• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اعتدال،روادری،عدم تشدد۔اسوہ حسنہ سے عملی مثالیں

اعتدال،روادری،عدم تشدد۔اسوہ حسنہ سے عملی مثالیں

آج دنیا بھر میں مسلمان جن مصائب اورآفات کاشکار ہیں ان کا سب سےبڑا سبب آپس کا تفرقہ اورخانہ جنگی ہے۔ ورنہ عددی کثرت اور مادی اسباب و وسائل کے اعتبار سے مسلمانوں کو سابقہ ادوار میں ایسی طاقت حاصل نہ تھی جیسی آج حاصل ہے۔ اگر آج امت ِمسلمہ پرنظر دوڑائی جائے تو یہ امت کےبجائے ایک منتشر ہجوم نظر آتی ہے، جس میں دور دور تک کسی اتحاد کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔آج اْس امت میں جوتفرقہ سب سے زیادہ اور سب سےخطرناک ہے وہ دین ِاسلام کے نام پر ہے،جس میں ایک فرقہ اپنےمخالف فرقے پر قتل وغارت گری سےبھی گریز نہیں کرتا۔۔ اس وقت سب سے زیادہ ضرورت اتحاد امت کے بیانیہ کے فروغ کی ہے ۔اسی سلسلہ میں نبی اکرمﷺ کے اسوہ حسنہ سے اعتدال ۔عدم تشدد اور رواداری کے متعلق چند مثالیں پیش خدمت ہیں ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکات پوری دنیا کیلئے کامل نمونہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں اعتدال، رواداری اور عدم تشدد کی اعلیٰ ترین عملی مثالیں قائم کی ہیں۔ اسلام کے آغاز ہی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اہل مکہ نے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنا شروع کئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں، قتل کے منصوبے بنائے، راستوں میں کانٹے بچھائے، جسم اطہر پر نجاستیں گرائیں، جادوگر، مجنون اور نہ جانے کیا کیا نام دئیے مگر بقول ام المومنین حضرت عائشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام زندگی اپنی ذات کیلئے کبھی کسی سے بدلہ نہیں لیا۔ ہاں اگر کوئی خدائی حرمت کو پامال کرتا تو اس صورت میں سختی کے ساتھ مواخذہ فرماتے۔ذیل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ سے اس سلسلے میں چند عملی مثالیں پیش کی جاتی ہیں:
نبوت سے قبل جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر ۳۵ سال تھی۔ اہل مکہ نے بیت اللہ شریف کی تعمیر نو کافیصلہ کیا۔ جب حجراسود کی تنصیب کاموقع آیا تو ہر قبیلہ والے اس سعادت کو حاصل کرنے کیلئے میدان میں اتر آئے۔ قریب تھا کہ تلواریں چل پڑتیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دانشمندانہ فیصلہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پتھر کو اٹھا کر ایک چادر میں رکھا اور تمام قبیلوں کے سرداروں سے کہا کہ اس چادر کو مشترکہ طور پر اٹھا کر خانہ کعبہ تک لے چلو۔ جب سب نے پتھر اپنی جگہ تک پہنچادیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اٹھا کر اسے اس کی جگہ پر نصب فرمایا اور یوں خون خرابہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلانِ نبوت فرمایا تو کفار نے ہر طرح سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ستانا شروع کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوجہل اور ابولہب، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانی دشمن بن گئے۔ ابولہب کے دو بیٹوں عتبہ اور عتیبہ کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیوں حضرت ام کلثوم اور حضرت رقیہ کا نکاح ہوا تھا۔ ان دونوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیوں کو طلاق دیدی۔ اس طرح اہل مکہ نے خاندانِ قریش کا معاشرتی مقاطعہ(Social Bycot) کیا۔ یہ حالت سن ۷ نبوت سے ۱۰ نبوت تک جاری رہی۔ بھوک اور پیاس سے بچے بلبلا اٹھتے مگر اہل مکہ کو ان پر رحم نہ آتا۔ ان تمام حالات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر اختیار کیا۔ایک بار رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حرم شریف میں نماز پڑھ رہے تھے ابوجہل کے اکسانے پر بدبخت عقبہ بن ابی معیط اٹھا اور گندگی بھری اوجھڑی لاکر سجدے کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر رکھ دی۔ کافر اس منظر کو دیکھ کر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہورہے تھے۔ کم عمر حضرت فاطمة الزہراء دوڑتی ہوئی آئیں اور اس گندگی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک سے ہٹا دیا۔ اہل مکہ سے نا امید ہوکر آپ نے دعوتِ اسلام کی غرض سے طائف کاسفر اختیار کیا۔ وہاں کے سرداروں نے دعوت قبول کرنے کے بجائے برا بھلا کہا اور لڑکوں کو پیچھے لگا دیا جنھوں نے پتھر مار مار کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لہولہان کر دیا۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق اس وقت مختلف فرشتے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اہل طائف کی تباہی کی اجازت چاہی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں اگر یہ لوگ ایمان نہیں لائے تو اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے مسلمان پیدا فرمائے گا۔ ابوسفیان کی بیوی ہندہ اسلام لانے سے قبل سخت ترین دشمن اسلام تھی۔ اس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے چچا حضرت حمزہ کو شہید کروا کر ناک کان کٹوائے۔ سینہ چاک کرایا اور دل و جگر نکلوا کر کچا چبایا۔ فتح مکہ کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بلند اخلاق اور بے مثال عفو و درگزر سے متاثر ہوکر مسلمان ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اسلام لانے پر خوشی کا اظہار فرمایا۔حضرت حمزہ کو شہید کرکے ان کا سینہ چاک کرنے والا وحشی بن حرب تھا۔ جو ہندہ کا غلام تھا۔ (وحشی بن حرب کے لفظی معنی ہیں جنگلی، لڑائی کی پیداوار) فتح مکہ کے بعد یہ طائف بھاگ گیا کیونکہ اہل طائف ابھی اسلام نہیں لائے تھے، مگر جب اہل طائف نے بھی اسلام قبول کرلیا تو وحشی کیلئے جائے پناہ نہیں رہی اور جب مجبوراً دربارِ رسالت میں اسلام لانے کی غرض سے حاضر ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اسلام قبول فرماکر سب کچھ معاف فرمایا۔ عکرمہ بن ابی جہل اسلام لانے سے قبل باپ کی طرح سخت ترین دشمن اسلام تھا۔ فتح مکہ کے دن خوف کے مارے یمن بھاگ گیا۔ ان کی بیوی نے جومسلمان ہوچکی تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عکرمہ کیلئے امان طلب کی اور عکرمہ جب دربارِ نبوت میں پہنچے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرطِ خوشی سے اس کی طرف ایسے دوڑے کہ چادر مبارک جسم اطہر سے کھسک کرنیچے گر پڑی۔
صفوان بن امیہ قریش کے سرداروں میں سے تھا اور کٹر دشمن اسلام تھا۔ اس نے عمیر بن وہب کو بھاری رقم کی لالچ دے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے ارادہ سے مدینہ بھیجا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعہ اس کے ارادے کی اطلاع ہوگئی تھی جب وہ خدمت اقدس میں پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اقدام سے پہلے ہی اس کے ارادے کی اطلاع اسے کردی اور فرمایا کہ تمہارے اور صفوان کے درمیان خانہ کعبہ کے سایہ میں فلاں فلاں بات ہوئی تھی۔ یہ سن کر عمیر فوراً اسلام لے آیا۔ تاہم صفوان فتح مکہ کے دن بھاگا اور جدہ پہنچا جہاں سے یمن جانا چاہتا تھا۔ عمیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور صفوان کیلئے امان کی درخواست کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا عمامہ مبارک بطورِ امان نشانی عطا فرمائی۔ صفوان، عمیر کے ہمراہ دربارِ رسالت میں پہنچا اور چار ماہ کی مہلت طلب کی۔ بعد میں اسلام قبول کیا۔
مسلمانوں کی خاطر ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی زید بن سعنہ سے قرضہ لیا۔ مقررہ وقت ادائیگی سے قبل ہی وہ یہودی آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نامناسب اور گستاخانہ انداز سے پیش آیا۔ حضرت عمر سے برداشت نہ ہوسکا اوراس کی گردن اڑانے کی اجازت چاہی۔ مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عمر! تمہیں چاہئے کہ مجھے حسن ادائیگی کی تلقین کرتے اور اسے حسن طلب کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اس کا قرض واپس کرنے کا حکم فرمایا بلکہ حسن سلوک کے طور پر بیس صاع زیادہ کھجوریں دینے کا حکم فرمایا۔ اس حسن سلوک سے وہ یہودی متاثر ہو کر مسلمان ہوگیا۔ عبداللہ بن ابی بن سلول رئیس المنافقین، دل سے اسلام کا دشمن و بدخواہ تھا۔ غزوہ احد کے موقع پر بہانہ بنا کر اس نے مسلمانوں کی جمعیت جو ایک ہزار پر مشتمل تھی سے تین سو اپنے افراد جدا کرکے واپسی اختیار کی یہ مشرکین و یہود کے ساتھ خفیہ ساز باز رکھتا اور مسلمانوں کے راز ان کو منتقل کرتا تھا۔ ایک دفعہ ایک مہاجر اور ایک انصاری کی آپس میں لڑائی ہوگئی دونوں نے اپنی اپنی قوم کوپکارا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے موقع پر پہنچ کر معاملہ رفع دفع کیا مگر عبد اللہ بن ابی نے کہا کہ مدینہ چل کر ذلیل مسلمانوں یعنی مہاجرین کو نکال دوں گا اور کہا کہ پیغمبر کے ساتھیوں سے ہاتھ اٹھا لو تو وہ خود یہاں سے بھاگ کھڑے ہوں گے۔ اس کی تفصیل سورہ منافقون میں آ ئی ہے۔ واقعہ افک یعنی حضرت عائشہ پر بہتان لگانے میں بھی اس کا بنیادی کردار تھا۔ اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اس سے درگزر کا معاملہ فرمایا اور جب مرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی ناپسندیدگی کے باوجود اپنا کرتہ عنایت فرمایا جس میں اسے دفن کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کیلئے استغفار کیا۔ سب سے بڑھ کر طیش اور غضب کا موقع افک کا واقعہ تھا جبکہ منافقین نے حضرت عائشہ صدیقہ پر نعوذ باللہ تہمت لگائی تھی۔ حضرت عائشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین بیوی، اور ابوبکر جیسے یارِ غار اور افضل ترین صحابی کی صاحبزادی تھیں۔ شہر منافقوں سے بھرا پڑا تھا۔ جنھوں نے دم بھر میں اس خبر کو اس طرح پھیلایا کہ سارا مدینہ گونج اٹھا۔ دشمنوں سے شماتت، ناموس کی بدنامی، محبوب کی بے عزتی، یہ باتیں انسان کے صبر و تحمل کے پیمانہ میں نہیں سما سکتیں، تاہم رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام کے ساتھ کیا کیا؟ ․․․․ واقعہ کی تکذیب خود خدا نے قرآن پاک میں کر دی اور اس سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی طرح کوئی انتقام نہیں لیا۔ ہبار بن الاسود وہ شخص تھا جس کے ہاتھ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب کو سخت تکلیف پہنچی تھی۔ حضرت زینب حاملہ تھیں اور مکہ سے مدینہ ہجرت کررہی تھیں۔ کفار نے مزاحمت کی۔ ہبار بن الاسود نے جان بوجھ کر ان کو اونٹ سے گرا دیا جس سے ان کو سخت چوٹ آئی اورحمل ساقط ہوگیا۔ فتح مکہ کے بعد مجبوراً آستانہٴ رحمت پر جھک آیا اور اپنی جہالت اور قصور کا اعتراف کیا۔ پھر کیا تھا؟ بابِ رحمت سامنے کھلا تھا اور دوست دشمن کی تمیز یکسر مفقود تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخر عمر میں عرب کا ایک ایک قبیلہ اسلام کے پرچم تلے جمع ہونا شروع ہوا۔ اگر کسی قبیلہ نے آخر دم تک سرتابی کی ہے تو وہ بنو حنیفہ کا قبیلہ تھا۔ جس میں مشہور مدعی نبوت مسیلمہ کذاب ہو گذرا ہے۔ ثمامہ اس قبیلے کا ایک رئیس تھا اتفاق سے وہ مسلمانوں کے ہاتھ لگ گیا گرفتار ہوکر مدینہ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس کو مسجد کے ستون سے باندھ دیا جائے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد تشریف لے گئے۔اُس سے دریافت کیا کہ کیا کہتے ہو؟ اس نے جواب دیا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر مجھے قتل کرو گے تو ایک خونی سے انتقام لے لوگے اوراگر احسان و کرم کروگے تو ایک شکر گزار پر احسان کر لو گے اوراگر فدیہ کی رقم چاہیے تو آپ مانگیں میں دوں گا۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ دوسرے دن بھی یہی تقریر ہوئی۔ تیسرے دن بھی جب یہی سوال و جواب ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا کہ ثمامہ کی رسی کھول دو۔ اور اُسے آزاد کردو۔ ثمامہ پر اس خلافِ توقع لطف و احسان کا یہ اثر ہوا کہ قریب ایک درخت کی آڑ میں جا کر غسل کیا اور مسجد میں واپس آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کلمہٴ تشہد بہ آوازِ بلند پڑھا اور کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! دنیا میں کوئی شخص مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مبغوض نہیں تھا۔ اب دنیا میں کوئی شخص آپ سے زیادہ محبوب نہیں۔ اس سے قبل کوئی مذہب آپ کے مذہب سے زیادہ میری آنکھوں میں ناپسند نہیں تھا اب یہی مذہب سب سے زیادہ پیارا ہے۔ کوئی شہر آپ کے شہر سے زیادہ برا نہیں تھا اب وہی شہر سب سے زیادہ پسندیدہ ہے۔
یہ چند مثالیں ہیں ورنہ سیرت طیبہ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے اللہ تعالیٰ اتحاد و اتفاق کی توفیق عطاء فرمائے

Facebook Comments

Muhammad yaqoob
محمد یعقوب فریدی خطیب جامع مسجد غوثیہ رضویہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply