آئینہ خانہ۔۔رابعہ احسن

“عمران خان کے گھر میں پیرنی ہے اس سے پتہ کرا لیں کدھر غائب ہوا ہےاستخارہ کرائیں اس سے”۔۔۔ فیصل سبحان کے غائب ہونے پر طلال چوہدری نے پی ٹی آئی کے احتجاج کا یہ جواب میڈیا کو دیا تو پیپلز پارٹی کے ایک ممبر ٹاک شو میں بار بار ایک ہی جملہ استعمال کرتے رہے “آستانہ بنی گالہ” مطلب گالیاں دینے کا نیا انداز اب مکمل عزت کے ساتھ۔ یہ ہیں ہمارے سیاسی لیڈر جو ہمارے ملک و قوم کے امن و خوشحالی کے نعرے لگا کے ہماری اخلاقی اقدار کو سیاسی نیلامی کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں مطلب ایک ایسی عورت پہ محض اپنی تنگ نظری اور اخلاقی پستی کی وجہ سے دن رات کیچڑ اچھالا جارہا ہے جس نے نہ تو شادی سے پہلے کوئی شور شرابا کیا نہ میڈیا اکٹھا کیا نہ ہی کوئی پریس کانفرنس بٹھائی نہ ہی کسی کو بڑھ  چڑھ  کر کوئی انٹرویو دے کر اپنی متوقع شادی کو کوئی وجہ فراہم کی۔ جس کا سیدھا سادا  مطلب یہی تھا کہ یہ سراسر ایک نجی معاملہ ہے، شادی ہی کی ہے، اس عمر میں کسی جلسے میں کوئی بم دھماکہ تو نہیں کرایا ،لوگوں نے اپنی بیوی قتل کرادی آج تک کسی نے نہیں پوچھا، مگر کسی کو بیوی بنالینے پر اتنی تنقید، اتنی تضحیک۔

شادی کی اجازت تو مذہب بھی ہر عمر میں دیتا ہے اور شادی ہی تو مذہبی پیمانے پر پوری اترتی ہے۔ اخلاقی اقدار پہ  پوری اترتی ہے کہ نہیں اس بحث میں کون پڑتا ہے، کیونکہ اخلاقیات تو ہر کسی کا نجی معاملہ ہے  ،رائج شدہ اصولوں پہ عمل کے احتساب کا وقت آیا تو یقیناً  پورا   کمرہ امتحان خالی ہی ملے، گا اصل میں یہی ہیں ہم ، بس باتوں کے پیر ، اعمال پہ صرف دوسروں کے نظر رکھتے ہیں، محتسب بھی  بس دوسروں کے اعمال کے ہیں، اپنے اعمال کا یہ حال ہے کہ پانچ نمازوں سے آگے نہ اسلام ہے نہ اخلاق اور پانچ نمازوں کے پیچھے کیا ہے وہ بھی رب کی ذات جانتی ہے۔

ہم ابھی تک ملک لوٹنے والوں، عدلیہ، فوج اور ملک کے باقی اہم اداروں کو برا بھلا کہنے والوں اور ان پر الزام تراشیاں کرنے والوں کے ناموں کے آگے پیچھے محترم /محترمہ اور صاحب /صاحبہ لگاتے ہیں لیکن ایک خاتون جس کو جانتے بھی نہیں اس کانام ہرطرف ایسے پکارا جارہا ہے جیسے خدانخواستہ اس کے سالہاسال کے چوری شدہ ٹیکس کی تفصیلات لیک ہوگئی ہیں اور وہ اسی بات پہ ڈٹ گئی ہو کہ “آخر میرا قصور کیا ہے” یاپھر غریبوں کا خون چوس کے لندن میں مقیم اپنے بچوں کیلئے لگژری فلیٹس خرید کے یہ کہتی  سڑکوں پہ آنکلی ہے  کہ “مجھے کیوں نکالا”

ساری عمر عوام کی فلاح و بہبود میں لگانے والے عبدالستار ایدھی کو بھی الزامات سے نوازنے والی قوم جو آج بھی لٹیروں کے گن گارہی ہے ان کو لگ رہا ہے کہ عمران خان لوگوں کی عزتوں سے کھیل رہا ہے یہ وہ قوم ہے جو قصور میں تین سو سے زیادہ بچوں کے ساتھ زیادتی اور بلیک میلنگ کی گھناؤنی روداد کو واقعی زمین جائیداد کا مسئلہ سمجھ کے  بھول  جاتی ہے، زینب قتل کیس میں ایک ملزم کو قصوروار سمجھ کر باقی معاملہ  فرا موش  کر گئی ،کہ  یہ  اور اس جیسی کتنی ننھی جانوں نے اپنے جسم اور اپنی معصومیت کو کچلتے ہوئے کس طرح برداشت کیا ہوگا اس فکر میں مبتلاہے کہ عمران خان نے بشری’بی بی کی طلاق کرائی ہے جس سے ہمارے ہاں کس قسم کی اخلاقی تربیت متعارف ہورہی ہے،  سب یہ  بات کیوں بھول رہے ہیں کہ  جو لطیفے عمران خان کی شادی کو لے کر اس وقت سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر وائرل ہیں ان سے ہماری نسلیں یہ ضرور سیکھ  رہی ہیں کہ اس عمر میں شادی کرنا انتہائی فضول اقدام ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی نیچرل خواہشات پوری کرنے کیلئے “اس عمر میں”غیر اخلاقی حرکتیں کرسکتا ہے مگر شادی کرتے ہوئے اسے شرم آنی چاہیے۔

