عورت کو حق دو ۔۔۔ محمد اشتیاق

“ہاں بھائی، بینرز اور پلےکارڈز ریڈی ہیں “، وجہیہ نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔

” ابھی بہت کم ہوئے ہیں، کافی بڑی گیدرنگ ہوگی ، بہت سارے چاہیے ہیں”۔

زمین پہ بچھے چارٹوں کے درمیان گھٹنوں کے بل بیٹھی فریحہ بڑے مارکر سے اپنے الجھے ہوئے بالوں کو کانوں کے پیچھے اڑستے ہوئے بولی۔ ڈھیلے ڈھالے پاجامے اور سفید ٹی شرٹ میں ملبوس فریحہ چوپایوں کے انداز میں پھرتی سے حرکت کر رہی تھی۔ ڈھیلا ڈھالا لباس اس کے اعضاء کی ہم آہنگی کو چھپا نہیں پا رہا تھا۔

“ابھی بھی رہتے ہیں ؟؟”

سانولے لمبے قد کے الجھے بالوں والے ادھیڑ عمر وجیہہ نے عینک کے فریم کے اوپر سے چارٹس اور فریحہ کا جائزہ لیتے ہوئے پوچھا۔

“ہاں ناں، آئیڈیاز نہیں آ رہے ”

فریحہ نے چارٹ پہ مزید جھکتے ہوئے افسردہ لہجے میں کہا۔ دبلی پتلی معصوم سی فریحہ یونیورسٹی سٹوڈنٹ، جو عورتوں کی آزادی کی اس مہم میں رضاکارانہ طور پہ شریک تھی ۔وہ  ہمیشہ سے اپنے جذبے اور محنت کی وجہ سے وجیہہ کی پسندیدہ ممبرتھی ۔

وجہیہ کے موبائل کی گھنٹی بجی۔ سکرین پہ “اماں جی” لکھا تھا۔ وہ جلدی سے فون لے کے دروازے سے باہر نکلا، اور اندر داخل ہوتی میڈم طاہرہ سے ٹکراتے ٹکراتے بچا۔

“افوہ، وجی ، دھیان سے، نیچے دینا ہے کیا ؟”

“ہاں  ناں۔۔ بائی دا وے۔۔  نائس کلیویج ”

ہنستے ہوے اس نے میڈم طاہرہ کی کھلے گلے سے جھانکتے حسن پہ نظر ڈالتے ہوئے خباثت بھری تعریف کی۔

“اوہ، تھینکس وجیہہ”

گھنٹی پھر بجی

“میں کال سن کے آیا، تم اندر چلو ”

“ہیلو۔۔ جی اماں جی؟”

“بیٹا کدھر ہے تو، میرے بازو میں پھر سے درد کی ٹیسیں اٹھ رہی ہیں ”

“اماں آج میں لیٹ ہو جاوں گا”

“وہ تو تم روز ہی ہوتے ہو”

“نہیں اماں ، کل خواتین کا عالمی دن ہے، اس کی تیاری کر رہے ہیں ”

“خواتین کا دن ہے تو، تم کیا تیاری کر رہے ہو؟  ان کو تم نے آزاد کرانا ہے؟”

(وجیہہ ہنستے ہوئے) ” نہیں اماں ، ہم شعور پیدا کر رہے ہیں ”

“بیٹا، تو ان کی آزادی سے فارغ ہو کہ جلدی آجا، میری طبیعت ٹھیک نہیں ”

“مونا، کہاں ہے؟  اسے کہیں آپ کو ڈاکٹر کے پاس لے جائے ”

“بیٹا، وہ بھی عورتوں کو آزاد کرانے گئی ہے کہیں ۔ بس دونوں میاں بیوی عورتوں کی آزادی میں لگے ہو”

“اماں، پیسے کا معاملہ ہے، آپ کو پتہ ہے آپ کے علاج پہ بھی کافی پیسے نکل جاتے ہیں”

“ہاں بیٹا، کافی خرچ ہوتا ہے، اور تمہارے تو ہر طرف ہی پیسے نکل رہے ہیں ”

“اماں میں مونا کو فون کرتا ہوں ، آپ فکر نہ کریں ”
“اچھا بیٹا، تیری مرضی۔ تو آجاتا تو اچھا تھا”

———————————————————————————————————

“کیا ہو رہا ہے بچوں؟” ، میڈم طاہرہ داخل ہوتے ہی پوچھا۔

“آئیڈیاز سوچ رہے ہیں پلے کارڈز کے لئے”

لینا نے مایوسی سے کہا۔

” لے تیری ملف آ گئی ”

سونیا نے اشعر کو کہنی سے ٹھوکتے ہوئے آہستہ سے کہا ۔ اپنی زندگی کے تیسرے عشرے میں ہونے کے باوجود طاہرہ  میڈم نے اپنا چارم کھویا نہیں تھا۔ عمر کے ساتھ بڑھنے والے وزن نے اسے مزید گریس فل بنا دیا تھا ۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا تھا وہ خود پہ توجہ بھی زیادہ دینے لگی تھی۔ وقت نے اس کو ڈھانپنے اور چھلکانے کے مواقع سمجھا دئیے تھے جس کے استعمال میں وہ طاق ہو چکی تھی۔ چھلکاؤ اور ڈھلکاؤ  کی ننگی تلوار سے صنف مخالف پہ کب اور کیسے وار کیا جاتا ہے، اس اچھی طرح سے سمجھ آ چکا تھا۔ مرد بلاتفریق عمر، اس کی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔ اشعربھی انہیں میں سے ایک تھا۔

” اررررے اتنے انٹیلیجنٹ اکٹھے ہیں پھر بھی؟ ”

میڈم حیرانگی سے بولیں۔

” ہر طرف مردوں کی گندی نظریں پھیلی ہیں، اس پہ ہی لکھ دو”

کئی نظروں نے ایکدم سے محور بدلا۔

“گڈ آئیڈیا۔۔  ایک پلے کارڈ ہو گیا ‘ نائس کلیویج ‘ ”

” نہیں یار، یہ تو پازیٹو ہے ، تھوڑی نیگیٹوٹی لاو ”

“ہمارے سینے کو مت گھورو”

”صحیح ہے ؟؟”

لوپھر فیشن کا فائدہ کیا؟”

میڈم  ہنستے ہوئے بولیں۔

“جسٹ کڈنگ ، اور بہتر کرو”

“اپنی آنکھوں کو ۔۔۔۔۔ وہ کرو، وہ کیا ہوتا ہے۔۔۔ ہاں یاد آیا۔۔ کور”

“اپنی آنکھوں پہ دوپٹہ باندھو ”

“گریٹ ” ۔۔۔ بہت ساری آوازیں آئیں۔

“کیا ہوا بھئی؟ ”

وجیہہ نے اندر داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔

“لگتاہے پلے کارڈ مکمل ہو گئے”

“مکمل کہاں سر۔۔  ابھی ایک پلے کارڈ کا ایک آئیڈیا فائنل ہوا ہے ”

“گڈ ” وجیہہ نے کارڈ کو غور سے دیکھا۔

طاہرہ نے نظریں وجیہہ پہ گاڑی ہوئی تھیں۔

فون کی گھنتی پھربجی۔ سکرین پہ ” اماں جی ” جھلملایا۔  وجیہہ نے جھنجھلا کر موبائل سائلنٹ کر دیا۔

“طاہرہ، تم کوئی آیئڈیا دو”

“میں؟؟؟”

طاہرہ نے اپنی نظروں میں اپنا ادھیڑ عمری کی ساری محبت یکجا کر کے پوچھا۔

“ہاں ، تم ”

گھنٹی پھر بجی۔

طاہرہ کے ذہن میں گزشتہ رات کا وہ منظر گھوم گیا جب  وجیہہ نے اس کے جسم کو محسوس کرتے ہوئے  کہا تھا ” ویٹ بڑھ گیا ہے تمہارا”۔

“اور یہ اندازہ تم نے کیسے لگا لیا؟ ” طاہرہ نے اپنے عمر رسیدہ ہونے کے راڈار آن کرتے ہوئے کہا۔

“میں نوٹ کر رہا ہوں کہ تم سے اب صحیح بیٹھا بھی نہیں جاتا” وجیہہ نے آنکھ مارتے ہوئے جواب دیا۔

طاہرہ گزشتہ شب سے واپس حال میں آ پہنچی۔

“فریحہ ایک اور آئیڈیا پلے کارڈ کا ”

“جی میڈم؟” فریحہ تجاس سے بولی۔

” لو میں صحیح سے بیٹھ گئی ”  طاہرہ نے وجیہہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔ چشم زدن مین وجیہہ کے دماغ کے پردے  پہ پچھلی رات کے واقعات ایک جھماکے سے گزر گئے ۔

اتنے میں فون کی گھنٹی پھر بجی۔

“جی اماں جی” و جیہہ نے فون اٹینیڈ کیا۔

“ڈیڈ ، میں بول رہی ہوں ، دادو گر گئی تھیں اور بول نہیں رہیں۔ میں کتنی دیر سے انہیں اٹھا رہی ہوں ”

“بیٹا مما کو کہو ، ڈاکٹر کو بلائیں ، میں بس آ نکل رہا  ہوں ”
” مما  گھر پر نہیں ہیں ڈیڈ۔۔ ہیلو۔۔۔ ڈیڈ۔۔  مجھے لگتا ہے دادو آف ہو گئی ہیں ”

” ایسے نہیں کہتے  بیٹا۔  ڈرائیور کو بلاؤ   اور اسے کہو دادو کو ہاسپٹل لے جائے ”

” ڈیڈی وہ کہتا ہے ، دادو آف ہو گئیں ”

“کیا؟ فضول باتیں مت کرو۔  ایسا نہیں ہو سکتا ۔ میں ابھی آتا ہوں۔  ڈرائیور کو کہو دادو کو گاڑی میں ڈالے میں ہاسپٹل پہنچ رہا ہوں۔  جلدی کرو، دیر بالکل نہیں  لگانی ”

وہ مسلسل بولے جارہا تھا۔ اب تک سارے لوگ اسے دیکھ رہے تھے پر اسے کوئی نظر نہیں آرہا تھا۔ وجیہہ کی کانوں میں بار بار “آجاتا تو اچھا تھا” گونج رہا تھا

اس کا سر چکرایا ، دیوار کا سہارا لیتا ہوا وہ سٹول پہ بیٹھ گیا ۔ سارے کمرے میں خاموشی چھا گئی سب کی نظریں وجیہہ پہ تھیں۔

“ڈیڈی ، ہیلو ڈیڈی”

” اب ہم مدر ڈے پہ کیک والی سیلفی کس کے ساتھ بنائیں گے ؟؟ ”

وجیہہ نے سر اٹھایا سامنے پلے کارڈ تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

” عورت کو اس کا حق دو”

Facebook Comments

محمد اشتیاق
Muhammad Ishtiaq is a passionate writer who has been associated with literature for many years. He writes for Mukaalma and other blogs/websites. He is a cricket addict and runs his own platform ( Club Info)where he writes about cricket news and updates, his website has the biggest database of Domestic Clubs, teams and players in Pakistan. His association with cricket is remarkable. By profession, he is a Software Engineer and has been working as Data Base Architect in a Private It company.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply