امید، کوئی واہمہ تو نہیں !

ایک بار لغت کی کتاب میں قرآن کریم میں شیطان کے لئے مستعمل لفظ “ابلیس” کا مطلب نظر سے گزرا .. اسکے مطلب نے مجھے کئی دن کے لئے انتہائی گہری سوچ میں ڈالے رکھا … مجھے یوں لگا تھا کہ جیسے میں نے اپنی پچھلی جتنی زندگی گزاری وہ انتہائی بے سمت تھی اور مجھے اس لفظ کا مطلب جاننے کے بعد اب ایک الگ انداز سے اپنی سمت کا تعین کرنا ہوگا … افسوس اس بات کا تھا کے پہلے کیوں نہیں جان پایا اور خوشی اس بات کی کہ اگر میں نے اس لفظ کے پیچھے چھپے فلسفے کو پا لیا تو میں کبھی بھٹک نہیں سکتا … ابلیس کا مطلب تھا … “انتہائی نا امید اور مایوس ”
سو میں نے اس پر بہت سوچا اور میرے فہم میں یہ بات آئی کہ ہم جب جب کسی پریشانی ، کسی مسئلے مصیبت میں پھنس کر مایوسی اور نا امیدی کی جانب بڑھ رہے ہوتے ہیں تو دراصل میں ہم ابلیسیت کی طرف سفر کر رہے ہوتے ہیں ، اور ہمارا خداوند کے ساتھ رشتہ اسی صورت ہو جاتا ہے جس صورت شیطان کا خدا کے ساتھ ہے … غور کریں تو آجکل کی بیش تر نشر و اشاعت ہمیں اسی طرف دھکیل رہی ہے .. ہمارے سامنےجو منظر کشی ہے اس میں امیدبہت کم ہے۔
اس قدر نا امیدی اور بے سکونی کیوں کر ہے ؟ ہمیں روزانہ کی بنیاد پہ کیا فیڈ کیا جا رہا ہے اور کیوں کر ہمیں وہ سننے اور دیکھنے کو مل رہا ہے جو ہمارے جذبوں کو روندھ رہا ہے ؟کیوں کر ایسا فسوں طاری ہے کہ ہم ہر طرف سے نا امید ہوتے جا رہے ہیں …ہمیں کیوں ایسا بتایا جا رہا ہے کہ اب حالات بہتر ہونے کی کوئی صورت نہیں …اب رزاقی نہیں رہی اور اگلے وقت کی فکر ہمیں بےحال کیے ہوے ہے ..ہمارے فہم کو یرغمال بنا کر ہمیں کیوں ایسا بتایا جاتا ہے کہ اب کسی گناہ کی کوئی معافی نہیں ،محبتیں اب صرف ڈھونگ ہیں ،اب صرف تقاضے ہیں اور انکی تکمیل ہے، اب کی بار تمام کھیل ختم ہونے کو ہے اور اسکے بعد نا کوئی کھیل نا کوئی کھلاڑی ، کیوں یہ محسوس کروایا جاتا ہے کہ پچھلی نسلیں پریشان، اب کی نسل مایوس اور آنے والی نسلیں اجاڑ ہوں گی .. بدلاؤ کا کوئی راستہ نہیں ، اس معمے کا اب کوئی حل نہیں ، چارہ گر کے روپ میں بند ماضی کا ناگ چھپا بیٹھا ہے.. فریاد رساں اب یہاں سے کوچ کر چلے ہیں .. خدا ،یا تو وجود ہی نہیں رکھتا یا پھر وہ کب کا اس دنیا کو بھول بھٹک بیٹھا ہے، مسجد اور منبر سے وعید و دشنام کی صدائیں بلند ہوتی ہیں اور ایوان و عدلیہ پے موت جیسا گہرا اور مہیب سکوت طاری ہے ، اب روح کا قصّہ تمام ہوا ،بس ہر طرف جسموں کی راجدھانی ہے…ہر کسی کو اندھیرے کا سفر درپیش ہے اور اس سے کسی کو کوئی مکتی نہیں !کیا واقعی سب کچھ ایسا ہے ؟ کیا اب واپسی کی کوئی راہ نہیں ؟آخروہ کیا ہے جو &;missing ; ہے ، جسکی غیر موجودگی نے ایسی تمام سوچوں اور تفکرات کو جنم دے ڈالا …ان سب کے بیچ میں”امید” کہاں ہے ؟
چلیں مان لیا کہ ایسا ہی کچھ ہے ..تو پھر ہم اس اٹل حقیقت سے کیوں پردہ پوشی کر رہے ہیں اور کیوں ہم خود کو اس سچائی سے ناآشنا خیال کر رہے ہیں کہ &;change; یا تبدیلی اس کائنات میں سب سے مستقل شے ہے اور امید کی بیل کسی بھی زمانے ،مزاج، موسم اور تغیر کو خاطر میں لائے بغیر پروان چڑھ کر ہی رہتی ہے. یہ سب کچھ جیسا ہے ویسا یہ کبھی بھی نہ مستقل رہا ہے اور نہ رہے گا
انتہائی برے اور مایوس کن لمحات میں بھی خوشی مل سکتی ہے اور امید کی کرن نظر آ سکتی ہے اگر ہم بس اتنا یاد رکھیں کے ہم نے اپنے دلوں کے اندر شمع روشن رکھنی ہے …
اچھا وقت ضرور آے گا .. خوش حالی ان دریچوں سے بھی ضرور جھانکے گی جن کے آگے نہ جانے کب سے بے چارگی اور درماندگی کی دبیز چادر تنی ہوئی ہے …ہم وہ وقت ضرور دیکھیں گے جب تخت و تاج اچھالے جایں گے، جب انسانیت ہر مذہب اور مسلک سے بالاتر ہوگی اور ہر معبد کو فرسودہ عقائد اور غلط تشریحات سے پناہ مل جائے گی، اور خانقاہوں کو ان کے اصل جانشین مل جایں گے ، جب سکون و آشتی ہر گھر پے دستک دے گی ،جب مفاد کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی جائے گی خلوص امنڈ امنڈ کے آے گا ، جب غم ایک قصّہ پارینہ ہوگا، ہم کیف و سرور کو ہر دم اپنے اندر محسوس کریں گے ..اور آسمان پہ موجود ذات اور زمین پہ موجود خاک کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ ہوگا .. سو اے میرے لوگو ہم وہ وقت ضرور دیکھیں گے جب
جب ساری دنیا جوان ہو گی ..
اورہر ہنس ، ہنس راج ہو گا ..
ہر لڑکی ملکہ ہو گی ..
ہر نفس کی عزت ہوگی ..
ہر امکان میں رنگ بھرے گا ..
ہر چہرے پہ خوشی اور تمکنت کے سایے ہوں گے ..
ہر وجود غربت سے نا آشنا ہوگا ..
اورہر کوچوان کے پاس گھوڑے کے لئے خشک گھاس موجود ہو گی ..
اور وہ دنیا کے گرد چکر کاٹے گا ..
سو جان لو کہ ..
تاریخ کا جبر کتنا بھی بڑھ جائے ..
اور ظلم کی آندھی کس قدر ہی تیز کیوں نا ہو
جوان خون اپنی منزل کی طرف بہہ کر ہی رہتا ہے ..
اور
امیدیں بھر آ کر ہی رہتی ہیں !!!

Facebook Comments

اکرام بخاری
سید اکرام بخاری اباسین یونیورسٹی پشاور میں آڈٹ و فنانس کے شعبے سے منسلک ہیں، دنیا کے تمام علوم و فنون کی روح سے واقفیت حاصل کرنے کا جنون اورتجسس رکھتے ہیں کیوں کہ روحانیت کو سب سے مقدم جانتے ہیں اوراسی راہ کے سالک بھی ہیں !

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply