• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مسلم لیگ ن کو ہرانے کے تمام منصوبے ناکام ہو چکے…طارق احمد

مسلم لیگ ن کو ہرانے کے تمام منصوبے ناکام ہو چکے…طارق احمد

غالباً اس بات کا فیصلہ بہت پہلے کر لیا گیا تھا۔ کہ 2013 کے الیکشن کے بعد نواز شریف اور مسلم لیگ ن کو اگلا الیکشن جیتنے نہیں دینا۔ وجہ اس کی صرف دو تھیں ۔ نواز شریف مقتدر حلقوں کے لیے پسندیدہ نہیں رہے  تھے۔ اور یہ ناپسندیدگی تب ہی شروع ہو گئی تھی جب انہوں نے بطور وزیر اعظم 1993 میں اپنی مشہور زمانہ تقریر میں یہ اعلان کیا تھا کہ وہ ڈکٹیشن نہیں لیں گے۔ اور ڈکٹیشن نہ لینے کا یہ اشارہ اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی کے حوالے سے تھا۔ اس سے پہلے نواز شریف پہلی گلف وار اور آپریشن ڈیزرٹ اسٹارم کے متعلق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کی پالیسی کی بھی مخالفت کر چکے تھے۔ کراچی میں متحدہ کے خلاف جنرل آصف نواز جنجوعہ کے آپریشن کلین اپ کے خلاف تھے۔ نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ایشو پر جنرل جہانگیر کرامت سے استعفے لے چکے تھے۔ کارگل ایشو پر جنرل مشرف کو برطرف کرنے پر اپنی حکومت گنوا چکے تھے۔ چنانچہ ناپسندیدگی بہت زیادہ تھی۔ جنرل کیانی نے چونکہ جنرل مشرف کو وکلاء تحریک کے ذریعے حکومت سے فارغ کیا تھا۔ اور جنرل مشرف ابھی حال ہی میں اپنے ایک انٹرویو میں اس حقیقت سے پردہ بھی اٹھا چکے ہیں۔ چنانچہ کچھ جنرل کیانی کی اپنی پالیسی اور کچھ سعودی عرب کا دباؤ ، نواز شریف جلا وطنی سے سیدھے پاکستان کی سیاست میں داخل ہو گئے۔ جنرل راحیل چونکہ پرویز  جنرل مشرف تھے۔ اور جس کا اقرار جنرل مشرف بھی کر چکے ہیں ۔ کہ جنرل راحیل نے ملک سے باہر  جانے میں ان کی مدد کی۔ اور چونکہ نواز شریف نے آئین توڑنے کے الزام میں جنرل مشرف پر غداری کا مقدمہ بھی شروع کروا دیا۔ چنانچہ نواز شریف کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کی پرانی ناپسندیدگی پھر سے تازہ ہو گئی۔ جو جنرل کیانی کی وجہ سے عارضی طورپر دب گئی  تھی۔ ایکسٹنشن نہ ملنے پر جنرل راحیل اور جنرل پاشا مزید ناراض ہو گئے۔ جنرل مشرف کی لابی پہلے ہی تیار بیٹھی تھی۔ چنانچہ نہ صرف وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کو مفلوج کر دیا گیا۔ بلکہ کبھی ڈان لیکس ، کبھی دھرنے ، کبھی کلبھوشن یادیو ، کبھی مودی یار ،کبھی ختم نبوت اور کبھی ضرب عضب کے نام پر وزیراعظم کے اختیارات بھی سلب کر لیے گئے۔ اس دوران نواز شریف کی صرف یہ کوشش تھی۔ کسی طرح اپنی مدت پوری کی جائے۔ پروجیکٹس مکمل کیے جائیں اور اگلا الیکشن ان ترقیاتی کاموں کی بنیاد پر لڑا جائے۔ اور اچھے وقت کا انتظار کیا جائے۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ انہیں یہ وقت دینے کے لیے تیار نہ تھی۔ پانامہ لیکس کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اور جب اس میں کچھ نہ ملا تو اقامہ پر نااھل کر دیا گیا۔
ایک وجہ ناپسندیدگی تھی۔ اور دوسری وجہ یہ خوف کہ ایک سیاسی خاندان بہت طاقتور ہوتا جا رہا  ہے۔ اور شاید مقبول بھی۔
نواز شریف اور مسلم لیگ ن کو سیاست سے آوٹ کرنے کے لیے پہلے عمران خان اور میڈیا کے ذریعے نواز شریف کے خلاف چار سال تک چور اور ڈاکو کا پروپیگنڈہ کروایا گیا۔ پھر نااہل کرنے سے پہلے ججوں کے ذریعے سسلین مافیا ، ڈان اور گاڈ فادر جیسا گھٹیا پروپیگنڈہ کروایا گیا۔ پھر نااہل کیا گیا۔ مزید ڈرانے اور جیل میں ڈالنے کا خوف دیا گیا۔ اور اس کے لیے نیب کے مقدمے شروع کروائے گئے۔ جب پھر بھی بات نہ بنی اور نواز شریف نے سیاست چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ ڈٹ کر کھڑے ہو گئے۔ اور اپنا مقدمہ عوامی عدالت میں پیش کر دیا۔ تو قادری سمیت اپوزیشن کی چالیس پارٹیوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی گئی  جو ناکام ہو گئی ۔ حلقہ 120 میں بیالیس امیدواروں اور لبیک والوں کو الیکشن لڑانے کا تجربہ کیا گیا تاکہ ن لیگ کے ووٹ توڑے جا سکیں۔ یہ تجربہ 120 میں ناکام ہوا۔ چکوال اور لودھراں میں ناکام ہوا۔ تو سرگودھا میں ون آن ون کا تجربہ کیا گیا۔ تاکہ نواز مخالف تمام ووٹ تحریک انصاف کو مل سکیں۔ یہ تجربہ بھی ناکام  ہو گیا۔
سینٹ میں اکثریت حاصل کرنے سے روکنے کے لیے بلوچستان حکومت تبدیل کی گئی ۔ ججوں کے ذریعے مسلم لیگ ن کے سینٹ امیدوار آزاد کیے گئے۔ نواز شریف کی صدارت ختم کی گئی ۔ شیر اور پارٹی کا نام ختم کیا گیا۔ سینٹ الیکشن میں دھاندلی کروائی گئی ۔ لیکن یہ تمام کوششیں اور تجربے ناکام ہو گئے۔ آج مسلم لیگ ن قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اکثریتی پارٹی  ہے۔ اب چئیرمین سینٹ کے الیکشن کے لیے منصوبہ بندی جاری  ہے۔ شائد نوازشریف کے سیاست میں حصہ لینے پر پابندی لگا دی جائے شائد انہیں جیل میں ڈال دیا جائے ۔ شائد الیکشن ملتوی کرکے کیئر ٹیکر سیٹ اپ لایا جائے اور شاید   پارلیمنٹ اور مخلوط حکومت بنانے کی پلاننگ کی جائے۔ لیکن وقت اور زمینی حقائق اسٹیبلشمنٹ کے خلاف چل رہے ۔ سول سپریمیسی اور ووٹ کی حرمت کا بیانیہ مقبول ہو رہا۔ نواز شریف اور مسلم لیگ ن کو سیاست اور الیکشن سے آوٹ کرنے کے تمام منصوبے ناکام ہو چکے۔ جو منصوبے بن رہے۔ ناکامی ان کا مقدر  ہے۔ الیکشن آج ہوں یا کل ہوں۔ ہونے ضرور ہیں۔ جو طاقتیں ایک حلقہ مینیج نہیں کر سکتیں۔ پورا الیکشن کیسے مینیج کریں گی۔ بہتر  ہے  عوامی رائے کو آزادانہ کام کرنے دیا جائے۔ یہ جسے چاہے  اپنا حکمران چن لے۔ سول سپریمیسی کے سامنے ایک دن سر جھکانا پڑے گا۔ یہ مورچے میں آخری لڑائی چل رہی  ہے۔ بہتر  ہے سیاستدانوں سے مل بیٹھ کر کسی میگنا کارٹا پر دستخط کر لیں۔ اور اپنے اسٹیکس کو محفوظ بنانے کی کوئی قانونی اور آئینی راہ نکالیں۔ اسی میں ملک و قوم کی بقا اور سلامتی  ہے۔ آخر کب تک اپنے لوگوں سے لڑائی ہو گی۔

Facebook Comments

طارق احمد
طارق احمد ماہر تعلیم اور سینیئر کالم نویس ہیں۔ آپ آجکل برطانیہ میں مقیم ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply