تنویر افضال کی تحاریر
تنویر افضال
پاکستان اور عالمی سماج کا ہر حوالے سے ایک عام شہری۔

ملکی تاریخ کا مہنگا ترین سبق۔۔۔۔

ہمارے پاس حکومت ہے،اختیار نہیں ۔۔۔۔ فیصل واڈا کا یہ ایک فقرہ انتہائی سنگین قومی المیے کا خلاصہ بیان کرتا ہے ۔اس المیے کو سمجھنے کے لیے تھوڑا سا پیچھے جا کر ماضی قریب کی ملک کی سیاسی تاریخ پر←  مزید پڑھیے

ریاست کی قوت نافذہ کس کے ہاتھ میں ہے؟۔۔۔تنویر افضال/قسط1

فیصلہ آگیا اور اس کےصاف و شفاف ہونے کے بارے میں اس سے زیادہ کیا کہا جائے کہ  دوست و دشمن سبھی کو پہلے ہی سے اندازہ تھا کہ کیسا فیصلہ ہوگا۔ اس کے قانونی پہلوؤں کے بارے میں بھی←  مزید پڑھیے

ملک کے فرسودہ سیاسی ڈھانچے میں ہلکی سی دڑار۔۔تنویر افضال

اگرچہ پاکستان تحریک انصاف 1996ء سے ملک کے سیاسی منظر نامے پر موجود ہے لیکن اسے صحیح معنوں میں عوامی پذیرائی 2011 ء میں ملنا شروع ہوئی اور پھر مئی 2013 کے عام انتخابات میں یہ ایک مؤثر سیاسی قوت←  مزید پڑھیے

قرارداد مقاصد: سات دہائیوں کے بعد ۔۔تنویر افضال

یہ امر نہایت خوش آئند ہے کہ گزشتہ دس بارہ برس کے دوران اہل علم کے باہمی مباحثے کے نتیجے میں 12 مارچ 1949 کو منظور کی جانے والی قرارداد کی اہمیت اور معاشرے پر اس کے اثرات پر بات←  مزید پڑھیے

4 اپریل 1979- پے در پےشکست آرزو (حصہ دوم)

کسی بھی انسان کو کامل اور تمام خوبیوں سے مرصع دیکھنا بہت سی وجوہات کی بنیاد پرایک ناممکن سی خواہش ہے۔ ان میں سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ خوبیاں اور کمالات بجائے خود موضوعی (سبجیکٹو) سے معاملات ہیں←  مزید پڑھیے

4 اپریل 1979- پے در پےشکست آرزو

اپریل کی ایک صبح کا ذکر ہے، سکولوں میں سالانہ امتحانات کے بعد کی تعطیلات چل رہی تھیں۔ بڑی خالہ مرحومہ کے بچے چھٹیاں گزارنے کے لیے ہمارے گھر آئے ہوئے تھے۔ نو بجے کے قریب ناشتے وغیرہ سے فارغ←  مزید پڑھیے

بھگت سنگھ کی یاد میں ایک یادگار تقریب

سیاسی کارکن کسی بھی سماج کی رگوں میں دوڑنے والے خون کی مانند ہوتے ہیں۔ خون صالح ہوگا توسماج کا جسد بھی صحت مند ہوگا ۔ اسی معاملے کو دوسرے رُخ سے دیکھا جائے تو ایک صحت مند سماج ،زندگی←  مزید پڑھیے

پنجابی ڈھگے سے پنجابی سامراج تک

بچپن کی چند سہانی یادوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نسل در نسل لاہور میں بسنے والے ہمارےخاندان میں کچھ اُردو سپیکنگ لوگ بھی پائے جاتے تھے۔ خالص لاہوری ‘ڈھگوں’ کی اس فیملی میں ‘مسلم اشرافیہ’ کی اس←  مزید پڑھیے