اداکاروں میں سہیل اصغر اور قیصر نقوی تو طلب علم کے دور سے میرے دوست ہیں بعد میں خیام سرحدی کے توسط سے جمیل فخری دوست بنے تھے جو خیام سے زیادہ قریبی دوست ثابت ہوئے تھے۔ یعنی بہت پہلے کی بات ہے جب اپنے گھر بیٹھے مجھ سے گپ لگاتے فخری نے کہا تھا کہ ڈاکٹر یار مجھے ڈرامے کی ریہرسل پر جانا ہے، چلو ساتھ ہی الحمرا چلتے ہیں، بعد میں کمپنی کریں گے۔
وہ ہال کے اندر چلا گیا تھا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ میں ریہرسل دیکھتے ہوئے بور ہی نہیں ہوں گا بلکہ ذومعنی مکالموں پر جھنجھلاؤں گا بھی، اس لیے وہ مجھے لابی میں عرفان کھوسٹ کے ساتھ چھوڑ گیا تھا۔ یہ سوچ کر کہ کھوسٹ صاحب میرے سینئر راوین ہیں میں نے ان سے پوچھا تھا کہ تھیٹر ابتذال کا شکار کیوں ہے اور ذومعنی فقروں جنہیں عرف عام میں”جگت بازی” کہتے ہیں، سے کام کیوں چلایا جاتا ہے؟ انہوں نے کہا تھا کہ یہ ” پبلک کی ڈیمانڈ ” ہے۔
میرا موقف یہ تھا کہ اچھا ڈرامہ نگار پبلک کی ڈیمانڈ متعین کرتا ہے نہ کہ پبلک کی ڈیمانڈ کے تحت لکھتا ہے۔ پبلک کی ڈیمانڈ کے تحت چلنا کمرشل ازم ہے اور پبلک کی ڈیمانڈ بنانا فرض، ادب و فن کا فروغ اور عوامی ذہنیت کی تہذیب و اصطلاح وغیرہ وغیرہ۔ بہرحال اتنے میں فخری آ گیا تھا اور ہم نکل گئے تھے۔
یہ بات اب مجھے کیوں یاد آئی؟ پاکستان کے نئے چینلوں پر نام نہاد مزاح کو آفتاب اقبال نے “خبرناک” نام کے پروگرام سے متعارف کروایا تھا (حسب حال نسبتاً مناسب پروگرام تھا جو ان کا پہلا ایسا پروگرام تھا)۔ اس پروگرام میں وہ اپنی علمیت کی دھاک بٹھانے کے ساتھ ساتھ تین چار مزاحیہ اداکاروں کی مدد لیتے تھے۔ یہ اداکار ظاہر ہے مصنف کے لکھے ” پلاسٹک دا باندر” اور ” تیرا پھپھا لگتا ہوں” قسم کے الفاظ بھی بولتے تھے۔ پھر یہ لہر چل نکلی اور اب پروگرام حسب تک اس وبائی مرض میں مبتلا ہو چکا ہے۔
ان سبھی پروگراموں میں مزاح کی سطح بھانڈ پن سے نکل کر نہیں دیتی۔ درست کہ جگت بازی پنجاب کی ثقافت رہی ہے مگر پرانے دنوں میں جب بہت چینل نہیں ہوتے تھے، شادیوں بیاہوں میں آنے والے بھانڈ یا تو سیاسی جگت بازی کرتے تھے یا دولہا اور اس کے رشتے داروں سے متعلق۔ انہیں بہت زیادہ تنوع کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ چینلوں پر دکھائے جانے والے ایسے پروگراموں میں تنوع پیدا کرنے کے لیے بہت کچھ ایسا کہا جاتا ہے جو مزاح سے گرا ہوتا ہے۔
یورپ اور خاص طور پر روس میں مزاح کی سطح بہت بلند ہے جس میں سٹیج اور ٹی وی پر طنز گوئی کا مقام بہت ارفع ہے۔ یہ بات نہیں کہ مغرب میں جگت بازی نام کی کوئی شے نہیں مگر مزاحیہ پروگراموں میں اس طرح کا اگر ایک فنکار موجود ہوگا تو مزاح اور طنز بارے سنجیدہ اداکار تین ہونگے۔ یہ بات تناسب کی مثال کے لیے کی ہے میں نے۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں ایسے پروگراموں میں جگت باز زیادہ ہوتے ہیں۔
اب آتے ہیں اصل بات کی جانب۔ کل میں نے اتفاق سے ٹی وی چینل جیو لگایا تو پروگرام “خبرناک” چل رہا تھا۔ عائشہ جہاں زیب نے جب فرانز کافکا کا نام لیا تو میرے کان کھڑے ہوئے۔ میں نے متعلقہ “فنکاروں” کو جب ٹھٹھہ اڑاتے دیکھا تو سوشل میڈیا پر یہ پوسٹ لکھ دی ” ٹی وی پر اتفاق سے ” خبرناک ” لگا ہوا ہے جس میں فرانز کافکا کی کہانی میٹامارفوسس سنا کر اس کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ حد ہے بھئی، اسے عجیب اور نحوست بھرا ادیب بتایا جا رہا ہے”۔
مجھے نہیں معلوم تھا کہ پروگرام لکھنے والا کون ہے۔ ہمارے دوست ظفر عمران نے یہ پوسٹ ذیشان حسین کو ٹیگ کر دی، جو جیو کے پروڈیوسر اور اچھا لکھنے والے ہیں۔ معلوم ہوا کہ انہوں نے ہی فرانز کافکا کو ” عوام ” میں متعارف کروانے کا کارنامہ کیا ہے۔ جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں، ” آپ سب لوگ اتنے اچھے سیگمنٹ کے ساتھ وہی کر رہے ہیں جو منٹو کے ساتھ فحاشی کے مسئلہ پر ہوا تھا۔ شاید کسی کو کافکا کی کہانیوں میں نحوست کا مطلب نہیں آ تا جسے بڑے بڑے ناقدین نے زندگی کی فطری نحوست کہا ہے اور یا ہمارا مزاج بن گیا ہے کہ خوامخواہ کسی نظریہ کے مامے بن جاتے ہیں۔ جس نے یہ سیگمنٹ دیکھنا شروع کیا اس نے پہلے دو منٹ میں اس مزاح کو دیکھ کر رائے قائم کر لی کہ اوہو کافکا کے ساتھ ظلم ہوگیا اور جس نے سنا اس کو کافکا کی کاف بھی پتہ نہیں ہوگا اور چل پڑا پروگرام پر تبرے بھیجنے۔ کافکا، ایلبی، دستیاوسکی، پشکن، چیخوف، گورکی، موپساں، فلابیئر، ہنری، ٹالسٹائی۔۔ میں نے آ نکھ ان ادیبوں میں کھولی ہے جناب۔ خاطر جمع رکھیے۔ کچھ نہیں بگڑے گا کافکا کا۔ چار لوگ اس کے افسانے اور ناول پڑھیں گے ہی۔ آ پ کی طرح اس کی کہانیوں کے دور میں دوڑتی زندگی کی نحوست کا انکار شاید نہ کریں۔ پورا سیگمنٹ دیکھیے اور پھر کوئی رائے قائم کریں۔ مذاق اور مزاح کو سمجھیے۔ مجھے تو چڑ ہونے لگ گئی ہے خود ساختہ اخلاقیات اور ادب کے پیامبرو ں سے یعنی پیسے ملیں گے اگر مذاق اُڑے گا۔ کافکا پر مزاح پیدا کرنا یا کافکا کو آ ج سے متعلق کرنا مزاحیہ پروگراموں میں سوچا نہیں جاتا۔ دوسرے مزاحیہ پروگراموں میں دونوں ہاتھوں سے معذور انسان چوتڑوں پر خارش کرنے کو ترستا ہے اور اس سے کامیڈی پیدا کی جاتی ہے وہاں آ پ لوٹ پوٹ ہو جاتے ہیں اور جہاں کافکا پر بات کر لی تو پسو پڑ گئے۔ پہلے پورا سیگمنٹ دیکھیے۔ ”
ان کے لہجے اور نامناسب الفاظ سے ہٹ کر معاملہ صرف اتنا ہے کہ فرانز کافکا جیسا ادیب عام لوگوں میں جگہ پانے والا ادیب ہے ہی نہیں۔ روس میں کتابیں پڑھنے والوں کی تعداد آج بھی دنیا میں سب سے زیادہ ہے مگر کافکا کو پڑھنے والے بہت کم ہیں اور جنہوں نے پڑھا بھی ان میں سے بھی اکثر نے اسے عجیب و غریب ہی جانا ہے۔ ہمارے مہربان ذیشان حسین نے بہت سے ادیبوں کا ذکر کیا جن کے درمیان بقول ان کے انہوں نے آنکھ کھولی مگر ان میں ژاں پال سارتر، آندرے ژید، یاں یینے، البرت کامیو، البرتو موراویا کا ذکر نہیں ہے جو وجودیت پسندی کے سبب فرانز کافکا کی زندگی کے لایعنی پن کے احساس سے قریب تر ہیں۔ لایعنی پن یعنی Absurdity کا احساس بہت کم لوگوں کو ہوتا ہے۔
فرانز کافکا کا تعارف کسی سنجیدہ یا ادبی پروگرام میں کرایا جانا مناسب ہے، ویسے پڑھنے والوں میں فرانز کو متعارف کروانے کی تک نہیں بنتی کیونکہ پڑھنے والے خود متلاشی ادب ہوتے ہیں اور وہ کلاسیک ادیبوں کو خود ڈھونڈ لیا کرتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں