آئین الحاد اور آزادی اظہار کی حدود

جب کبھی آئینِ الحاد لکھا جائے گا تو اس کے بنیادی نکات یہ ہونگے۔
گو کہ خدا موجود نہیں ہے لیکن چونکہ اہل مذہب اسے مانتے ہیں اس لئے خدا کا احترام ہر ملحد پر لازم ہے۔
ہر ملحد اس بات کا پابند ہے کہ اگر کوئی فرد زیتون کے پودے کو اپنا خدا مانے تو کوئی ملحد اس کے سامنے زیتون کے پودے سے پتا نہیں توڑے گا.
الحاد کی رو سے اخروی زندگی نہیں ہوتی اور ظالم کی پکڑ اور مظلوم کے انعام کا کوئی تصور نہیں ہے اس لئے ہر ملحد پر لازم ہے کہ وہ مظلوم کی مدد کرے اس کے لئے آواز اٹھائے اور ہر ظالم کا محاسبہ کرے تاکہ اسی دنیا میں حقدار کو حق پہنچے.
ملحد خدا کے وجود پر مکالمہ اسی وقت تک کرے گا جب تک اہل مذہب کی طرف سے دلائل دئیے جائیں. جب اہل مذہب اپنے خدا کو بلا دلیل ماننے کا اقرار کریں تو ملحد پر لازم ہے کہ وہ مسکرا کر بات ختم کرے.
بلب کی ایجاد کرنے والے تھامس ایڈیسن بھی خدا کا وجود نہیں مانتے تھے، ڈی این کو دنیا کے سامنے لانے والے روز الین فرینکلن بھی خدا کو نہ مانتے تھے، روس کے اینڈریو شکارو جو ملحد تھے، کو انیس سو اٹھاسی میں انسانیت کی خدمت کے لئے ہیومنسٹ ایوارڈ دیا گیا ہے، سٹیفن ہاکنگ ویل چئیر پر بیٹھ کر خدا کے وجود کے انکاری ہونے کے باوجود انسان کو خدا سے متنفر کرنے کی بات نہیں کرتے، ان کا کلمہ دل آزاری نہیں بلکہ حوصلہ افزائی ہوتا ہے. یہ سب قابل ذکر ہستیاں گزری ہیں یہ سب خدا کو نہیں مانتے تھے لیکن انہوں نے اعتراض کرنے اور انگلی اٹھانے کی بجائے انسانیت کی خدمت میں وقت گزارا. اس بات میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ ایاز نظامی صاحب نے اپنے ہم خیالوں سے زیادتی کی ہے، انہوں نے الحاد کا مسخ شدہ چہرہ دنیا کو دکھایا ہے. ایک ملحد دوست نے سال بھر پہلے یہ خوب جملہ کہا تھا کہ “نظامی صاحب ویسے ہی ملحد ہیں جیسے فضل اللہ اور البغدادی مسلمان ہیں، جیسے بجرنگ دَل تنظیم والے ہندو ہیں اور جیسے ہٹلر اپنے آپ کو عیسائی کہہ گئے ہیں “الحاد اور شدت پسندی میں زمین و آسمان کا فرق ہے. شدت پسندی کی تعریف دنیا والوں نے کچھ یوں کی ہے.
extremism has been defined as any person، faith or ideology that opposes "democracy, the rule of law, individual liberty and mutual respect and tolerance of different faiths and beliefs." 
مجھے وہ ملحد دوست نہیں بھولتا جو کسی مسجد کو دور سے دیکھ کر گاڑی میں موسیقی کی آواز بند کر دیتا تھا. ایک مرتبہ اس سے پوچھا کہ تم تو خدا کو نہیں مانتے پھر مسجد کو دیکھ کر موسیقی کی آواز کیوں بند کر دیتے ہو؟۔۔۔۔ کہنے لگے۔۔ایک مرتبہ میں ایسی ہی کسی مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا اور کوئی شخص بہت تیز موسیقی سنتے ہوئے وہاں سے گزرا تھا. اس وقت مجھے بہت برا لگا تھا اس لئے میں اب مسجدوں کو دیکھ کر آواز بند کر دیتا ہوں تاکہ کسی کو برا نہ لگے.
بات اتنی سی ہے کہ لا کے ابلاغ کے لئے الا پر تبصرا کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی. یہ اکیسویں صدی، آزادی کی صدی ہے یہاں ہر شخص کو بات کرنے کی، اظہار کی اور اپنے نظریات کا پرچار کرنے کی اجازت ہے.. یاد رہے کہ یہ آزادی اظہار کی ہے تضحیک و تحقیر کی نہیں.

Facebook Comments

ثاقب الرحمٰن
چند شکستہ حروف ، چند بکھرے خیالات ۔۔ یقین سے تہی دست ، گمانوں کے لشکر کا قیدی ۔۔ ۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”آئین الحاد اور آزادی اظہار کی حدود

Leave a Reply