نبی صلی اللہ وسلم کے زمانے میں میں طلاق شدہ /بیوہ عورت کی دوبارہ شادی کرنا اتنا مشکل نہیں تھا  نہ ہی ان کی طلاق کا بیک گراونڈ دیکھا جاتا تھا ، صرف عدت فرض تھی اور اس کے بعد عورت اپنی پسند اور مرضی سے شادی کرسکتی تھی اور آج ہم یہ بات کرتے ہیں کہ آج طلاق بہت عام ہوتی جارہی ہے یہ ایک لعنت ہے  ،یہ مکروہ ہے ،مگر کیا کبھی کسی بھی میاں بیوی نے طلاق ہونے سے پہلے ان وجوہات پہ اکٹھے بیٹھ کے غوروفکر کیا کہ ان وجوہات کو مثبت طریقے سے حل کیا جائے ، نہیں نا۔ جب زندگی اکٹھے گزارنی ہے تو اپنے ازدواجی مسائل کو بھی کسی تیسرے کی مداخلت کے بغیر پوری ایمانداری سے حل کرنے کی ہمت کرنی چاہیے، مسائل سے نہ نظریں چرائی جاتی ہیں اور نہ منہ چھپائے جاتے ہیں اگر ان کو بروقت حل نہ کیا جائے تو پھر زندگی بھی گھسٹتی اور مسائل بھی گھسٹتے چلے جاتے ہیں۔

بشری’بی بی کی طلاق اور پچھلی   زندگی سے متلقہ لاکھ  کوشش کے باوجود بھی  میڈیا کچھ  بھی نہیں نکال پایا نہ ہی ان کے سابقہ شوہر نے ہی شور مچایا کہ “مجھے کیوں نکالا” ۔
وہ لوگ جو ریحام خان کو پہلے گالیاں دیتے تھے آج کل اس کی باتوں اور الزامات پہ آنکھیں بند کرکے یقین کر لیتے ہیں یہی سب لوگ ریحام خان اور عمران خان کی طلاق کا ذمہ دار صریحاً  ریحام کو ہی سمجھتے تھے۔ مطلب اس طلاق پہ بھی کسی کو  کوئی تکلیف نہیں تھی اور ہم اتنے وسیع النظر ہوگئے ہیں،کہ ریحام کی زندگی پر بھی کوئی اثر نہیں پڑا بلکہ وہ خان صاحب سے طلاق کے بعد زیادہ مشہور ہوگئیں تو پھر اس ساری عوام اور میڈیا نے اس شادی کو خود پہ اتنا سوار کیوں کر لیا ؟کسی کو بے نظیر اور زرداری تک کی شادی پہ کوئی اعتراض نہیں ہوا تھا۔ چوروں لٹیروں سے شادی ہوجائے کوئی مسئلہ نہیں مگر اک خان صاحب نے پیرنی سے شادی کیا کرلی مذاق اور گالی ہی بنا دیا گیا۔

شروع میں تو مجھے بھی  ہنسی آئی تھی مگر میڈیا پہ سیاسی رہنماؤں  کے بے تکے القابات سے بہت تکلیف ہوئی کہ یہی سیاسی رہنما ملک کے ہر قسم کے نظام کو بگاڑنے اور سنوارنے کے ذمہ دار ہیں اگر ان کی اخلاقیات میڈیا تک کے سامنے یہ ہے تو عام حالات میں کیسی کیسی نہیں ہوتی ہوگی۔ ہمیں لگ رہا ہے کہ عمران خان کی شادی سے اخلاقیات اور عزتیں خطرے میں پڑگئیں یہ کیوں نہیں پتہ چلتا کہ آئے دن ملک میں کتنے گھروں  میں لڑکیوں ، بچیوں اور یہاں تک کہ لڑکوں کے ساتھ  جنسی زیادتی ہوتی ہے کیس تک درج نہیں ہوتا ۔ عزت کا پیمانہ سب کیلئے ایک جیسا کیوں نہیں؟۔۔ زیادتی کرنے کے بعد قتل کر دینا تو آج کی عام کہانی ہے اس سے ہماری اخلاقیات اور انسانیت کی روداد پوری دنیا کے سامنے کھل کے آجاتی ہے ساری دنیا میں ہم عورتوں بچوں پہ ظلم کرنے والے مشہور ہیں اس سے ہماری اخلاقی زبوں حالی پہ کوئی فرق نہیں پڑتا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمارے بیوروکریٹس اربوں کے گھپلے کر کے باعزت بری ہوجاتے ہیں کہیں بھی کھڑے کھڑے کسی کوبھی  قتل کرنا ایک معمولی بات ہے ،منشیات فروشی سے ہماری نسلیں موت کے منہ   میں  جارہی ہیں، ہم غیرت کے نام پہ قتل تو کرسکتے ہیں مگر عزت کے ساتھ  شادی کرکے لوگوں کی چہ مگوئیوں کی زد میں آنا ایک مزیدار ٹاپک ہے سب کیلئے ۔ اس سے بھی غیر اخلاقی اور نازیبا باتیں ، لطیفے ہر طرف مقبولیت حاصل کیے ہوئے ہیں جس سے ہماری حسِ مزاح کی پستی کا بھی بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔

Facebook Comments

رابعہ احسن
لکھے بنارہا نہیں جاتا سو لکھتی ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply