مولوی سرخے: موہانی و بھاشانی/رشید یوسفزئی

وہ الگ زمانہ تھا جب مولوی بھی سُرخے ہوا کرتے تھے اور بائیں بازو  سے تعلق رکھنا، اشتراکی اقدار کا چیمپئن ہونا علما  کیلئے بھی قابل ِ فخر ہوتا تھا۔ تب سرخا ہونا گالی نہ تھی۔ اشتراکی ہونا معیوب نہ تھا، بلکہ قابل ِرشک و مستحسن صفات تھیں ۔ دوسرے سیاسی و سماجی تنظیموں اور تحریکوں کی  طرح بائیں بازو کی  جدوجہد کی قیادت میں بھی علما  سر فہرست ہُوا کرتے تھے۔  مولانا عبدالرحیم پوپلزئی، کسی حد تک مولانا عبیداللہ سندھی ، مولانا حسرت موہانی اور مولانا عبدالحمید بھاشانی جید مذہبی عالم بھی تھے، سیاسی لیڈر بھی اور اشتراکی بھی ۔ اکثر لیفٹسٹوں کے برعکس ان اشتراکی علما  کی سادہ و پر وقار طرز زندگی، قلندرانہ بود وباش، ان کے قول و فعل اور نظریہ و عمل میں ہم آہنگی۔۔ ان کے سچائی و خلوص کے منہ بولتے ثبوت تھے۔

مولانا حسرت موہانی۔۔۔ زبان پہ بار ِخدایا کسی کا نام آیا، خوبصورت رومانی لب ولہجے کے شاعر مولانا حسرت موہانی  نہایت بھدی   شکل کے مالک تھے، جس کی تلافی قدرت نے دوسری  بہتر شکلوں میں کی تھی، انتہائی نفیس شخصیت رکھتے تھے۔۔ خوش لباسی کیساتھ تخلیقی  ملکہ ، ذہانت و حاضر جوابی میں بے مثال تھے۔  عام رائے اور عوامی توقعات کے  مکمل برعکس ہر بات کہنے کی جرات رکھتے اور جو دل میں آتا سٹیج و منبر پر بے نیازانہ بولتے تھے۔۔ آج کی نشست میں مولانا سے وابستہ چند واقعات قارئین کی  نذر۔

ڈیورنڈ لائن سے نیپال و برما تک انڈین نیشنل کانگریس کے صدر منتخب ہوئے۔  جہاں جلسہ اجلاس ہوتا  ایک بوریا بستر، ایک چھتری لے کر جاتے،ریل میں تھرڈ کلاس سفر کرکے اُترتے تو ایک دنیا استقبال کیلئے ریلوے اسٹیشن پر موجود ہوتی ۔ لوگ ایک دوسرے کو دھکے دیتے کہ مولانا کے بستر اور چھتری تبرکا اٹھانے اور ان کے جائے قیام  تک پہنچانے میں دوسروں سے نمبر لیں۔  مولانا کب کسی کو قلی بننے دیتے ۔۔ کہتے پرے ہٹو،یہیں عزت و تقدس انسانی غلامی کا  باعث بنا  ہے۔ میں انسانی مساوات پر ایمان رکھتا ہوں، آپ اور میں برابر ۔ ۔ میں نے اپنا سامان خود لے جانا ہے ۔

خوفناک ہندو مسلم فسادات جاری تھے۔  ایک ہندو اکثریتی علاقے میں مولانا سڑک کے کنارے جائے نماز بچھائے نماز پڑھ رہے تھے، سابق صدر آل انڈیا کانگریس، پارلیمنٹ ممبر تھے۔ لیڈری، شہرت، شاعری، مقبولیت عروج پر تھے،  اور ارد گرد کے حالات میں دہشت پھیلانے والوں کیلئے سب سے زبردست ٹارگٹ۔  مقامی حکام نے بہت سمجھایا کہ اردگرد ہزاروں لاشیں پڑی  ہیں، لوگ مر رہے ہیں، زندہ جلائے جا رہے ہیں، ایسے میں یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ مولانا کسی کی  مانتے کب تھے۔۔۔ نماز جاری رکھی، حکام سے کچھ نہ بن پڑا تو وزیراعظم نہرو کو فون کیا کہ مولانا ممبر قومی اسمبلی بھی تھے اور نہرو کے ساتھی بھی ۔ وزیراعظم کو ریکوئسٹ کی کہ مولانا آپ کے دوست ہیں ان کو سمجھائیں۔ ۔ نہرو نے مولانا کی حفاظت یقینی بنانے کیلئے تاکید کی۔ فوراً  پولیس کے سپیشل دستے بھیج دیے کہ مولانا کے اردگرد حصار بنائیں تاکہ انہیں کوئی نقصان نہ پہنچائے اور جب نماز سے فارغ ہوں  تو گھر تک سکیورٹی دیں۔

مولانا نماز سے فارغ ہوئے تو آرام سے گھر کی راہ لی ۔ ساتھ جاتے ہوئے پولیس والوں میں کسی نے سوال کیا مولانا آپ پاکستان کیوں منتقل نہیں ہوتے؟

جواب دیا پاکستان جاکر کوئی مسلمان، کافر بنائے اور قتل کرے اس سے بہتر ہے ہندوستان میں مسلمان بنوں۔

مولانا نظریات کے پکے سوشلسٹ تھے۔۔۔۔” انقلاب زندہ باد” کا نعرہ ان کی تخلیق ہے۔  دیگر چند شخصیات کے ساتھ کمیونسٹ پارٹی کے بانی تھے۔ سجاد حسن ظہیر نے اپنی کتاب “روشنائی” میں لکھا ہے کہ ترقی پسند تخلیق کاروں کی  ایک کانفرنس میں مولانا کو دعوت تھی۔ تانگے میں کانفرنس ہال تشریف لائے ۔ سجاد ظہیر لاؤڈ اسپیکر پر بائیں بازو  کے آئیڈیلز پر تقریر کر رہے تھے ۔ مساوی تقسیم رزق، سماجی و سیاسی برابری، مساوات وغیرہ وغیرہ ۔ مولانا سے رہا نہ گیا۔۔۔ اُٹھے،  سجاد ظہیر کے ہاتھ سے مائیک کھینچا  اور بولے کیوں منافقت کر   رہے ہو؟ الفاظ کے ہیر پھیر سے کیا مطلب۔۔۔ سیدھے اور واضح الفاظ میں کہو “ہم سوشلزم چاہتے ہیں۔”

گاندھی اپنی ذات میں پورا  انڈیا تھے۔ ایک دنیا ان کے سامنے اٹھتی بیٹھتی تھی، انڈیا سے امریکہ تک ہر ذات اور رنگ و نسل کے لوگ، مرد عورتیں خود کو گاندھی کے چیلے کہہ کر فخر محسوس  کرتے تھے ۔ مولانا مرد قلندر تھے، گاندھی کو کب خاطر میں لاتے۔ کہتے تھے اہمسا اور عدم تشدد کہاں کا فلسفہ ہے؟ یہ اپنی اقتدار بچانے کیلئے انگریز سازشی، سامراجی ذہن کی اختراع ہے  اور گاندھی انگریز ایجنٹ۔۔۔ لہذا قسم کھائی تھی کہ کبھی گاندھی سے ہاتھ نہیں ملائیں گے ۔ گاندھی محفل و مجلس میں آتے تو مولانا ہاتھ کھینچتے، گاندھی جی سٹپٹا جاتے،لوگ حیران ہوتے۔ ۔ لیکن مرد قلندر مولانا کب سوشل مجبوریوں  پر  توجہ دیتے۔ اس کے باوجود آل انڈیا کانگریس کے صدر منتخب ہوئے۔

بطور ممبر انڈین نیشنل اسمبلی مولانا صرف ایک معاوضہ لیتے: عام تانگے میں آنے کی دو آنے کرایہ۔ کہتے تھے اسمبلی آنے جانے کیلئے تانگے کا کرایہ اتنا ہی ہے۔  تھرڈ کلاس میں سفر کرتے تھے۔ ایک بار کسی نے پوچھا مولانا تھرڈ کلاس میں  کیوں سفر کرتے ہیں؟ ” جواب دیا” کیونکہ فورتھ کلاس ہے ہی نہیں! بطور پارلیمنٹیرین تمام سہولیات و مراعات کو مسترد کیا۔ ۔ کہتے تھے میں اشتراکی ہوں۔  اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ سہولیات ومراعات اکھٹے نہیں چل سکتیں ۔

بھارت میں اگر کامریڈ مولانا موہانی تھے تو مغربی و مشرقی پاکستان میں کامریڈ مولانا بھاشانی جس کی کُل کائنات   ایک کُرتا، ایک دھوتی اور سر پر دلدلی گھاس سے بنی ہوئی ٹوپی۔ ۔ نہ کوٹھی، نہ بینک بیلنس، نہ   گاڑی۔  مگر جس دن سندھ یا پنجاب کے  کسی شہر میں ان کا جلسہ ہوتا تو وزیراعظم پاکستان اس دن کراچی و لاہور میں اپنے جلسے کینسل کردیتے ۔ کہتے عوام مولانا بھاشانی کے جلسے میں مشغول ہوں گے۔

اس نے کبھی پرائے بچے جہاد کیلئے نہیں بھیجے، کبھی لوگوں کو استنجا کے مسائل نہیں سکھائے، کبھی ستر حوروں او ر جنت کی شراب کی بات نہیں  کی، کبھی ناموسِ  رسالت و ناموسِ  صحابہ و اہلبیت کی بحث نہ چھیڑی، کبھی احمدیوں کے  قتل و تکفیر کیلئے مذہبی لوفروں کو نہیں اُکسایا۔  بات کرتے تو عوام پر لگے ٹیکسوں کی، چارسدہ مردان کے ٹوبیکو سیس کی، اوکاڑہ کے چاول کے ریٹس کی، پنجاب کے  آڑھتی کی کاشت کار سے زیادتی کی ، کبھی تحفظ اسلام اور دیوبند کانفرنس نہیں کی۔ ۔ جب بھی جلوس نکالا  تو کراچی کے مزدوروں کے  حق کیلئے، پنجاب و سرحد کے  کاشتکاروں کیلئے ۔ مولانا عبدالحمید خان بھاشانی عوام کے لیڈر تھے۔ ان  کے دل میں خلق خدا کا درد تھا، انہیں  عوام کے حقیقی مسائل کا ادارک تھا۔

ایک ضلع سے دوسرے ضلع کے کسانوں کے جلسے کیلئے پیدل چلتے۔ راستے میں کسی کسان کے گھر کے سامنے مٹی کے چبوترے یا گھاس کے  چھپڑ  کے نیچے زمین پر بیٹھ کر سوکھی روٹی کھاتے، گھڑے کا پانی پیتے اور گاؤں کے گاؤں اپنے عاشق و گرویدہ چھوڑتے ۔ عوام کے آدمی تھے، عوام میں خوش تھے ۔ سندھ کے  دیہات میں غریب کاشتکاروں کے ساتھ رات گزاری، کھانے کو کچھ نہ ملا۔ ۔ ایک وڈیرہ پہنچا کہا مولانا میرے گھر تشریف لائیں اتنے بڑے لیڈر کیلئے اُدھر خاک پر بیٹھنا مناسب نہیں۔۔  جواب دیا : خاکساروں کو خاک پر رہنے دو ۔

کارل مارکس و لینن کے فلسفے عوامی زبان میں عوام کو سمجھاتے۔  ٹوبہ ٹیک سنگھ تشریف لائے تھے۔ زمین پر تشریف فرما تھے۔ اردگرد سینکڑوں کسان جمع تھے۔ لیڈر کو اپنے ساتھ زمین پر دیکھ کر غریبوں کی آنکھوں میں ایک گونہ احساس فخر اور خود اعتمادی چھلک رہی تھی ۔ ایک اَن پڑھ دیہاتی نے پوچھا:” مولانا یہ زمین اور جاگیر کیوں ہمارے تمام مسائل کی جڑ ہے؟” دھیمے انداز میں جواب دیا، “جیب ہو تو جیب کترے ضرور ہوں گے۔”

ذاتی ملکیت کا  ساری فلسفہ سات آٹھ الفاظ میں۔۔۔  عوامی زبان میں  اسے کہتے ہیں کلم الناس علی قدرعقولہم۔۔۔ یہ عوام کا لیڈر ہوتا ہے۔  یہ ہے انقلاب کیلئے ذہن سازی اور عوامی تربیت کا  عام فہم اسلوب: یہ اسلوب اشتراکی عالم مولانا عبدالرحیم پوپلزئ، جی ایم سید، عبدالغفار خان، معراج محمد خان اور مولانا بھاشانی کیساتھ مر گیا ۔ کبھی ہمارے علما  کامریڈ ہوا کرتے تھے۔ کبھی ہمارے مولوی اتنے عوام پرست ہوتے ، کبھی ہمارے مولوی عالم ہوا کرتے،کبھی ہمارے اتنے عوامی بندے اور اتنے وسیع القلب ہوتے تھے،کبھی ہمارے لیڈر اتنے عظیم ہوتے تھے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج اذیت ناک قحط الرجالی کے اس دور کا رونا روتے ہوئے پیر و مرشد ڈاکٹر صولت ناگی سے دریافت کیا :” سر، کبھی ہماری خاک سے بھی کوئی لینن، چی گویرا یا ماؤ جیسا ژرف نگاہ اور بصیرت مند لیڈر اٹھا ہے؟” استاد ناگی نے جواب دیا “بالکل، ہمارے بھگت سنگھ اور بھاشانی کسی سے کم نہیں تھے۔  بس قدر شناس نہیں ملے، قصور ہمارا ہے، ورنہ بیس پچیس سال کی عمر میں بھگت سنگھ کی جو فکری گہرائی ہے وہ اس عمر میں انسانی تاریخ کے کسی دوسرے لیڈر کو کم ہی نصیب ہوئی ہوگی۔دو نیم دہائی والے عمر کا یہ انقلابی فلسفی انٹونیو گرامچی اور اڈرنو کا فکری ہمسر تھا۔  مگر آپ نے کہیں بھگت سنگھ کا مجسمہ دیکھا؟ نام نہاد آزادی کے بعد پنجاب میں کوئی چوراہا، کوئی راستہ کبھی بھگت سنگھ شہید کے نام سے منسوب ہوا؟ “۔  ہمارے عالم، ہمارے سکالر و لیڈرز، ہمارے اسلاف، ہمارے ہیروز، بھگت سنگھ اور بھاشانی تھے۔  ہمارے آج کے لیڈرز و سکالرز  مذہبی و سیاسی مسخرے، پلے بوائے، عالم صاحب، سمارٹ صاحب  !بخدا کیا تھے اور کیا ہوگئے!

Facebook Comments

رشید یوسفزئی
عربی، فارسی، انگریزی ، فرنچ زبان و ادب سے واقفیت رکھنے والے پشتون انٹلکچول اور نقاد رشید یوسفزئی کم عمری سے مختلف اخبارات، رسائل و جرائد میں مذہب، تاریخ، فلسفہ ، ادب و سماجیات پر لکھتے آئے ہیں۔ حفظِ قرآن و درس نظامی کے ساتھ انگریزی اور فرنچ زبان و ادب کے باقاعدہ طالب علم رہے ہیں۔ اپنی وسعتِ مطالعہ اور بے باک اندازِ تحریر کی وجہ سے سوشل میڈیا ، دنیائے درس و تدریس اور خصوصا ًاکیڈیمیا کے پشتون طلباء میں بے مثال مقبولیت رکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply