آتشِ عشق!

صحابہ کی رحمت اللعالمین سے محبت(متفرق واقعات)

Advertisements
julia rana solicitors london

صحابہ کرام کے دل میں نبی پاکﷺ کی محبت خون کی مانند گردش کرتی تھی اور آپﷺ سے ایک لمحے کی جدائی کا تصور بھی سوہانِ روح تھا اور اس خیال سے صحابہ کرام ؓ مضطرب ہو اُٹھتے اور زارو قطار رونا شروع کر دیتے۔کنزالعمال کی روایت ہے کہ آپ ﷺ جس جگہ نماز ادا فرماتے ابنِ عمر بھی اسی جگہ نماز پڑھتے، اگر آپ ﷺ کسی درخت کے نیچے سواری سے اترتے تو ابنِ عمر ؓ اس درخت کی نگہداشت کرنا شروع کر دیتے، اس کی جڑوں میں پانی ڈالتے مبادا وہ سوکھ نہ جائے۔ طبقات ابنِ سعد میں حضرت انس بن مالک ؓ کا بیان ہے کہ کوئی ایسی رات نہیں گزرتی جس میں اپنے محبوبﷺ کو نہ دیکھتا ہوں! اتنا کہتے اور رونے لگتے۔ بعض صحابہ کرام فخریہ اس بات کا اظہار کرتے کہ انہیں یہ آنکھیں اس لیئے پیاری ہیں کہ ان سے رسول اللہﷺ کا دیدار ہوتا ہے، امام بخاری ؒ نے یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک صحابی بینائی سے محروم ہو گئے، لوگ عیادت کو آئے تو کہنے لگے مجھے تو صرف یہ غم ہے کہ ان سے آقا ﷺ کا دیدار کرتا تھا اب کیسے ہو گا۔۔۔۔شواہد النبوت میں علامہ جامی ؒ علیہ الرحمٰن نے یہ روایت بیا ن کی ہے کہ جب آپ ﷺ کے وصال کی خبر حضرت عبداللہ بن زید انصاریؓ نے سنی تو اپنے نابینا ہونے کی دعا مانگنے لگے،رب کی کرنی ایسی ہوئی کہ آپؓ اسی وقت نابینا ہو گئے، لوگو نے کہا آپ نے یہ دعا کیوں مانگی؟ فرمایا، مرکزِ نگاہ تو دنیا سے پردہ فرما گئے اب ان آنکھوں کا بھلا کیا کرنا۔۔۔ان آنکھو ں کو آپﷺ کے دیدار کی لذت تھی اب میری آنکھوں کو کسی کے دیدار کی چاہت باقی نہیں رہی۔ حضرتِ خبیب ؓ کی شہادت عشق کی وہ رمز سمجھاتی ہے کہ بندہ عش عش کر اٹھے اور چاہے کہ کاش میں ہوتا۔۔کاش۔۔
حضرت شعبیؓ سے روایت ہے، ایک انصاری صحابی رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی۔۔یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ مجھے اپنی جان، آل اولاد اور مال سب سے بڑھ کر زیادہ محبوب ہیں اور جب تک میں آپﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر آپﷺ کی زیارت نہ کر لوں تو محسوس کرتا ہوں کہ میں اپنی جان سے گزر جاؤں گا۔۔اور یہ بیان کرتے ہوئے وہ صحابیؓ زار و قطار رونے لگے، حادیء برحقﷺ نے فرمایا یہ نالہء غم کس لیئے؟۔۔عرض کی یا رسول اللہ ﷺ! جب میں خیال کرتا ہوں کہ آپ وصال فرما جائیں گے اور ہم بھی مر جائیں گے تو آپ انبیاء کرام کے ساتھ بلند درجات پر فائز ہوں گے اور ہم جنت میں جائیں گے لیکن آپ ﷺ سے نچلے درجوں میں ہوں گے۔آپ ﷺ نے کوئی جواب نہ دیا، پس اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ پر یہ آیت نازل فرمائی اور جو کوئی اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت کرے تو یہی لوگ ان ہستیوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے خاص انعام فرمایا ہے۔ اس پر آپ ﷺ نے اُن صحابی کو بلایا اور ابدی رفاقت کی نوید سنائی(در المنشور،2182,2)۔
حضرت زید بن دثنہ ؓ سے مشرکین کے سردار ابو سفیان نے قتل کے وقت کہا اے زید! میں تجھے اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں، بتاؤ! کیا تمھیں یہ بات پسند ہے کہ اس وقت تمھاری جگہ محمد ﷺ ہوتے اور ان کی گردن مار ڈالی جاتی اور تم اپنے اہل و عیال کے ہمراہ ہوتے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ بخدا مجھے تو یہ بھی پسند نہیں کہ محمدﷺ اس وقت جس جگہ موجود ہیں وہاں ان کے پاؤں مبارک میں ایک کانٹا بھی چبھے اور اس سے ان کو تکلیف ہو اور میں اپنے گھر بیٹھا رہوں۔اس پر ابو سفیان نے کہا، میں نے لوگو میں کسی کو کسی سے اتنی محبت کرتے نہیں دیکھا جتنی کہ صحابہ محمدﷺ سے کرتے ہیں۔عام صحابہ کرام ؓ کی نبی کریم ﷺ سے انتہای محبت پر یہ ایک شہادت کافی ہے۔
محب یاد ِ محبوب میں ایسا بے وخود ہو جائے کہ اپنی مطلق خبر نہ رہے جس طرح ایک لبریز تالاب کا بند شکستہ ہونے پر اس کا پانی شور سے بہہ نکلتا ہے اور خس و خاشاک کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے اس طرح جس دل میں عشق کا جذبہ پیدا ہو جائے تو پھر یہ روکنے سے نہیں رکتا اور بوجہ شکستگی، دل کا روکا ہوا سیلاب جب بہہ نکلتا ہے تو خواہشات ماسوائے اللہ اور رسول ﷺ دل سے غائب ہو جاتی ہیں اور بندہ دنیا سے غافل ہو جاتا ہے۔ عاشقانِ رسول کی زندگیاں رہتی دنیا تک آنے والوں کے لیئے ایک عملی نمونہ ہیں، یہی زندگیاں عشق و محبت کا حسین باب ہیں کہ جنہوں نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا لیکن عشق کا جو آلاؤ روشن کیا اس نے دلوں کو نور اور ایمان سے منور کر دیا۔ آتشِ عشق ِ محمدﷺ جلاتی نہیں بلکہ کندن بنا دیتی ہے۔ اللہ پاک لفظوں اور سوچ کی غلطیاں معاف فرمائیں اور اس تحریر کو توشہء آخرت بنا دیں۔آمین!

Facebook Comments

اسما مغل
خیالوں کے سمندر سے چُن کر نکالے گئے یہ کچھ الفاظ ہی میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”آتشِ عشق!

Leave a Reply