بنتِ حوّاکی سادگی

مغرب نے اپنے معاشرے میں عورت کو حقوق اور آزادی کے نام پر ٹشو پیپر بنا کر رکھ دیا ہے جس سے اس کا احترام و مقام ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ اس کے برعکس مشرق میں اخلاقی اقدار و روایات کی بدولت اس کو ایک خاص مقام‘ عزت و احترام اور مسندِ امتیاز حاصل ہے۔ ماں‘ بہن‘ بیوی اور بیٹی جیسے رشتوں میں موجود اس وجود زن سے یہ کائنات رنگین ہے جس کی ناموس کی خاطر جان قربان کر دینا کوئی بڑی بات نہیں۔ جاہلیت میں جسے اچھوت اور ملیچھ کا درجہ حاصل تھا اسلام نے اسے تمام معاملات میں مردوں کا ہم رتبہ بنا دیا سوائے گھریلو سربراہ کے کیونکہ کسی بھی ادارے کا سربراہ ایک سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔ قرآن نے مرد و عورت کو ایک دوسرے کا لباس کہا معلم انسانیت و فخر کائناتﷺ دنیا سے رخصتی کے وقت بھی یہی تلقین فرماتے رہے کہ ان کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا اور نیک سلوک کرنا۔ معاشرے میں رائج فرسودہ خیالات اور مردانہ بالادستی کو ختم کرنے کے لیے یہ فرمایا کہ بازار سے جو چیز بھی لے کر آؤ پہلے اپنی بیٹی کو دو‘ جس نے اپنی بیٹی کی اچھی طرح تربیت کر کے اس کی شادی کر دی وہ جنّتی ہے۔انسان فطرتاً آزادی پسند ہے جبکہ مذہبی و معاشرتی پابندیاں اسے ایک حد میں رہنے پر مجبور کرتی ہیں اگر یہ ان بیڑیوں سے آزاد ہو جائے تو پھر انسان اور حیوان میں فرق مٹنے لگتا ہے‘ مقدس رشتے پامال ہونے لگتے ہیں اور بے راہ روی فروغ پانے لگتی ہے۔ لبرل سوچ رکھنے والے عناصر اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے معاشرے میں آزادانہ خیالات کو بڑھاوا دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور ان کو ششوں کو عملی جامہ پہنانے میں تعلیمی ادارے اور الیکٹرانک میڈیا آہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ماضی قریب میں لڑکے اور لڑکی کے درمیان پیغام رسانی اور ملاقات ایک انتہائی کٹھن مرحلہ ہوتا تھا جو عموماً راستے ہی میں کیدو کے کردار کی بدولت ناکامی سے دوچار ہو جاتا تھا۔ موجودہ دور میں مخلوط نظام تعلیم‘ موبائل اور انٹرنیٹ نے تمام کٹھن مراحل کو آسان کر دیا ہے۔ جنس مخالف کے لفظوں کے جال کی طرف مائل ہو کر شکار ہو جانا‘ پیار محبت عشق جیسے الفاظ اور افسانوں کو حقیقت سمجھ لینا بنتِ حوّا کی بہت بڑی کمزوری اور سادگی کا مظہر ہے۔ عقل کا پردہ اس وقت ہٹتا ہے جب سب کچھ کھو چکا ہوتا ہے اور یہ کہنا پڑتا ہے
یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا۔
کہا جاتا ہے کہ ایک نوجون لڑکی کے کانوں میں پیار‘محبت اور عشق کی آواز پڑی تو اس نے اپنی ماں سے ان کے متعلق پوچھا ماں نے ایک لمبی سی آہ بھری اور جواب دیا کہ بیٹی یہ کچھ بھی نہیں صرف مفت میں شہوانی خواہشات کی تکمیل کے بہانے ہیں۔ مجھے ایسے بہت سے قصے سن کر دکھ پہنچا جن میں کئی نوجوان لڑکیوں نے اپنا سب کچھ کھو دیا اور جرم کا مرتکب ہونے والے فخریہ انداز میں قصے سنانے والے شاید میرے قریبی جاننے والے تھے۔ یہ سب کچھ اتنا آسان ہو جائے گا کبھی کسی نے اس کا تصور بھی نہیں کیا ہو گاسوچ میں اتنی واضح تبدیلی آ جائے گی کہ مخلوط نظام تعلیم کی خامیاں خوبیاں بن جائیں گی، لڑکے اور لڑکیاں مشترکہ مطالعہ کی غرض سے ایکدوسرے کے گھروں کا رخ کریں گے وہ بھی والدین کی مرضی سے، موبائل میں موجود غیر محرم لڑکے اور لڑکیوں کے نمبرز پہ کوئی تعجب نہیں ہو گا، یہاں تک کہ مشترکہ ہاسٹل بھی بے عیب لگنے لگے گا۔ یقین کیجئے یہ سب کچھ لکھتے ہوئے میں بھی اپنے آپ کو تنگ نظر‘ تنگ ذہن‘ بنیاد پرست‘ دقیانوسی‘ قدامت پسند اور فرسودہ خیالات کا حامل محسوس کر رہا ہوں لیکن سچ یہی ہے۔ کتابوں میں درج ہے کہ جہاں دو مخالف جنس تنہائی میں موجود ہوں وہاں شیطان کی موجودگی بھی لازمی ہوتی ہے اور کیوں نہ ہو کہ یہی اس کا سب سے طاقتور اور کاری وار ہوتا ہے۔ اسی دشمن قوت نے بارگاہِ الہی میں بڑے فخر سے یہ کہا تھا کہ میں تیرے بندوں کو تیرا بننے سے روکوں گا چاہے مجھے دائیں سے آنا پڑے یا بائیں سے‘ اوپر سے آنا پڑے یا نیچے سے‘ آگے سے آنا پڑے یا پیچھے سے۔ جو لوگ جنس مخالف کے ساتھ تعلقات یا میل جول کو پاکیزہ رشتے یا دوستی کا نام دیتے ہیں میں انہیں چیلنج کرتا ہوں کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ دو غیر محرم ساتھ ہوں اور شہوانی خواہشات جنم نہ لیں۔ ایسے فنکار یا تو جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں یا پھر انہیں اپنا علاج کرانا چاہیے۔ ایک مشہور کالم نگار اور تجزیہ کار جو کہ سوشل میڈیا پر بھی کافی سرگرم ہیں‘ جن کی اکثر پوسٹیں موجودہ حکمرانوں کی حمایت میں ہوتی ہیں فرماتے ہیں کہ میں اپنے سکول کا پرنسپل تھا جہاں سارا سٹاف لیڈیز ہے۔ بڑا عرصہ نفس کے ساتھ زور آزمائی کرنے کے بعد بالآخر مجھے ہار مان کر سکول اپنی بیوی کے حوالے کرنا پڑا۔ کسی سے پوچھا گیا کہ عورت کا غیرمحرم مرد سے تعلیم حاصل کرنا جائز ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ”اگر استاد بایزید بسطامیؒ ہو طالبہ رابعہ بصری ؒ ہومضمون کلام اللہ ہو اور کلاس روم بیت اللہ ہو‘ پھر بھی جائز نہیں ہے“۔ پچھلے دنوں مشاہدہ میں آیا کہ دو نوجوان پہاڑوں کے دامن میں واقع ایک سنسان سے پکنک پوائنٹ پر اپنی دوست کی سالگرہ منانے آئے۔ غباروں اور دوسرے لوازمات سے لیس کیک کاٹنے کی پروقار تقریب کے بعد نیم عریاں اور بیہودہ لباس میں ایک طویل فوٹو شوٹ ہوا۔ حیا جسے عورت کا زیور کہا جاتا ہے اور جس کی وجہ سے وہ عورت ہے کا دور دور تک نام و نشاں نہیں تھا۔ یہی وہ واقعہ تھا جسے دیکھ کر مجھے بار بار بنتِ حوّا کی سادگی کا خیال آیا۔ سوچ کی تبدیلی کا اندازہ لگانے کے لیے میرا کئی دفعہ جی چاہا کہ میں ان لڑکوں سے دریافت کروں کہ اگر آپ کی کوئی عزیزہ اسی طریقے سے سالگرہ منانا چاہے تو آپ کا ردِّ عمل کیاہوگالیکن ہمت نہ کر سکا۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”بنتِ حوّاکی سادگی

Leave a Reply