کیا آپ بھی سینیٹر بننا چاہتے ہیں؟ ۔۔آصف محمود

ابھی کل شام برادرم اخونزادہ چٹان نے انگلیوں پر گن گن کر حساب کیا کہ اس وقت کے پی کے میں ایک ووٹ کا ریٹ کتنا ہے اور فاٹا کے ووٹ کی بولی کیا لگی ہے۔ان کا کہنا تھا: کے پی کے سے ایک سینیٹر بننے کی کل لاگت ستاون کروڑ ہے اور فاٹا سے پینتالیس کروڑ۔

جماعت اسلامی کی رکن قومی اسمبلی عائشہ سید کی بھی سن لیجیے۔ کل میں نے ان سے پوچھا: کیا واقعی سینیٹ کے انتخابات میں پیسہ چلتا ہے؟ عائشہ سید کہتی ہیں:’’ آصف بھائی ایک روز میں مسجد نبوی میں بیٹھی تھیں ۔ایک خاتون میرے پاس آئیں اور پوچھا آپ عائشہ سید ہیں جو ایم این اے ہیں؟ میں نے کہا جی بہن میں عائشہ ہوں۔خاتون نے بتایا کہ ان کے شوہر نے بھی ایم این اے بننے کی بڑی کوشش کی لیکن اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔ وہ ایک بڑی کاروباری شخصیت کی بیوی تھیں۔انہوں نے کہا کہ پھر ان کے شوہر نے اپنے کاروبارکا ایک بڑا حصہ بیچ دیا اور بہت بھاری رقم خرچ کر کے بیٹے کو سینیٹر بنا دیا۔ عائشہ سید کی بات سن کر مجھ پر یقین کیجیے سکتہ سا طاری ہو گیا۔کیا مسجد نبوی ﷺ کے صحن میں بیٹھ کر بھی ایسی باتیں کوئی بیان کر سکتا ہے۔پھر ایک خیال سا آ یا کہ شائد آقا ﷺ کے دربار میں اس خاتون کو اپنے خاندان کی غلطی کا احساس ہو گیا ہو اور وہ ندامت کے طور پر عائشہ سید سے یہ باتیں شیئر کر کے دل کا بوجھ ہلکا کر رہی ہوں۔میں نے کہا عائشہ بہن یہ بتائیے جب وہ خاتون آپ سے بات کر رہی تھیں تو کیا انہیں احساس ندامت تھا؟ عائشہ کہنے لگیں’’ ہر گز کوئی احساس ندامت نہیں تھا بلکہ وہ تو فخر سے بتا رہی تھیں کہ ان کا بیٹا بہت قابل نکلا اور باپ نے جتنی رقم اسے سینیٹر بنانے پر خرچ کی اس نے پہلے ہی سال اس سے تین گنا رقم کما کر ہمارے حوالے کر دی‘‘۔

ساتھ ہی اسلام آباد کی معروف کاروباری شخصیت خواجہ سعد بیٹھے تھے۔ انہوں نے کہا سنی سنائی باتوں کو ایک طرف رکھ دیجیے لیکن ایک ڈیل کا تو میں عینی شاہد ہوں۔ گزشتہ انتخابات میں ایک صاحب نے ایک سیاسی جماعت کے قائد کو پچیس کروڑ پیش کیے اور سینیٹ کا ٹکٹ لیا۔یعنی وہ صاحب پچیس کروڑ میں صادق اور امین بن گئے اور جب صادق اور امین بن گئے تو انہیں وزیر بھی بنا دیا گیا تاکہ وہ ٹھونک بجا کر قوم کی خدمت کر سکیں۔

اخونزادہ چٹان کہنے لگے ، آصف بھائی ہر سیٹ پر بولی نہیں لگتی۔ بہت کم سیٹوں پر بولی لگتی ہے۔جماعتیں جب کسی کو ٹکٹ دے دیتی ہیں تو اس جماعت کے لوگ انہیں ہی ووٹ دیتے ہیں۔ یہاں پیسہ نہیں چلتا ۔البتہ کچھ آزاد امیدواروں کا معاملہ الگ ہے اور فاٹا سے بھی ایسی خبریں آتی ہیں۔میں نے کہا چٹان صاحب آپ کی بات مان لیتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں جب کسی کو اپنا ٹکٹ دے دیتی ہیں تو وہاں پیسہ نہیں چلتا لیکن یہ بھی بتا دیں کہ سیاسی جماعتوں کے قائدین جب ٹکٹ جاری کرتے ہیں تو کیا وہاں بھی پیسے کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا؟چٹان نے کہا صرف اتنا بتا سکتا ہوں جس کا مجھے ذاتی طور پر علم ہے۔اس دفعہ ایک سیاسی رہنما نے سینیٹ کا ٹکٹ 42 کروڑ روپے لے کر جاری کیا ہے۔ یاد آیا کہ چند سال پہلے خود اخونزادہ چٹان جب ایم این اے تھے ، ان کا ووٹ بھی خریدنے کی کوشش کی گئی تھی ۔پھر انہوں نے کسی کو ووٹ ہی نہیں ڈالا۔ میں نے پوچھا آپ کو کتنی آفر کی گئی تھی؟ کہنے لگے : صرف آفر نہیں کی تھی پارٹیاں کیش ساتھ لے کر پارلیمنٹ لاجز پہنچ گئی تھیں۔ایک پارٹی پندرہ کروڑ لائی تھی اور دوسری پچیس کروڑ۔لیکن مجھے جناب آصف زرداری کا فون آ گیا کہ کسی کو بھی ووٹ نہیں دینا۔یہ سوال اب میں چاہتے ہوئے بھی اخونزادہ چٹان سے نہ پوچھ سکا کہ زرداری صاحب کا یہ فون کیا صرف ’’ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد‘‘ میں آیا تھا یا اس کی بھی کوئی شان نزول تھی؟آداب میزبانی بھی آ خر کوئی چیز ہوتی ہے۔

ماضی میں تو شاہد اورکزئی صاحب عدالت چلے گئے تھے کہ میں نے میاں نواز شریف کے کہنے پر سینیٹ الیکشن میں اتنے ووٹوں کا بندوبست کیا لیکن میاں صاحب اب پوری رقم ادا نہیں کر رہے۔وہ 1993 کے انتخابات میں نواز شریف کے میڈیا کنسلٹنٹ تھے۔انہوں نے فاٹا کے ووٹ میاں صاحب کے لیے خریدے تھے۔لیکن ساری ڈیل زبانی تھی۔ بعد میں میاں صاحب نے ساری رقم دینے سے انکار کر دیا اور شاہد اورکزئی عدالت چلے گئے اور وہاں سب کچھ بتا دیا کہ ڈیل ایک کروڑ پچھتر لاکھ کی ہوئی تھی مگر اب میاں صاحب ستر لاکھ دبا کر بیٹھ گئے ہیں۔نواز شریف صاحب اب نظریاتی سیاست دان ہیں۔

موجودہ انتخابات کا حال بھی ہمارے سامنے ہے ۔سراج الحق اور عمران خان بھی سینیٹ الیکشن میں پیسے کے استعمال پر احتجاج کر رہے ہیں۔ اس سارے عمل میں الیکشن کمیشن کہاں ہے؟الیکشن کمیشن اگر اس عمل کو روک نہیں سکتا تو ایک اور کام کر دے۔ آئین میں صادق اور امین نے بات تو کی گئی ہے لیکن اس کی تشریح نہیں کی گئی کہ صادق اور امین کون ہوتا ہے۔الیکشن کمیشن چاہے تو یہ ابہام دور کر سکتا ہے۔وہ ایک اعلامیہ جاری کر دے کہ صرف وہ آدمی صادق اور امین تصور ہو گا جو الیکشن پر چالیس پچاس کروڑ خرچ کرنے کی استطاعت رکھتا ہو گا۔

اب سوال یہ ہے کہ ایک عام آدمی کا اس سیاسی عمل سے کتنا تعلق ہے؟ایک عام آدمی جو ایم پی اے کا الیکشن لڑ سکتا ہے نہ ایم این اے کا۔وہ اپنی ساری جائیداد کے ساتھ ساتھ گردے ، پھیپھڑے اور جسم کا ایک ایک عضو بھی بیچ دے تب بھی اس قابل نہیں کہ الیکشن میں حصہ لے سکے۔وہ بے چارہ کسی ضلع کونسل کا چیئر میں یا کسی شہر کا میئر بھی نہیں بن سکتا۔اس نظام سیاست میں اس کا کردار صرف اتنا ہے کہ کسی ایک کے حصے کا سستا ترین بے وقوف بن کر سوشل میڈیا پر اپنے اپنے آقاؤں کی مدح سرائی کرتا رہے ، ان کی خاطر دوسروں سے الجھتا رہے ، گالیاں بکتا رہے اور اپنے سماجی تعلقات خراب کر لے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جو جس کے حصے کا بے وقوف ہے وہ اس کے ڈھول کی طرح بجتا رہے۔ میں کون سا حبیب جالب ہوں کہ چیخ اٹھوں:
دس کروڑ انسانو!
زندگی سے بے گانو!
صرف چند لوگوں نے
حق تمہارا چھینا ہے
خاک ایسے جینے پر
یہ بھی کوئی جینا ہے
کاش تم کبھی سمجھو
کاش تم کبھی جانو
دس کروڑ انسانو!‘‘

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply