ہم اور ہمارے بیانیے

ہمارے وزیراعظم نے فرمایا کہ مدارس اور اہل مذہب دہشت گردی سے نجات کے لئے متبادل بیانیہ تشکیل دیں۔ چہ خوب است!
کاش قائد اعظم کو متبادل سیاسی بیانیہ جات کی اہمیت آشکار ہوجاتی تو قبائل کو آزادی کا پیغام دینے کی بجائے سیدھے سادے سابقہ کانگریس سے خطاب کرتے اور فرماتے کہ بھئی پاکستان بن گیا اب آپ اس کی روشنی میں متبادل بیانیہ تشکیل دیں اور فٹافٹ باچا خان سرحد کے ریفرنڈم سے بائیکاٹ کا اعلان واپس لے کے اپنی پرانی سیاست کی طرف لوٹ جاتے کہ صوبہ کو ملک سے علیحدہ کرانے کا مطالبہ غلط ہے اور ہم اپنی اصل سیاست کی طرف لوٹتے ہیں کہ انڈو و پاک میں سے کسی ایک کا انتخاب کرو۔
اے بسا آرزو کہ۔۔۔۔
ابھی اس اعلان کی بازگشت ہوا میں تھی کہ ایک ایاز نظامی نامی مبینہ ملحد و گستاخ مبینہ طور پہ ایک دیوبندی مدرسہ کا فارغ التحصیل اور مبینہ طور پہ معلم الحاد اور توہین کے الزام میں پکڑا گیا۔ مبینہ طور پہ اس مدرسہ کا نام نامی جامعہ بنوریہ کراچی بتایا جاتا ہے۔ بہرحال ہم ریاست کی طرف سے بیانیہ دینے کی بجائے اس بات کے قائل رہے کہ اہل سیاست خود ہی سے اپنا اچھا سا بیانیہ مرتب کرکے دیں تاکہ پارلیمنٹ کی جان قانون سازی سے چھوٹے اور وہ مفت کی نہ صرف روٹیاں توڑیں بلکہ کرپشن سے مستفید ہوں۔ ہمارے اس ریاستی رویے کو دیکھتے اور پاکستانی جمہوریت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہ ہوئے ہمارا یہ مطالبہ یا امید بنتی ہے کہ ہمارے پیارے وزیراعظم ایاز نظامی کی مادرِ علمی، ایاز نظامی کے گروپ یا بذات خود ایاز نظامی سے گزارش کریں کہ جناب آپ اپنے بیانیہ پہ نظر ثانی فرما کر عند اللہ ماجور ہوں تاکہ ہم سب جنت کے حقدار ہوں۔ ایسی ریاست جس کا مقصد جنت حاصل کرنا قرار دے دیا گیا تھا اس میں یہ کیسا اندھیر مچ چکا؟ ویسے طنز و مزاح برطرف، ریاست کا کام بیانیہ لینا نہیں بلکہ بیانیہ دینا ہے۔ آخر کب تک ہم اس ریاست کو لولی لنگڑی(اپنے سیاسی مفادات کے تحت) بنا کے کچھ کرنے کی بھی امید کرتے رہیں گے؟ ہمارے مکالمہ کی بنیاد کیا ہے؟ میں پاکستانی سٹائل کا قومیت پرست ہوں ریاست نے مجھ پہ ہمیشہ جبر اور ظلم کیا حالانکہ میں تو بہت نارمل تھا۔ حضور کیا مطالبات ہیں کہ آپ اپنے بیانیہ پہ نظر ثانی فرما سکیں ؟ ہم ہر جگہ درست تھے پاکستان غلط بنا اور یہ ٹوٹنا چاہے یہ بات مطالعہ پاکستان میں پڑھائی نہیں جارہی!
تو حضور اس مطالبہ کو ماننے کے بعد نفرت کے بیانیہ جات اور اس کی بنیاد پہ ابھرتی دہشت گردی ختم ہوجائے گی؟ کیونکہ ہم تو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں اور ہم کو آقاؤں نے حکم دیا ہے کہ خود کچھ کیے بغیر، بمعنی خود قانون نافذ کئے بغیر دہشت گردوں سے مذاکرات کرو کہ وہ اپنا بیانیہ تبدیل کردیں تو دہشت گردی سے امان ملے گی۔ پولیس، قانون، فوج سب سے چھٹکارا ملے گا ۔۔۔ ہاں دہشت گردی کے ہم بھی خلاف ہیں اور مسلکی مذہبی بنیاد پہ نفرت آمیز بیانیہ قطعی طور پہ ممکن نہیں، ہاں نسل اور زبان کی بنیاد پہ نفرت پھیلانا جرم ہرگز نہیں ہے یہ ہمارا سیاسی حق ہے اور جابر ظالم ریاست اس کو ہم سے چھین نہیں سکتی۔۔۔ انقلاب انقلاب نسلی لسانی انقلاب!!
سین بدلتا ہے نواز شریف مدرسہ پہنچ گئے۔۔ بھائی آپ لوگ اپنا بیانیہ بدلیں تاکہ دہشت گردی ختم ہو! بعینہ وہی رٹے رٹائے دلائل جو نسل اور لسان پرستوں نے دئیے تھے معمولی رد و بدل کے ساتھ یہاں بھی پیش ہوتے ہیں۔ شیعہ قاتل پہ شیعہ کو اعتراض نہیں، کراچی کے شارپ شوٹرز پہ ایم کیو ایم کو اعتراض نہیں، دیوبندی دہشت گرد پہ دیوبندی کو اعتراض نہیں بلکہ دبی دبی حمایت ہے۔ صرف اس پہ صبر نہیں خود اپنے اپنے ملحدوں اور گستاخوں پہ اعتراض نہیں حیرت انگیز طور پہ ڈھکی چھپی حمایت موجود ہے۔
بات سیدھی سادی سی ہے ہر سیاسی گروہ اپنی سیاست کو ریاست سے مقدم مانتا ہے اور اس کی سوچ ہے کہ اگر اس کی سیاسی سوچ ریاست پہ غلبہ حاصل کرلے تو امن قائم ہو جائے گا لیکن کیسا امن؟ ایسا امن جس میں دوسرے موجود ہی نہ ہوں۔ غور کیا ہر سیاسی سوچ حکومت پہ نہیں بلکہ ریاست پہ غلبہ حاصل کرنا چاہتی ہے لیکن اس کے بعد بدترین عذاب نازل ہوگا۔ کسی بھی طرز سیاست کا ریاست پہ غلبہ تکثیریت پسندی کی موت ہوتا ہے۔ تب ایسی ریاست فرانکو کے سپین یا ہٹلر کے جرمنی یا طالبان کے افغانستان سے مختلف نہیں رہتی۔ بیانیہ دینا صرف ریاست کا کام ہے ایک صاف ستھرا اور ٹھوس بیانیہ! کہ رنگ، نسل ، لسان، جنس اور عقیدہ کی بنیاد پہ کسی قسم کی نہ تو نفرت پھیلائی جائے نہ ہی تعصب اور نہ ہی اس بنیاد پہ کوئی سیاست کی جائے۔ یہی ریاست کا بیانیہ ہونا چاہیے اور اسے سختی سے نافذ کئے جانے کی ضرورت ہے۔ تمام مہذب دنیا اسی اصول پہ چلتی ہے اور ہم مذہبی یا نسل پرست یا لسان پرست سیاستدانوں کی ایماء پہ خود کو قرون وسطی کی سوچ میں منجمد نہیں رکھ سکتے ۔

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply