حرف کی آبرو قلم سے ہے
عمران احمد راجپوت
تحریر کے آغاز سے جب انسان نے لاشعور سے نکل کر شعور کی دنیا میں قدم رکھا اور قلم کی نوک سے لوگوں کے مضطرب ذہنوں میں حروف کو انڈیلنا شروع کیا تو دانش خرد کی ایسی راہیں متعین ہونا شروع ہوئیں کہ فہم و فراست کے انمول موتی ہر سو بکھرتے دکھائی دیئے. تاریخ کے آئینے میں دیکھا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ قلم نے ہر دور میں انسان کی نہ صرف رہنمائی فرمائی بلکہ ایک حقیقی انسان دوست ہونے کا کردار بھی ادا کیا ہے. یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ہر باشعور انسان نے اپنے مقصد اور منزل کو پانے کے لیے قلم سے ہی رہنمائی حاصل کی. منتشر ذہنوں میں یکسوئی قائم کرنے کی بات ہو یا دلِ فریفتہ میں محبت کی شمع روشن کرنے کی غرض ہو انسان نے ہمیشہ سے اپنی رہنمائی کا ذریعہ اور کامیابی کا ذینہ قلم ہی کو سمجھا ہے. آج کے جدید ترین دور میں سوشل میڈیا سے لیکر ہر طرح کے ذرائع ابلاغ قلم کے سہارے اپنے وجود کو قائم رکھے ہوئے ہیں. یہی وجہ ہے کہ آج سوشل ویب سائٹس پر جس قدر لکھا جارہا ہے پڑھا جارہا ہے معاشرے میں علم و آگہی کی کونپلیں اسی رفتار سے پھیلتی دکھائی دیتی ہیں قاری اور لکھاری کے درمیان فاصلے سمٹتے جارہے ہیں جبکہ قاری اور لکھاری کے درمیان باہمی تعلقات پر مبنی ایک قسم کا رشتہ قائم ہونے لگا ہے جوکہ مکالمے کے فروغ میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے.
ایسے ہی علم و دانش کے موتی بکھیرنے میں قلم کاروں کی معروف و مقبول تنظیم پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ پیش پیش نظر آتی ہے جو مکالمے کے ذریعے معاشرے میں موجود ہر طرح کی انتہاپسندی کے خاتمے اور مساوات کے فروغ پر یقین رکھتی ہے جو ملک کے ہر نوجوان کے ہاتھ میں قلم تھمانے کی خواہشمند ہے جو صرف ایک سال کے قلیل عرصے میں ملک کے طول وعرض میں پھیلی جس نے ملک کے ہر شہر گاؤں دیہات قصبے میں اپنی نمائندگی کو نہ صرف یقینی بنایا بلکہ فلسفہء علمیت پسندی کو عام کرنے میں عملی طور پر اپنا مثبت کردار ادا کیا. حال ہی میں اِس تنظیم کی جانب سے ایک سال مکمل ہونے پر مورخہ 18 مارچ 2017 کو الحمرا آرٹس کونسل لاہور میں سالانہ میڈیا کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں ملک کے معروف ادبی و صحافتی حلقوں کالم نویسوں سمیت ملک کے تمام شہروں سے تنظیم کے عہداران و ممبران نے شرکت کی. کانفرنس کا موضوع تھا "معاشرے میں بڑھتی ہوئی مذہبی و سیاسی انتہا پسندی" جس پر ملک بھر سے آئی ہوئیں معروف صحافتی و ادبی شخصیات امجد اسلام امجد، پروفیسر رئیس فاطمہ، وجاہت مسعود، امیر حمزہ،یعقوب غزنوی، مبشر علی زیدی، عامر خاکوانی، ڈاکٹر اطہر خرم، ڈاکٹر عارفہ، سید قیصر محمود، حمیرا اطہر، عقیل عباس جعفری، عارف خٹک، احتشام جمیل شامی اور منصور مانی نے اپنے خیالات کا اظہار کیا. پروگرام کے آرگنائزر مزمل احمد فیروزی جبکہ نظامت کے فرائض محترمہ عرشی عباس اور زاہد رضا چوہدری نے انجام دئیے. کانفرنس میں خصوصی طور پر سندھ کی ثقافت کو اجاگر کرنے کے حوالے سے آچر خاصخیلی کی جانب سے ایک قرارداد بھی پیش کی گئی جس میں سندھ کی قدیم تہذیب و کلچر کو زندہ رکھنے کیلئے برہمن آباد شہر سمیت سندھ کے دیگر قدیم تاریخی ورثے پر حکومتی توجہ دلانا مرکوز تھاجس پر ہال میں موجود تمام شرکاء نے قرارداد کے حق میں ہاتھ اٹھا کر اپنی حمایت کا یقین دلایا اور سندھ حکومت کو اِس امر کی جانب بھرپور توجہ دلانے کی سفارش کی گئی .
یہ میڈیا کانفرنس اپنی نوعیت کی پہلی اور منفرد کانفرنس تھی جس میں پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ نے دور دراز سے آئے مہمانوں کے نہ صرف سفری (براستہ ہوائی سفر) اخراجات اٹھائے بلکہ انکی رہائش کھانے کا مناسب بندوبست بھی کیا. کانفرنس کے آخر میں ملک بھر سے منتخب بہترین کالم نگاروں کو ایوارڈ دیئے گئے جبکہ پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کی جانب سے منعقد کرایا گیا تحریری انعامی مقابلہ "آگے بڑھو پاکستان" کے ونرز کو سند اور انعامی رقوم سے نوازہ گیا.اس میڈیا کانفرنس میں ملک بھر سے آئے کالم نگار، بلاگرز، شاعروں ادیبوں نے شرکت کی اور اسے کامیاب بنانے میں بطور ایک ٹیم اپنا کلیدی کردار ادا کیا.
جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا کہ موجودہ دور میں جسطرح لکھنے والوں میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے اور ہر باشعور انسان معاشرے کو سنوارنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کرتا نظر آتا ہے اِسی طرح اِن لکھاریوں کی نمائندہ تنظیموں میں بھی روزبروز اضافہ ہورہا ہے ایسے میں پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ صرف ایک سال کے قلیل عرصے میں اپنے وجود کو منوانے اور اپنے منشور کو عملی جامہ پہنانے میں نہ صرف کامیاب نظر آئی بلکہ اِس ایک سال میں علم کے بیش قیمت موتی ملک کے طول وعرض سے سمیٹ کر انھیں ایک لڑی میں پرونے کا فریضہ بھی بخوبی ادا کرتی دکھائی دی جوکہ علمی و ادبی حلقوں کےلیے نیک شگون ہے.
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں