آزادی کشمیر در اصل معرکہ حق و باطل ہے

اگر آپ کے وہم و گما ن میں کہیں ایسا عجیب و درد ناک منظر گزرا ہو جہاں ’’جنت سفید برفیلے لبا س میں ملبوس ہو اور اس برفیلی چادرکے نیچے سے آپ کو زندہ لوگوں کی چیخ و پکار سنائی دے یا جہاں جھرنے اور آبشار بجائے پانی کے خون سے زمین کو سیراب کر رہے ہوں یا جہاں ماؤں کے چہروں پر تبسم تو ہو لیکن دل میں شب کی سیاہی کا سماں ہو یا جہاں آپ کو عید کے دن بچوں کی ہنسی خوشی کے بدلے واویلا اور ماتم دیکھنے کو ملے یا جہاں رات کو بھائی خوشی سے بہن کے ہاتھ پیلے کرے اور اگلے دن بہن اسی بھائی کی لاش دیکھ کر سن ہو گئی ہو تو آپ کو یقین کر لینا چاہیے کہ جس جنت نما جہنم کا منظر آپ کی نگاہوں کے سامنے ہے ،اسے ٖکرہ ارض پر مقبوضہ کشمیر کے نام سے جانا جاتا ہے۔
کشمیر پر ہندوستان کا جبری قبضہ اور آئے دن بے تحاشا قتل و غارت گری کی مثال ایسی ہی ہے جیسے’’ آفتاب آمد دلیل آفتاب‘‘ یا یوں کہوں کہ کشمیر اس مصرعے کا صحیح مصداق ہے تو غلط نہ ہوگا۔کشمیر کا نام آئے اور ہندوستان کے ظلم و جبر کا ذکر نہ ہو ایسا کیسے ممکن ہے۔ جو لوگ جان بوجھ کر ہندوستان کی پردہ پوشی کرتے ہیں تو وہ سن لیں میاں یہ عمر نہیں ہے فریب کھانے کی ۔کشمیری اگر اپنا سینہ پیٹ رہے ہیں تو حق بجانب ہیں ۔یہاں ہندوستان نے جس بربریت کا مظاہرہ کیا ہے ،اس کا تذکرہ کرتے ہوئے روح کانپ اٹھتی ہے ۔شاید ہی کشمیر میں ایسا گھر بچا ہو جہاں ظلم کا کوہ ہمالیہ نہ ٹوٹا ہو ۔ہر گھر میں آپ کو مرثیہ خواں ملیں گے۔ہندوستان کا ظلم یہاں کے لوگوں کے رگ و پے میں ایسے سرائیت کر گیا ہے جیسے گنگا جمنا تہذیب بر اعظم میں۔حتیٰ کہ اگر مردوں میں جان پھونکنے کا کوئی آلہ موجود ہوتا تو پہلی ندا آزادی کی اور دوسری ظلم کی ہوگی ۔یہاں ظلم اور تشدد کی ہر حد روز ایک نئی اونچائی کو چھوتی ہے ۔کشمیریوں پر ہو رہے اس ظلم و جبرکی وجہ یہاں کے لوگوں کی جائز مانگ ہے ،جسے ’’ حق خود ارادیت یا آزادی ‘‘کہتے ہیں ۔چنانچہ ہندوستان نے کئی بار کشمیریوں سے یہ وعدہ کیا ہے کہ ان کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے گا جس کی گواہی بین الاقوام میں پاس شدہ اٹھارہ قرار دادوں میں موجود ہے مگر ہندوستان نے بجائے یہ حق دینے کے اپنی سیاست سے کشمیریوں کے اس حق کو طاقت کی بنیاد پر سلب کر لیا ہے اور ہر وہ مکروہ طریقہ آزمانے کی کوشش میں ہے جس سے کشمیر کو ہندوستان میں ضم کیا جاسکے ۔مجھ سے لوگ اکثر سوال کرتے ہیں کہ یہ آزادی کیا ہے ؟لکھنے کو تو راقم آزادی پر پورا ایک دیوان لکھ دے لیکن جگہ کی تنگی کا خیال ملحوظ ِ خاطر ہے۔آزادی کشمیر میں ایک غیر معمولی لفظ ہے اور غیر معمولی صورت اختیار کرتی ہے۔ یہ تو عین ایمان کا حصہ ہے یا یوں کہوں کہ ایمان کا جزو لاینفک ہے ۔اس کے بغیر کشمیریو ں کا وجود ناممکن ہے۔آزادی تو اس چمن کی لطیف نغمہ پیرائی ہے ۔یہ تو زبان کی لذت گفتار ہے۔ اس کے دم سے کشمیر میں زندگی کا چمن ہست و بود ہے ۔آزادی یہاں تخیل کی معراج ہے ۔یہ تو وہ آفتاب ہے جس سے یہاں کے لیل و نہار کو دوام ملتا ہے ۔یہ تو دل خرد ہے ،روح رواں ہے ،شعور ہے۔ آزادی تو کشمیر میں چشم فلک کی صلوٰۃ ہے۔ یہ تو زندان کے ساتھیوں کی صدائے اول و آخر ہے ۔یہ تو ایسا سکوت ہے جس پر تقریر بھی فدا ہے ۔آزادی وہ در گوشہ عروشہ صبح ہے، وہ گوہر ہے ،وہ عظیم امانت اور نعمت ہے جس پر سیمائے افق نازاں ہے ۔یہ تو معرکہ حق و باطل میں حق کی ڈھال ہے ۔یہ وہ شوق ہے جو ہر گھر میں برھان کو جنم دیتا ہے ۔آزادی تو امتیاز ملت ہے اور آئینہ دل ہے ۔آزادی شب کی سیاہی میں بانگ درا ہے اور دن میں ظلم کے خلاف ضرب کلیم ہے ۔آزادی یہاں دل کی دھڑکن ہے ،من کا در پن ہے ،باپ کی شفقت ہے ،ماں کی ممتا ہے ،بھائیوں کا غرور ہے،بہنوں کی عصمت ہے ۔فرمان الٰہی ہے،سنت نبوی ہے ۔الغرض آزادی کشمیر میں معرکہ حق و باطل میں شمشیر فاروقی کی حیثیت کا حامل ہے۔شہید برہان وانی کی شہادت کے بعد جو جوش و جذبہ یہاں کے لوگوں میں بالعموم بچوں اور بوڑھوں اور بالخصوص نوجوان نسل میں دکھائی دے رہا ہے ،وہ قابل دید اور لائق تحسین ہے ۔یہ ان جوانوں کا شوق آزادی ہی ہے جو ہندوستان کی کمر توڑ رہا ہے اور غازی ایمان کی دولت سے آراستہ و پیراستہ میدان کار زار میں آزادی کا علم اٹھائے کھڑے ہیں۔ یہ غازی ’’شہادت ہے مطلوب مقصود مومن نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی ‘‘کی راہ پر گامزن ہیں ۔کشمیر کی خون ریزی پر تو آسمان بھی اشک بار ہے ۔ہر ندی نالہ خون کی ہولی کی داستان بیان کر رہا ہے ۔ہندوستان اپنی طاقت کے دم پر جتنا یہاں آزادی کی آواز کو دبانا چاہے گا اتنی ہی زور سے آزادی کے متوالوں کی آواز گونجے گی ۔کشمیری نہ ہی بہنوں کی عصمت کو لوٹنے والے درندوں کو بھولے ہیں ،نہ ہی نو نہالوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کرنے والے وردی پوش ہندوستان کےبزدل سپاہیوں کو بھولے ہیں اور نہ ہی سفید لباس پہنے افضل گوروں کے وحشی قاتلوں کو اور نہ ہی نوجوان نسل کی آنکھوں سے بینائی چھیننے والے ظالموں کو بھولے ہیں۔
ہندوستان کی برہمن ذہنیت نے ہر داؤ کھیلا اور ہر حربہ آزمایا مگر ہر بار شکست اس کا مقدر ٹھہری ہے ۔گزشتہ ہفتہ دہلی میں منعقدہ ایک عالمی سیمینار میں تو صوفی اسلام کو فروغ دینے کا زاویہ اور خاکہ بھی سامنے آیا ۔ کہتے ہیں مروجہ صوفیت میں کشمیریوں کو رنگا جائے تاکہ ان میں آزادی کی حس کو کمزور اور ختم کیا جائے ۔مگر تاریخ کے دائرے کا رخ بتاتا ہے کہ کشمیر میں جذبہ آزادی اور شوق شہادت بڑھتا ہی چلا جارہا ہے اور نئے سنگ ہائے میل طے کر رہا ہے ،سو جتنی جلدی پر امن طریقے پر ہندوستان کشمیریوں کو اپنا حق خود ارادیت دے گا اتنا ہی یہ ہندوستان کی ترقی اور بر اعظم کے امن کے حق میں مفید ہوگا۔

Facebook Comments

شاھد لون
شاھد لون کا تعلق مقبوضہ کشمیر سے ہے اور چند ابھرتے جواں لکھاریوں اور محققوں میں سے ہیں۔ فی الحال جامیہ ملیۃ اسلامیۃ سے سیاسی اقتصادیات میں ڈاکٹریٹ کررہے ہیں-

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply