”ریاست ہوگی ماں کے جیسی“ مضحکہ خیز نعرہ

کل میں ایک گیت سن رہا تھا جو گایا تو لال بینڈ نے ہے، مگر لکھا ہے پیپلز پارٹی کے نام نہاد بائیں بازو کے ایک دانشور نے۔ شاعر کہتے ہیں ریاست ہوگی ماں کے جیسی ہر شہری سے پیار کرے گی۔ مجھے یہ جملہ بڑا مضحکہ خیز لگا، چند دوستوں سے اس بابت بات ہوئی تو وہ بھی اس کے پرجوش حامی نکلے، اس بناء پر ان سے تفصیلی بات ہوئی اور اصل نقطہ نظر ان کے سامنے رکھا۔
ریاست کو اس کی تعریف سے دیکھنا چاہیے، کارل مارکس ریاست کو ایسے بیان کرتے ہیں کہ ریاست مسلح افراد کے گروہوں پر مشتمل ہوتی ہے، جو اقلیت کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے اور انکو اکثریت کے استحصال کا جواز مہیا کرتی ہے۔ ہماری بورژاوازی ریاستیں بھی تاریخی ارتقاء کے بعد یہاں تک پہنچی ہیں اور یہ ایک مہذب طریقے سے استحصال کرتی ہے مگر جہاں معاملہ سنگین ہو تو یہ ننگے جبر پہ آمادہ ہونے سے بھی دریغ نہیں کرتی، بلوچستان میں پاکستانی ریاست کا عمل اور ہندوستان میں کشمیر سے لے کر آسام، ناگالینڈ، میزو رام، منی پور اور ماواسٹوں تک میں ریاست اپنے ننگے اور صدیوں پرانے طریقہِ جبر مسلط کیے ہوئے ہے۔
بورژاوا ماہرین بھی اس بات سے متفق ہیں کہ ریاست کا وجود ہمیشہ سے نہیں تھا، بلکہ انسانیت کے آغاز کے بعد کا طویل عرصہ ریاست کی غیر موجودگی میں ارتقا کی منازل طے کرتا آگے کی جانب گامزن رہا۔
قدیم ابتدائی اشتراکی نظام میں ریاست کا کوئی تصور نہیں تھا، سب مل جل کر ایک خاندان کی طرح سکونت پذیر تھے، مگر ذرائع پیداوار میں خاطر خواہ ترقی نہ ہونے کی بنا پر زرعی انقلاب عورتوں کے ہاتھوں وقوع پذیر ہوا اور طبقاتی سماج کی باقاعدہ بنیاد پڑی، اس کے ساتھ ہی نجی ملکیت زمین کی رائج ہوئی اور اس کے ساتھ ہی ریاست وجود میں آئی۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دو طبقات کے درمیان مصالحت کا باعث بنتی ہے مگر سچ یہ ہے کہ یہ طبقہ امراء کے حقوق کی نگہبانی کرتا ہے، قدیم یونان کی ریاست میں باقاعدہ طور پر طبقاتی، ذات اور قومیت کی تخصیص پر مبنی نظام رائج کیا گیا تھا، جس کے مطابق صرف ایتھنز کے شہری ہی مقننہ کا حصہ بن سکتے تھے، غلاموں اور چھوٹی ذاتوں کے لوگوں کا داخلہ ایوان میں ممنوع تھا۔ اس نا انصافی کے خلاف غلاموں نے جب آواز اٹھائی تو بھاری فوج کے ساتھ ان کو کچل دیا گیا۔ سپارٹا میں بھی ایک عوامی بغاوت ہوئی جس کو بری طرح سے کچل دیا گیا۔ روم کی سلطنت میں بھی عوامی اور غلاموں کی بغاوتیں ہوئیں اور کبھی بھی ایلیٹ کلاس پر آنچ نہیں آنے دی گئی۔ جاگیرداری نظام کی تو موجودہ دور کی بھی مثالیں موجود ہیں، انڈیا کی تبھیگا تحریک اور نکسل باڑی انقلاب بھی تو جاگیرداری کے خلاف تھا، جس میں ریاست جاگیرداروں کے ساتھ مل گئی اور بے گناہ لوگوں کا خون بہایا گیا۔ ریاستی پولیس اور فوج بورژاوازی اور جاگیرداروں کے ساتھ مل کر غریب مزدور اور کسانوں کا قتل عام کرنے لگی۔ قومی آزادی کی تمام تحریکوں میں جاگیرداروں نے سامراج کے گماشتے ہونے کا ثبوت دیا اور پولیس اور فوج نے سامراجیوں کی حمایت کی اور تمام تحریکوں کو کچلنے کی کوشش کی۔ الجزائر کی تحریک آزادی کو ہی دیکھ لیں، فرانز فینن نے کھلے الفاظ میں جاگیرداروں کی مذمت کی اور کسانوں کو انقلاب کا راستہ اپنانے پہ زور دیا، اس کے بقول نو آبادیاتی دنیا میں سب سے انقلابی طبقہ بے زمین کسان ہوتے ہیں۔ پولیس اور فوج کا کردار وہ خصوصی طور زیر بحث لائے مگر وہی بات یہ مسلح جتھے ہی مل کر ریاست تشکیل دیتے ہیں۔
ریاست ہمیشہ اقلیت کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے اکثریت پہ چوٹ لگاتی ہے، مگر جب ریاست اکثریت کے زیرانتظام آجائے تو لینن اس دور کو نیم ریاست کہتا ہے، ریاست کی یہ شکل بھی بھیانک ہوتی ہے جو اکثریت کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے سرمایہ داروں، جاگیرداروں، نو دولتیوں، پٹے داروں کو قابو میں رکھتی ہے اور رد انقلاب کو پامال کرتی ہے۔اب بات ہوجائے لبرلز کی جنت جمہوری سرمایہ داری پر، 1970 تک ایک فلاحی ریاست کا تصور یورپ میں موجود تھا۔ جس کی وجہ کمیونزم کا تدارک تھا مگر جیسے ہی سوویت یونین کا انہدام ہوا اور مشرقی یورپ سے ترمیم پسندوں کی حکومتیں ختم ہوئیں۔ سرمایہ دار کے اندر کی حرص طمع جاگ اٹھی اور پھر آہستہ آہستہ کٹوتیوں کا سلسلہ چل نکلا۔ جرمنی میں 2007 میں بے روزگار افراد کے لیے 750 یورو سوشل سکیورٹی مقرر تھی جو اب کم کرکے 349 یورو کردی گئی ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ ٹیکسوں کی شرح انہی ”فلاحی ریاستوں“ میں ہے،ڈنمارک، سویڈن عام مثالیں ہیں۔ سرمایہ داری کے آغاز کے دنوں کے صنعتی انقلاب نے ویج لیبر کو جنم دیا اور بے پناہ سخت اور نامساعد حالات میں زبردستی لوگوں کو کام پہ مجبور کیا گیا۔ دوسرا دور سامراجی سرمایہ داری کا تھا جس میں نو آبادیاتی دنیا اور پسماندہ ممالک کا معاشی اور معاشرتی بنیادوں پہ استحصال کیا گیا۔ پھر نام نہاد آزادی دینے کے بعد ان ممالک پہ اپنے گماشتہ حکمران مسلط کردئیے گئے۔ بھلا یہ بھی کوئی آزادی تھی؟ جس میں وطن معاشی طور پر سامراجی غلام ہو۔ پھر مونوپلی کیپٹل ازم یا کمپنیوں کی اجارہ داری کا کیپٹل ازم در آیا، یہ سامراجیت کا ہی تسلسل ہے۔ آج دنیا کی 80فیصد تک دولت پانچ سو کمپنیوں کے ہاتھ میں ہے۔ وہ اپنی مرضی سے حکمران بناتے اور گراتے ہیں، ڈاکٹر مصدق کی ایرانی گورنمنٹ ہو یا سینڈسٹاس کی نکاراگوا کی سرکار ہو، کہیں برٹش پٹرولیم نے سرکار گروا دی تو کہیں نیشنل فروٹ کمپنی نے۔ آج ریاست کمپنی سامراج کے ہاتھوں ایک کھلونے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بنک، ایشیائی ترقیاتی بنک، یورپین اکنامک کمیشن یہ تمام سامراجی ادارے پسماندہ اور غریب ممالک کا شدید استحصال کررہے ہیں۔ ان کے سودی چکر میں جو ملک بھی پھنسا پھر نہ نکل سکا، یہ اپنی شرائط پہ قرض دیتے ہیں اور پھر ان شرائط کا بوجھ غریب طبقے پہ آتا ہے، کیونکہ امراء ان تمام خرافات سے مستثنیٰ ہیں، کھانے کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، بنیادی استعمال کی چیزوں کا حصول دشوار ہوگیا ہے۔ ریاستی جبر بھی بڑھ گیا ہے، کیونکہ غریب لوگ اپنی استطاعت سے زیادہ کا بوجھ اٹھا رہے ہیں، جس کی وجہ سے بعض اوقات بے چینی پھیلتی ہے جسے ریاست فوراً کچل دیتی ہے۔ اب ریاست کوئی ترقی پسندانہ کردار ادا نہیں کرسکتی، اب ان جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے خلاف نیم ریاست کا ڈنڈا استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ سوشلزم ہی عہدِ حاضر کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
انقلاب زندہ باد
عوامی مزاحمت پائندہ باد۔

Facebook Comments

ہمایوں احتشام
مارکسزم کی آفاقیت پہ یقین رکھنے والا، مارکسزم لینن ازم کا طالب علم، اور گلی محلوں کی درسگاہوں سے حصولِ علم کا متلاشی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply