سفر نہ ماں

سوچا تھا کبھی سفر پہ نکلے تو ایسا سفر نامہ لکھیں گے کہ لوگ سر دھنتے رہ جائیں گے اور حریفوں کے سفر ناموں اور قیام ناموں کو بھول جائیں گے لیکن سفر نامہ لکھنے بیٹھے تو لکھا “سفر نہ ماں” گیا۔ اس کی بھی خصوصی وجہ ہے ۔ جب آپ پڑھیں گے تو آپ بھی میرے خیالات کی تائید کریں گے۔ میرے سفر جیسا سفر شاید ہی کسی نے کیا ہو ۔ لاہور سے میرے گاؤں تک کا یہ سفر انتہائی دلچسپ اور غور کرنے کے قابل ہے ۔ میں تو غور کر چکا اب آپ کی باری ہے۔ امید ہے آپ میرا ساتھ دیں گے ۔ واللہ گھر سے موٹر سائیکل پہ نکلیں تو ایسا میک اپ خود بخود ہو جاتا ہے کہ گھر والے اور دوسرے لوگ تو کیا بندہ خود اپنے آپ کو آئینے میں دیکھ لے تو خود کو پہچاننا ایک الجبرا کا سوال جو کہ انتہائی گھمبیر ہوتا ہے وہ بن جاتا ہے ۔ اس میک اپ کا انتظام لاہور کمیٹی اور تقریبا پورے پنجاب کی کمیٹی نے مفت کر رکھا ہے تاکہ غریب اس سے بھر پور فائدہ اُٹھا سکیں کیوں کہ غریب فیشن ہاؤسز کا اور بیوٹی پارلرز کا خرچہ برداشت نہیں کرسکتے اس لیے پنجاب حکومت نے انتہائی سوچ و بچار کے بعد یہ سہولت مفت فراہم فرما دی۔ اس میں مزید ترقی کی امید ہے۔
جناب جب میں لاہور کی حدود سے باہر نکلا تو وہ سڑک جس کو میں آخری بار صحیح سلامت دیکھ کے آیا تھا وہ اُکھڑی ہوئی تھی۔ ادھ بنی سڑک پہ سفر کرنا واللہ مزہ ہی آگیا۔ آپ کبھی ایسی سڑک پر سفر کیجیے گا یقین جانیے ورزش کرنے کی بالکل ضرورت پیش نہیں آتی اور اگر آپ تھوڑے موٹے ہیں تو پھر تو ضرور آزما کے دیکھیں۔ قارئین میرا یہ سفر قصور میں واقع ایک گاؤں کی طرف ہے۔ قصور تک سفر تو معمول کے مطابق ہوا کیوں کہ سڑک بھی سلامت تھی اور رش بھی کم تھا۔ سارا سفر مچھروں کے ساتھ مڈ بھیڑ میں گزرتا چلا گیا۔ مچھر بیچارے آنکھوں کی طرف دوڑتے چلے آتے تھے اور عینک کو کوستے چلے جاتے تھے کیوں کہ عینک ان کی شہادت کی راہ میں رکاوٹ بنی کھڑی تھی۔ کچھ مچھر بیچارے میرے کپڑوں کو ململ کا بستر سمجھ کے لمبی تان کے سو گئے اور جب میں نے گھر پہنچ کر انھیں جگایا تو ان کے تو اوسان خطا ہو گئے کہ نہ جانے کس دیس میں آٹپکے ہیں۔ قصور کے حوالے سے میں غلط فہمی دور کر دینا مناسب سمجھوں گا کہ لوگ سمجھتے ہیں قصور کی صرف دو چیزیں مشہور ہیں، ایک فالودہ اور دوسرے اندرسے لیکن یہ قصور کے مچھر کو بھول ہی گئے ہیں۔ ٹینریر کے پانیوں پہ پلنے والا یہ مچھر اللہ اللہ۔۔ کبھی آپ قصور میں قیام فرمائیں تو مچھر کی خصوصیات خود بخود جان جائیں گے۔ اب میں آپ کو لیے چلتا ہوں اپنے شہر کے ہمسائے شہر میں۔۔ سکولوں اور کالجوں کے حوالے سے اس کی ترقی نا قابل بیان لیکن عقل و شعور سے بالاتر ہے، جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر ،گٹر کھلے ہوئے، بدبو ہی بدبو ہر طرف پھیلی ہمارا استقبال کر رہی تھی، معلوم نہیں کہ کونسا پنجاب ترقی میں سب سے آگے ہے ۔ یہاں تو نہ سڑکیں صاف ہیں اور نہ گلیاں اور تو اور سرکاری ہسپتال آپ کو ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا۔ ارے بھئی ہو گا تو ملے گا نا۔۔ پنجاب کے اکثر و بیشتر علاقوں کی حالت نا قابل بیان ہے۔ میرے عزیر قارئین واپسی پر ہم مختلف دیہات سے گزرتے ہوئے آئے جن میں سڑک نام کی کوئی چیز واقع نہیں ہوئی، ہر جگہ گندہ پانی کھڑا ہے، معلوم نہیں کس جگہ ڈینگی کے خلاف جنگ ہو رہی ہے، بیماریوں نے ہر جگہ ڈیرے لگائے ہوئے ہیں، نہ عوام میں شعور ہے اور نہ حکام میں۔ اگر آپ کو کہیں کوئی ہسپتال نظر آ بھی جائے تو اس کی حالت اتنی گئی گزری ہے کہ علاج کی بجائے بندہ بیمار ہو کے واپس جائے گا ۔ قصور کو ترقی یافتہ سمجھا جاتا ہے تو یہ ہے قارئین اس ترقی کی داستان۔ قارئین اگر آپ سفر کا ارادہ رکھتے ہیں اور وہ بھی موٹر سائیکل پر تو آپ یہ ارادہ میری تجویز پر ترک فرما دیں کیوں کہ جو مزہ لمبی تان کے سونے اور قصے کہانیاں پڑھنے کا ہے وہ سفر میں کہاں، خاص طور پر پاکستان میں۔۔ ہوگئے نا آپ بھی میرے ہم خیال “سفر نہ ماں” (آئندہ سفر نہیں ماں)۔

Facebook Comments

نعیم الرحمان
کم عمر ترین لکھاری ہیں۔ روزنامہ تحریک کے لیے مستقل لکھتے ہیں ۔ اور سب سے بڑھ کر ایک طالب علم ہیں ۔ اصلاح کی غرض سے لکھتے ہیں ۔ اسلامی نظریے کو فروغ دینا مقصد ہے ۔ آزادی کو پسند کرتے ہیں لیکن حدود اسلامی کے اندر۔ لبرل ازم اور سیکولرزم سے نفرت رکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply