4 اپریل 1979- پے در پےشکست آرزو

اپریل کی ایک صبح کا ذکر ہے، سکولوں میں سالانہ امتحانات کے بعد کی تعطیلات چل رہی تھیں۔ بڑی خالہ مرحومہ کے بچے چھٹیاں گزارنے کے لیے ہمارے گھر آئے ہوئے تھے۔ نو بجے کے قریب ناشتے وغیرہ سے فارغ ہوئے اور کیرم لڈو وغیرہ کھیلنے کے پروگرام بنائے جارہے تھے۔ مجھے دونوں میں سے کوئی کھیل پسند نہیں تھا اور چاہتا تھا کہ کوئی میرے ساتھ شطرنج کی بازی لگائے۔ خدا غریق رحمت کرے، خالہ اورخالو دونوں بڑےپکے جیالے تھے ۔خالومرحوم نہایت زندہ دِل آدمی تھے جبکہ خاکسار پورے خاندان میں واحد 'جماعتیا' تھا لہذا وہ جگت بازی کے ذریعے میرا 'مزاج درست کرنے' کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے۔ شطرنج کھیلنے کے بارے میں اپنی فرمائش دُہرائی تو قبلہ خالو برجستہ فرمانے لگے "اوئے تہاڈے وچ ایہڈا ذہین کون اے جیہڑا شطرنج کھیڈ لیندا اے"۔ ابھی اس بات پر قہقہے لگائے جارہے تھے، اچانک کسی نے بتایا کہ ' چئیرمین صاحب' کو صبح سویرے پھانسی دے دی گئی ہے۔ فورا ریڈیو کی طرف بھاگا۔ ریڈیو سے تصدیق کے بعد گھر میں جیسے صف ماتم بچھ گئی۔غم و غصے کے جذبات کا ایک طوفان تھا جو تھمنے میں نہیں آرہا تھا۔ خاکسار اگرچہ اُس وقت تک بھی بھٹو صاحب کے کٹر مخالفین ہی میں شامل تھا، یہ خبر سُن کرشدید صدمے کی حالت میں تھا۔
ذہن کے کسی گوشے میں یہ خدشہ تو موجود تھا کہ بھٹو صاحب کو کسی بھی وقت تختہ دار پر لے جایا جاسکتا ہے لیکن یہ تو حاشیہ خیال میں بھی نہیں تھا کہ یہ سبھی کچھ اس قدرجلد بھی ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف یہ قوی اُمید بھی موجود تھی کہ شاہ خالد، معمر قذافی یا یاسرعرفات میں سے کوئی نہ کوئی دباؤ ڈال کریہ سزا موقوف بھی کروا سکتا ہے۔ اُدھرسید ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا مفتی محمود، خان عبدالولی خان، نواب زادہ نصر اللہ خان، پروفیسرعبدالغفور، ائیرمارشل اصغرخان، پیرعلی مردان شاہ آف پگاڑا شریف، شیر باز مزاری اور دیگر بہت سی قدآور شخصیات ملک کے سیاسی منظر نامے پرموجود تھیں۔ لہذا ایک مخلص سیاسی کارکن ہونے کے ناتے یہ گمان (یاخوش گمانی) موجود تھی کہ معاملات اس انتہا تک کبھی بھی نہیں جائیں گی اور یہ معزز ہستیاں ضرور بالضروراپنا کردارادا کریں گی۔ جماعت اسلامی اوراسلامی جمعیت طلبا کے بالائی نظم میں کیا باتیں چل رہی تھی اس کا کوئی اندازہ نہیں تھا کیونکہ خاکسارپانچ چھ ماہ قبل ہی انٹر پاس کرکے اوربوجوہ جمعیت طلبا سے مستعفی ہوکر مستقبل کی تعلیمی منصوبہ کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ تاہم حلقہ احباب میں ایک وسیع تعداد ایسی تھی جو اس سزا کی مخالف تھی۔
بھٹو صاحب کی یہ اچانک پھانسی ہمارے زمانے کے نوجوان سیاسی کارکنان کی نسل کے لیے دوسرا بڑا شدید ترین دھچکا تھا۔ دوسری طرف یہ بات جاننے میں بھی ہمیں کچھ وقت لگا تھا کہ جن معزز ہستیوں کا ذکراُوپر کیا گیا ہے، اُنھوں نے اگر کوئی کردارادا بھی کیا تھا تو وہ بھٹو صاحب کو بچانے کے لیے نہیں بلکہ پھنسی لگوانے کے سلسلے میں تھا اور یہ ہماری نسل کے نوجوان سیاسی کارکنان کی شکست آرزو کا اُوپر تلے تیسرا بڑا واقعہ تھا۔
ابھی دوبرس پہلے ہی تو ہم نے بھٹو کے 'آمرانہ طرز اقتدار' اور انتخابات میں 'وسیع پیمانے پر دھاندلی' کے خلاف'کامیاب' مہم چلائی تھی ہم سب کا صدق دِل سے یہ خیال تھا کہ ہم نے یہ جدو جہد آمرانہ طرز اقتدار اوربنیادی شہری آزادیاں سلب کئے جانے کے خلاف کی تھی (نوجوان جذبوں کی سادہ لوحی کی انتہا)۔ واضح رہے کہ بھٹو مرحوم نے 20 دسمبر 1971 سے لے کر 5 جولائی 1977 تک اپنی حکومت کا بیشترعرصہ ہنگامی حالات کے سائے میں اور ڈیفنس آف پاکستان رُولز(ڈی پی آر )اور ایم پی او-16 (مینٹی نینس آف پاکستان آرڈر-16) جیسے کالے قوانین کے بے دریغ استعمال اور اپنی بنائی ہوئی خصوصی فیڈرل سیکیورٹی فورس(ایف ایس ایف) پر حد درجہ انحصار کے ذریعے گزارا تھا۔لہذا ہم میں سے بہت سے لوگ پورے خلوص کے ساتھ یہ سمجھتے تھے کہ ہم جمہوری بندوبست کو اپنی اصل شکل میں بحال کرنے کے لیے میدان میں نکلے ہیں۔ لیکن جس وقت مارشل لا لگادیا گیا تو بہت سے دوست شدید مایوسی کا شکار ہوئے تھے کیونکہ ہم سبھی اس بات میں واضح تھے کہ ہم نے کبھی ایسا نہیں چاہا تھا ۔ ہماری جدوجہد اس بات کے لیے نہیں تھی ایک سویلین آمرکی جگہ پر ایک وردی والا آکر براجمان ہوجائے ۔ یہ ہماری نسل کے لئے شکست آرزو کا سب سے پہلا صدمہ تھا ،اگرچہ ہمیں یہ سمجھنے میں کچھ وقت لگا کہ 1977کی نظام مصطفیٰ تحریک میں ہم نوجوانوں کو کس بے ضمیری کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے۔
خاکسار اس سوچ میں بالکل واضح ہے کہ ہم جیسے مٹھی بھر نوجوانوں ہی پر کیا موقوف، اُس گھڑی میں پوری قوم شدید سکتے کی حالت میں چلی گئی تھی اورصدمے کی اس اجتماعی کیفیت سے نکلنے میں ہمیں کم وبیش دو برس لگ گئے اور پھر 8 فروری 1981 کو شہری اور سیاسی آزادیوں کا یہ کارواں تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) کی صورت میں پھر سے جادہ پیما ہوا۔ یہ مختصر سی تحریرشہید ذوالفقارعلی بھٹو جیسی عبقری اور قدآور شخصیت کا احاطہ خیر کیا کرے گی، اس کے لیے تو علیحدہ اورتفصیلی دفتر درکار ہیں۔ ان سطروں کو اس بات پر سمیٹنے کی کوشش کروں گا کہ پاکستان کی جمہوری اور سیاسی جدو جہد میں ہزراہا سیاسی کارکنان کے خوابوں کا خون شامل ہے اور ان خوابوں کا خون کرنے والے کون ہیں، یہ بات بھی اب ڈھکی چھپی نہیں رہی ۔ ہم جیسے کارکنان بازی ضرور ہارے ہیں، ہمت نہیں اور جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا اپنی آنے والی نسلوں کے ساتھ ہرگز نہیں ہونے دیں گے۔ شدید نتائج کی دھمکیاں ہمیں پہلے ڈرا سکی ہیں اور نہ ہی اب ہماری منزل کھوٹی کرسکیں گی کیونکہ (مارٹن لوتھر کنگ جونئیر کے الفاظ میں)ہمارے پاس گنوانے کے لئے زنجیروں کے سوا کچھ بھی نہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

تنویر افضال
پاکستان اور عالمی سماج کا ہر حوالے سے ایک عام شہری۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply