کتاب ایک بہترین دوست

کتابیں آپ کی بہترین دوست ہیں۔آپ ان سے بہت کچھ سیکھتے ہو ۔اور یہ آپ کو بہت کچھ سکھاتی بھی ہیں۔میں نے ہمیشہ کتاب کو بہترین دوست مانا اور سمجھا ۔دنیا نہ جانے کس کس چیز کی رسیا ہے ۔اور اک ہم تھے جو کتاب کے رسیا تھے۔جب ہمارے کانوں تک یہ خبر پہنچتی کہ مارکیٹ میں نئی شاعری کی کتاب آئی ہے ۔یا کوئی ناول چھپا ہے ۔تو پھر میری شکل دیدنی ہوتی تھی۔میں دوستوں سے ادھار لیکر کتابیں خریدتا تھا۔اور میرے پاس اردو ادب کی بڑی بڑی کتابیں موجود تھی۔اس وقت میری سوچ بھی کافی بچکانہ تھی مجھے اکثر کتابیں سمجھ ہی نہیں آتی تھی ۔مثلا: اردو ادب کا سب سے بڑا ناول جو میں بہت شوق سے خرید لایا تھا دوستوں کو دکھانے کے لیئے ۔جس کا نام تھا علی پور کا ایلی۔آج تک مجھے یاد ہے۔کتاب خریدنے سے لیکر اور ابتک 15سال کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن میں اس کتاب کے صرف سات صفحات پڑھ آیا ہوں۔اس کے علاوہ ایک اور کتاب تھی۔شہاب نامہ۔جو سیاست سے تقریبا تعلق رکھتی تھی۔اسے بھی میں پوری طرح نہیں پڑھ پایا۔کلیات اقبال تھی۔جو سر کے اوپر سے گزرتی تھی اس کی شاعری۔پروین شکر کی ماہ تمام۔منٹو کے کھٹے میٹھے افسانے۔غلام محی الدین کے ناول۔ساحر لدھیانوی کی شاعری۔پطرس بخاری کے مضامین۔ایسا محسوس ہوتا تھا یہ تمام کتابیں میری دوست ہیں۔ان دوست نماء کتابوں سے میں نے ایک نتیجہ ضرور اخذ کیا۔اور وہ ہے آپ کے اخلاق اور آپ کے آداب ۔حالآنکہ ان کتابوں نے مجھے کافی حساس بھی پیدا کیا ہے۔میں زندگی کے تمام معاملات میں بڑا حساس واقع ہوا ہوں۔لیکن اس سے ہٹ کر جو میں نے دیکھا وہ لوگوں کے کام آنا ۔سچ بتائو تو کتابیں پڑھنے کے معاملے میں کافی کمزور تھا۔لیکن جب بھی دستیاب ہوتا کتابوں کی محفل سے دستیاب ہوتا۔اگر یوں کہا جائے کہ میرا کل سرمایہ میری کتابیں تھی تو بیجاء نہ ہوگا۔دوستی کا یہ سفر آخر ایک دن پھر اپنے اختتام کو پہنچا جب یہ روح افساں خبر میرے کانوں تک پہنچی کہ کتابوں کی سوتن لانی ہے ۔تو مجھے تھوڑی دیر کےلیئے عجیب عجیب سا محسوس ہوا ۔ایسا لگا جیسے ذائقہ تبدیل ہونے والا ہے۔چہرے سے خوشی عیاں تو تھی۔لیکن کتابوں کی فکر کھائے جارہی تھی۔سنا تھا بڑے بوڑھوں سے کہ۔یہ جوان لڑکیاں بھوتنیاں ہوتی ہیں۔ان سے ذرا دور رہا کرو۔سوچنے لگا تھا ۔پہلے کہتے تھے۔دور رہا کرو۔اور اب قریب کیا جارہا ہے۔بات راز میں تھی وہ بھی صیغہ والے۔زیادہ پریشانی کتابوں کے حوالے سے تھی۔کیونکہ مجھے رہ رہ کر ایک واقعہ یاد آرہا تھا۔جب سے بندھن میں بندھنے کا سنا تھا۔میرے ایک بہت ہی قریبی دوست مجھ سے پڑھنے کے لیئے ایک کتاب لے گئے۔یہ مستنصرحسین تارڑکی کتاب ؛ گزارا نہیں ہوتا ؛ نام ؛مستنصر کے لیئے پیشگی معذرت ؛یہ نام آج تک میں سہی طریقے سے لکھ نہیں پایا۔جو مزاح بر مبنی کتاب تھی پڑھنے کے لیئے لے گیا۔جب کچھ عرصے بعد کتاب واپسی ہوئی تو اس میں سے کچھ صفحات غائب تھے۔پوچھنے پر پتا پڑا زوجہ محترمہ کو شکن سیر ہونا تھا قریب کوئی شے دستیاب نہ ہونے کے سبب کتاب پر ہی اکتفاء کیا گیا۔لہذا یہ سوچ سوچ کر میرا حلق خشک ہوا جاتا ہے۔خوشی اور غمی کا یہ ملا جلا ردعمل میرے لیئے کسی نا گہانی آفت سے کم نہ تھا۔لیکن مرتا کیا نہ کرتا۔آخر اس نتیجے پر پہنچے کہ اس معرکہ سے بھی نبرد آزماء ہوجائیں۔اور آخر وہ دن بھی قریب آگیا ۔جب کتابوں کے ساتھ ایک ضخیم اور لحیم شحیم کتاب موجود تھی۔اس کتاب کی جلد اور ساخت سے پتا لگتا تھا کہ یہ کتاب بہت مضبوط ہے۔اور زیادہ عرصے چلے گی۔اس کتاب کو پڑھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ۔اس سے زیادہ لطیف اس سے زیادہ خوبصورت۔اس سے زیادہ مسحورکن اور دل کو لبھا دینے ولی کوئی کتاب نہیں۔اسے پڑھتے جائو اور سر دھنتے جائو۔یہ ایک نہ ختم ہونے والی کتاب ہے۔اس کا ہر صفحہ خوشبو سے مزین ہے۔اس کتاب کو پڑھنے کے لیئے تجربہ کار دوستوں سے رابطہ ضروری ہے۔ورنہ تلفظ کی درستگیاں ہی دور کرتے رہ جاو گے۔اس کتاب کو گھر پر لانے سے پہلے تمام کاغذی کتابوں کو ٹھکانے لگانا پڑےگا ۔ورنہ ۔۔۔
عبدالروف خٹک

Facebook Comments

Khatak
مجھے لوگوں کو اپنی تعلیم سے متاثر نہیں کرنا بلکہ اپنے اخلاق اور اپنے روشن افکار سے لوگوں کے دل میں گھر کرنا ہے ۔یہ ہے سب سے بڑی خدمت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply