نابیناؤں کی بستی۔۔۔ عامر فاروق

ایک سری لنکن رہنما پاکستان کے دورے پر تھے۔ وطن واپس لوٹتے ہوئے اعلان کیا کہ مرنے کے بعد میرا قرنیہ پیوند کاری کے منتظر کسی پاکستانی کو لگا دیا جائے۔ مجھے خوشی ہو گی کہ میری آنکھ کا عطیہ کسی پاکستانی کے کام آ جائے جو بصارت سے محروم ہے۔

سرشار کر دینے والے اس مہربان اعلان نے شاعر کو احساس ممنونیت سے بھگو دیا۔اس نے جذبات کا کچھ اس دلکش انداز میں اظہار کیا۔

خوشبو کی طرح پھیلی ہے کمرے میں بصارت
شب چھوڑ گیا کون یہ گلدان میں آنکھیں

طبیعت شاید موزوں ہو گی کہ شاعر نے دو مصرعوں پر بس نہیں کی۔ پوری غزل ہی کہہ دی۔ اور اسی غزل کا ایک اور شعر آج بے طرح یاد آ رہا ہے۔ بار بار یاد آ رہا ہے۔

نا بینا جنم لیتی ہے اولاد بھی اس کی
جو نسل دیا کرتی ہے تاوان میں آنکھیں

کُھرا ڈھونڈنے نکلیں گے تو مولوی تمیز الدین سے آغاز کرنا شاید آدھے سے پکڑنے کے مترادف ہو گا۔ اور پیچھے جانا ہو گا۔ 1947 نہیں، 1940 بھی نہیں شاید 1905 تک جا کر دیکھنا ہو گا کہ کون سا موڑ غلط مڑ گئے تھے کہ منزل کھوٹی ہو گئی۔

راہ سے بھٹکے تو کیا پھر سے پگڈنڈی پکڑنا ممکن نہ تھا؟ 1958 میں کیوں چُوکے؟ کب پتہ ہی نہ چلا کہ چپکے سے راہزنوں نے رہبروں والا چوغہ اوڑھ لیا اور ایک پوری نسل اپنی آنکھیں رہن رکھ کر، لاٹھی ٹیکتی ٹیکتی، سر جھکائے رہبر نما رہزنوں کے پیچھے چلتے چلتے کسی چھاؤنی میں آ ٹھہری۔

پریانتھا میں تم سے شرمندہ ہوں لیکن ایسی کتنی شرمندگیاں میرے مقدر میں لکھی ہوئی ہیں میں تو اندازہ لگانے کے قابل بھی نہیں۔

تمہارا کوئی رہنما یہاں گلدان میں آنکھیں چھوڑ گیا تھا تو میرے کسی شاعر نے بصارت کی خوشبو کا سراغ پا لیا تھا۔ وائے ناکامی کہ میری تو پوری نسل نے ہی بصارت گروی رکھ دی اور ہم ٹامک ٹوئیاں مارتے پھر رہے ہیں۔ کیا کہہ سکتا ہوں کہ ابھی اور کتنا شرمندہ ہونا ہے۔

بہرحال یہ میرا المیہ ہے۔ تم اپنی طرف والوں کو بتاتے جانا کہ نابیناؤں کی بستی میں نہ جانا۔ اندھی گولی کی طرح اندھی بستی بھی نہ معلوم کس لمحے کس کو سانس لینے سے محروم کر دے۔

پس نوشت:

۱۔ پاکستان میں تقریبا 22 لاکھ افراد نابینا پن کا شکار ہیں یعنی “آنکھوں سے نہیں دیکھ پاتے”۔ ان میں سے دو لاکھ قرنیہ سے متعلق پیچیدگیوں میں مبتلا ہیں جس کا علاج قرنیہ کی پیوند کاری ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

۲۔ صحت مند آنکھیں ہونے کے باوجود “دیکھنے سے محروم” افراد کے حتمی اعدادوشمار دستیاب نہیں۔ اندازہ ہی ہے کہ یہ تعداد بہت بڑی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply