چیف جسٹس پاکستان نے احد چیمہ کی گرفتاری پر افسران کو احتجاج سے روک دیا جب کہ پنجاب اسمبلی میں نیب کے خلاف قرارداد پر بھی برہمی کا اظہار کیا ہے۔ نیب نے 21 فروری کو کارروائی کرتے ہوئے لاہور ڈویلمپنٹ اتھارٹی کے سابق ڈائریکٹر جنرل احد چیمہ کو آشیانہ اقبال ہائوسنگ سوسائٹی کی 32 کنال اراضی غیر قانونی طور پر الاٹ کرنے اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات پر گرفتار کیا ۔ احد چیمہ کی گرفتاری پر پنجاب حکومت اور بیورو کریسی نے سخت رد عمل کا اظہار کیا جب کہ بیورو کریسی کی جانب سے قلم چھوڑ ہڑتال کی بھی دھمکی دی گئی۔ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں سابق ڈی جی ایل ڈی اے احد چیمہ کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جسے استعفیٰ دینا ہے وہ دے دے اور جسے بلایا جائے، وہ تعاون کرے۔ چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ یہ احد چیمہ کون ہیں اور آج کل کہاں ہے؟ اس پر ڈی جی ایل ڈی اے نے جواب دیا کہ احد چیمہ قائداعظم پاور پلانٹ کے سی ای او ہیں اور نیب کی حراست میں ہیں۔ جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ گریڈ 19 کی کیا تنخواہ ہے اور احدچیمہ کتنے لیتے تھے؟ چیف سیکریٹری صاحب بتائیں، احدچیمہ کتنی تنخواہ اور مراعات لیتے ہیں؟ چیف سیکریٹری نے عدالت کو بتایا کہ ڈی ایم جی افسران ایک لاکھ تنخواہ لیتے ہیں اور احد چیمہ 15 لاکھ روپے کے قریب تنخواہ لے رہے تھے۔ عدالت نے احد چیمہ کا سروس پروفائل اور تنخواہوں اور مراعات کا تمام ریکارڈ طلب کرلیا۔ ۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اپنے سیاسی باسز کو کہہ دیں کہ پھر سپریم کورٹ کے خلاف بھی قرارداد منظور کرا لیں، کیا سپریم کورٹ بلائے تو اس کے خلاف قرارداد منظور کرلی جائے گی۔، نیب کو کوئی بھی ہراساں نہیں کرے گا اور نیب کو واضح کردینا چاہتا ہوں کہ کسی کو ہراساں نہ کرے، اگر نیب کسی کو طلب کرے تو وہ پیش ہو۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں