روز بادشاہ کے دربار میں ایک شخص آیا، اُس کے پاس ایک قیمتی پتھر تھا جسے وہ دنیا کا بہترین ہیرا قرار دے رہا تھا۔ اُس ہیرے کے عین وسط سے تیز روشنی نکلتی تھی۔ وہ شخص بادشاہ سلامت سے تقاضا کر رہا تھا کہ وہ اس ہیرے کو خرید لے کیونکہ اُس قیمتی ہیرے کو بادشاہ ہی کے پاس ہونا چاہیے۔ بادشاہ کافی دیر اُس ہیرے کو ٹٹول ٹٹول کر ہر زاویے سے دیکھتا رہا پھر ایکدم اُسے خیال آیا کہ کچھ روز قبل اُس نے دربار میں ایک لڑکا رکھا تھا جو دعویٰ کر رہا تھا کہ وہ کھرے اور کھوٹے کو پہچان سکتا ہے۔ اُس لڑکے کے امتحان کا وقت آ گیا تھا۔ بادشاہ نے اُسے دربار میں طلب کیا اور کہا کہ یہ شخص دعویٰ کر رہا ہے کہ یہ دنیا کا قیمتی ترین ہیرا ہے، کیا تم بتا سکتے ہو کہ یہ ہیرا واقعی اصلی ہے یا نقلی؟ لڑکا کافی دیر اُس ہیرے کو جانچتا رہا اور پھر بولا کہ بادشاہ سلامت ہیرا تو واقعی ایک نمبر اور اصلی ہے لیکن۔۔ ابھی اس نے لیکن بولا ہی تھا کہ ہیرے کے مالک نے اُس کی بات اُچک لی اور تیزی سے بولا لیکن کیا؟ اُس لڑکے نے کہا کہ لیکن ایک خرابی ہے کہ اِس ہیرے کے درمیان میں ایک کیڑا ہے جو اس پتھر کو اندر سے کھا رہا ہے۔ وہ شخص غصے میں آگیا اور بولا کہ تُو دو ٹکے کا لڑکا ہے اور میرے ہیرے میں عیب نکالتا ہے۔ بادشاہ نے کہا کہ یہ کیسے جانچا جائے کہ اس پتھر میں کیڑا ہے؟ لڑکے نے کہا کہ اس کو توڑا جائے۔ بادشاہ نے کہا کہ اگر اِس میں سے کیڑا نہ نکلا تو پھر۔ لڑکے نے کہا کہ بادشاہ سلامت میری تو اتنی اوقات نہیں ہے کہ میں اِس ہیرے کی قیمت دے سکوں، اگر کیڑا نہ نکلا تو میرا سر قلم کر دیجیے گا اور اگر نکل آیا تو ہیرا اِس شخص کو واپس کر دیجئے گا۔ چنانچہ ہیرا توڑا گیا اور اُس میں سے کیڑا نکل آیا۔ وہ شخص ہیرے کے ٹکڑے سمیٹ کر دربار سے چلا گیا۔ بادشاہ لڑکے کی قابلیت سے خوش ہوا اور کہنے لگا کہ کل سے شاہی تندور سے چار روٹیاں لے جایا کرے۔ اگلے روز سے لڑکا شام کو آتا اور شاہی تندور سے چار روٹیاں لے جاتا۔ دو روٹیاں خود کھاتا اور دو ماں کو کھلاتا اور دونوں سو رہتے۔ یہ سلسلہ پھر کچھ عرصہ چلتا رہا کہ ایک روز ایک اور شخص بادشاہ کے دربار میں آیا، اُس کے پاس ایک نہایت خوبصورت اور حسین گھوڑا تھا جس کی تعریفوں میں وہ شخص زمین آسمان کے قلابے ملا رہا تھا اور تقاضا کر رہا تھا کہ چونکہ یہ نہایت شاندار اور قیمتی گھوڑا ہے اور اِسے بادشاہ کے شاہی اصطبل میں ہونا چاہیے لہٰذا بادشاہ سلامت اسے خرید لیں۔ بادشاہ کو گھوڑا پسند تو آیا لیکن وہ کہنے لگا کہ گھوڑا نسلی ہے یا نہیں، اِس بات کا پتہ کیسے لگایا جائے گا۔ ایکدم بادشاہ کو یاد آیا کہ اُسی لڑکے کو طلب کیا جائے جس کا معاوضہ اُس نے دو سے بڑھا کر چار روٹی کر دیا تھا۔ چنانچہ اس لڑکے کو طلب کیا گیا اور اُس شخص کے دعوے کے بارے میں بتایا گیا۔ لڑکے نے کچھ دیر گھوڑے کے گِرد طواف کی صورت چند چکر لگائے اور کہنے لگا کہ بادشاہ سلامت! گھوڑے کی خوبصورتی میں تو کوئی شک نہیں ہے اور طاقت کے اعتبار سے بھی گھوڑا اپنی مثال آپ ہے لیکن اِس میں ایک مسئلہ ہے۔ گھوڑے کا مالک فوراً بولا کہ کیا مسئلہ ہے۔ لڑکے نے جواب دیا کہ طاقت اور حُسن میں تو جواب نہیں لیکن گھوڑا کھوتے کی نسل سے ہے۔ گھوڑے کے مالک نے غصے سے کہا کہ تیری اوقات کیا ہے کہ میرے گھوڑے میں عیب ڈھونڈتا ہے۔ لڑکے نے کہا کہ بادشاہ سلامت! گھوڑے کو کھلے میدان میں بھگایا جائے، اِتنی دیر بھگایا جائے کہ گھوڑا پسینے میں نہا جائے اور تھک جائے۔ جب اسے پسینہ آئے گا تو اس کی جلد پر خارش ہو گی اور اگر یہ گھوڑا نسلی ہوا تو اپنی پسلیوں کے بل لیٹ کر جسم کو زمین سے رگڑے گا اور اگر کھوتے کی نسل سے ہوا تو چاروں ٹانگیں ہوا میں اٹھا کر اپنی کمر کو زمین سے رگڑے گا۔ بادشاہ نے کہا کہ اگر تو اپنے دعوے میں جھوٹا ہوا تو تیرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ لڑکے نے کہا کہ بادشاہ سلامت میری تو اتنی اوقات نہیں کہ میں اس گھوڑے کی قیمت دے سکوں، اگر میرا دعویٰ غلط ہوا تو آپ بیشک میری گردن اتروا دیجئے گا اور اگر میرا دعویٰ درست نکلا تو یہ شخص اپنا گھوڑا لیکر واپس چلا جائے۔ گھوڑے کو میدان میں دوڑایا گیا یہاں تک کہ گھوڑا پسینے میں شرابور تھک کر زمین پر لیٹ گیا۔ سب نے دیکھا کہ گھوڑے نے چاروں ٹانگیں ہوا میں اٹھائیں اور اپنی کمر کو زمین سے رگڑنے لگا۔ اُس شخص نے اپنا گھوڑا ساتھ لیا اور دربار سے نکل گیا۔ بادشاہ نے لڑکے سے کہا کہ کل سے وہ شاہی تندور سے ہر روز چھے روٹیاں لے کر جایا کرے۔ وہ لڑکا اگلے دن سے شاہی تندور سے چھے روٹیاں لے کر جانے لگا، تین خود کھاتا اور تین ماں کو کھلاتا۔ دو ایک روز گزرے تو بادشاہ کو خیال آیا کہ وہ کس قدر احمق انسان ہے، ایک لڑکا جو کھرے اور کھوٹے میں خوب پہچان کر سکتا ہے اور اُس کے دربار میں ہے، اُس سے اپنی ذات کے بارے میں کیوں نہ دریافت کیا جائے؟ بادشاہ نے لڑکے کو دربار میں طلب کیا اور کہا کہ ہاں بھئی! تُو کھرے اور کھوٹے میں خوب تمیز کر سکتا ہے، دو مرتبہ تُو نے ہمیں دھوکے سے بچایا ہے، آج تُو ہماری ذات کے بارے میں ہمیں آگاہ کر۔ لڑکا بہت پریشان ہوا اور کہنے لگا کہ بادشاہ سلامت! میں کہاں اور آپ کہاں، میں آپ کی ذات کے متعلق رائے نہیں دے سکتا۔ بادشاہ نے کہا کہ اگر تُو نہیں بتائے گا تو ہم تیرا سر قلم کروا دیں گے۔ لڑکے نے دست بستہ عرض کیا کہ بادشاہ سلامت! اگر میں بتا دوں گا تب بھی آپ میرا سر قلم کروا دیں گے، اِس لیے بہتر ہے کہ آپ مجھ سے اپنی حقیقت جانے بغیر ہی میرا سر قلم کروا دیں، میرا سر حاضر ہے۔ بادشاہ نے اصرار کیا تو لڑکے نے ڈرتے کانپتے کہا کہ حضور آپ ماچھن کی اولاد ہیں۔ بادشاہ غصے میں آگیا اور گرجدار آواز میں کہنے لگا کہ تجھے کس نے کہا کہ ہم ماچھن کی اولاد ہیں۔ لڑکے نے ہاتھ باندھ کر عرض کی کہ عالیجاہ! اگر آپ ماچھن کی اولاد نہ ہوتے تو اول تو میرا معاوضہ دو روٹی مقرر نہ کرتے اور اگر کر ہی دیا تھا تو ہر بار انعام کے طور پر معاوضے میں دو روٹی کا ہی اضافہ نہ کرتے۔ بادشاہ تصدیق کیلئے اپنی ماں کے پاس گیا تو اُس کی ماں نے کہا کہ اِس لڑکے کو قتل نہ کرنا، تُو واقعی ماچھن ہی کی اولاد ہے۔
میں نے یہ حکایت سُنی تو خیال آیا کہ کتنی آسانی سے اِس حکایت کی روشنی میں ہم اپنے لیڈروں کی حقیقت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ لیڈر چاہے حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں، آپ اُن کے بارے میں اندازے لگائیے۔ میرا دھیان تو سب سے پہلے اپنے وفاقی وزیرِ خزانہ کی طرف گیا، مجھے بتانے کی ضرورت نہیں کہ میرے دماغ نے کیا فیصلہ دیا، آپ سب سمجھدار ہیں، سمجھ تو گئے ہی ہوں گے، ہے ناں؟

Facebook Comments

محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ
میں جو محسوس کرتا ہوں، وہی تحریر کرتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply