بڈھے نے بڑی مشکل سے اپنی پلکیں اٹھائیں۔ گویا ان پر بال نہیں، چاندی کی بھاری بھاری زنجیریں لٹکی ہوئی ہیں، اور گھور گھور کر مجھے دیکھنے لگا۔
میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر، نفرت سے ناک سکیڑ کر گویا ہوا:
“جانتے ہو کتنی کراہیت محسوس ہوتی ہے مجھے تم سے؟
تمہاری ذات نفرت کا نشان ہے۔ گھن آتی ہے تم سے۔ مزید برداشت نہیں کر سکتا، اسی لیے آج فیصلہ ہو ہی جائے گا۔”
اپنی کل طاقت جمع کر کے بوسیدہ ہتھیلی اور خشک انگلیوں کے ساتھ بڈھے نے پتھر اٹھایا اور میری طرف اچھال دیا۔
آئینہ چکنا چور ہو گیا۔۔
Facebook Comments