قوموں کے مزاج کی عکاس دو فلمیں

غالباً دسمبر2013میں جاوید چوہدری صاحب کا ایک کالم پڑھا جو بھارتی اتھلیٹ ملکھا سنگھ اور پاکستانی اتھلیٹ عبدالخالق کے حالات زندگی پر لکھا گیا تھا، اس میں ملکھا سنگھ کی زندگی پر بننے والی بالی ووڈ فلم بھاگ ملکھا بھاگ کا بھی تذکرہ پڑھا تو فوراً انٹرنیٹ پر فلم تلاش کی اور دیکھنے بیٹھ گیا ،جوں جوں فلم چلتی جا رہی تھی دل کی دھڑکن تیز ہوتی جا رہی تھی ،فلم کے کئی مناظر آنکھیں نم کرنے کا باعث بنے ،فلم تو خیرتین گھنٹے کی ہے ممکن ہے بہت سارے قارئین نے دیکھی بھی ہو لہذا پوری کہانی کی طوالت سے بچتے ہوئے قصہ مختصراً بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔1935میں پاکستان کے ضلع مظفر گڑھ میں پیدا ہو نے والے ملکھا سنگھ کے خاندان کے بیشتر افرادتقسیم ہند کے دوران فسادات کی نذر ہوئے اور وہ بمشکل بھارت پہنچنے میں کامیاب ہوئے، ابتدائی کچھ عرصہ مشکلات برداشت کرتے بالآخر بھارتی فوج میں بھرتی ہوئے اور دودھ اور انڈے کی خواہش میں پہلے فوج کے اتھلیٹ بنے اور پھر انڈیا کے قومی ہیرو ، ملک کے لئے ساؤتھ ایشین گیمز میں بے شمار اعزازت جیتے ،بہت نام کمایا اور بالآخر1960میں لاہور میں منعقدہ انڈو پاک ریس میں پاکستانی اتھلیٹ عبدالخالق کو شکست دے کر پاکستانی صدر ایوب خان سے فلائنگ سکھ کا خطاب پایا، بھارت نے ملکھا سنگھ کو ملک کے چوتھے بڑے سول ایوارڈ پدما شری سے نوازا اور جب وہ78سال کی عمر میں ریٹائرڈ زندگی گزار رہے تھے ان کی زندگی پر فلم بنا کر تاریخ میں ہمیشہ کے لئے ان کے کردار کو زندہ کر دیا گیا، ایک زندہ قوم کی طرف سے اپنے ہیرو کے لئے اس سے بڑا خراج تحسین شاید ممکن نہ تھا ، اسی کہانی کا دوسرا رخ بہت المناک ہے۔ کہتے ہیں کہ ملکھا سنگھ کے ہم عصر پاکستانی اتھلیٹ عبدالخالق ملکھا سنگھ سے بڑے اتھلیٹ تھے، ملکھا سنگھ اپنے کیرئیر میں اولمپکس اور عالمی مقابلہ جات میں کوئی بھی ٹائٹل اپنے نام نہ کر سکے جب کہ عبدالخالق کو نہ صرف ایشیاء کا تیز ترین انسان ہونے کا خطاب دیا گیا بلکہ اولمپکس اور عالمی مقابلوں میں بھی ان کا نام گونجتا رہا اور انہوں نے کئی ایک عالمی ریکارڈ قائم کئے لیکن ہم نے اپنی قومی روش کے عین مطابق عبدالخالق کو بھلا دیا ، جاوید چوہدری لکھتے ہیں کہ ہماری اس سے بڑی بد قسمتی اور کیا ہو گی کہ ہمیں اپنے لیجنڈز کے نام بھی بھارتی فلموں کے ذریعے معلوم ہوتے ہیں۔ آج کوئی نہیں جانتا کہ عبدالخالق کہاں ہیں، زندہ ہیں یا خالق حقیقی سے جا ملے، اور اگر زندہ ہیں تو کس حال میں ہیں۔ جب میں نے یہ فلم دیکھی، دل چاہا کہ ارباب اختیار کاگریبان پکڑوں اور اس پرمضمون لکھوں اور اپنی عوام کا ضمیر جھنجھوڑ دوں کہ ہم اتنے احسان فراموش کیوں ہیں؟ کیا ہم اپنے قومی ہیروز کو ان کا جائز مقام نہیں دے سکتے لیکن کچھ دوستوں اور گھر والوں کے سامنے دل کا غبار نکال کر چپ ہو رہا اور آہستہ آہستہ میں بھی بھول گیا لیکن چند دن قبل یہ زخم پھر تازہ ہو گیا جب یوٹیوب پر ایک پاکستانی فلم شاہ کا ٹریلر دیکھا، ٹریلر میں کشش تھی ، فلم تلاش کر کے دیکھنا شروع کی تو انتساب ہی نے جکڑ لیا، پاکستان کے ان تمام گمنام ہیروز کے نام جن کی کہانیاں بھلائی جا چکی ہیں عدنان سرور کی تحریر اور ہدایت کاری میں بننے والی فلم شاہ باکسنگ میں پاکستان کی طرف سے پانچ سال تک ساؤتھ ایشین چیمپین رہنے والے اور50سالوں میں اولمپکس میں انفرادی میڈل لانے والے واحد کھلاڑی سید حسین شاہ کے حالات زندگی پر بنائی گئی ہے ۔ ایک ایسا سٹار جو دو وقت کی روٹی کے لئے لیاری کے فٹ پاتھ سے باکسنگ رنگ میں پہنچ گیا تھا ، پورے کیرئیر میں سرکاری تنخواہ سے محروم رہا ، صرف دو وقت کی روٹی کی خاطر،ہاں انڈین چیمپین سے انڈیا میں جیتنے کے بعد اس وقت کی وزیراعظم سے جوتوں کا ایک جوڑا بھی انعام میں ملا تھا ۔ ملک کے لئے اتنے اعزازات جیتنے والے کو ہم نے کیا دیا ، بیس ہزار روپے کیش دے کر ریٹائرڈ کردیا، جب فیڈریشن افسران کے دفاتر کے چکر لگائے تو ایک پلاٹ کی فائل تھما دی اور کاغذات کے نام پر وہ بیس ہزار بھی واپس لے لیے گئے، شاہ حسین پلاٹ ڈھونڈنے نکلے تو وہاں پہلے سے ہی کوئی قابض تھا اور افسران کی ملی بھگت سے پلازہ کھڑا کر چکا تھا۔ ہزاروں گمنام ہیروز کی طرح فٹ پاتھ سے شروع ہونے والا سفر بین الاقوامی شہرت کی بلندیوں کو چھونے کے بعد فٹ پاتھ پر ہی ختم ہو جاتا ہے لیکن پھر قدرت کو سید حسین شاہ پر رحم آگیا، ایسی حالت میں جب وہ ایک بلڈنگ میں مزدوری کر رہے تھے کسی جاننے والے کے ریفرنس سے فری سٹائل باکسنگ کے لئے انگلینڈ پہنچ گئے، کچھ عرصہ وہاں کھیلنے کے بعد جاپان کی باکسنگ فیڈریشن نے انہیں اپنا کوچ بنا لیا وہ تاحال ٹوکیو میں مقیم ہیں اور ان کے کئی شاگرد انٹرنیشنل چیمپین بن چکے ہیں، ان کی وطن سے محبت کا اب بھی یہ عالم ہے کہ ان کا بیٹا پاکستان کی طرف سے کامن ویلتھ گیمز میں کھیلا اور سلور میڈل حاصل کیا ، میں ذاتی طور پر ان کی حب الوطنی کو سلام پیش کرتا ہوں اور عدنان سرور کا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے نہ صرف تاریخ کی گرد میں دفن ایک کہانی کو دوبارہ سے زندہ کیا بلکہ فلم سے حاصل ہونے والی آمدنی سے سید حسین شاہ کو ان کے قبضہ شدہ پلاٹ کی رقم آج کی مارکیٹ ویلیو کے مطابق پیش کی۔ ان کے نام پر لیاری میں سالانہ باکسنگ ٹورنامنٹ کا آغاز کیا اور لیاری کے کئی بچوں کی تعلیم کا بندوبست کیا ۔
بحیثیت قوم ہمارا ماضی ایسی ہی ان گنت داستانوں سے بھرا پڑا ہے اور ہمارا سرکاری و انفرادی رویہ محسن کشی سے عبارت ہے، محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر سمیت کتنے ایسے ہیں جو رسوائی کا درد دل میں لیے آخری سانسوں کا انتظار کر رہے ہیں ،کسب معاش کے لئے بیرون ملک چلے گئے ہیں یا پھر کسمپرسی کی حالت میں اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں، میں سمجھتا ہوں عدنان سرور کی فلم تپتے صحرا میں بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہو سکتی ہے اگر ہم بحیثیت قوم اپنے محسنوں اور ہیروز کی قدر کرنا سیکھ جائیں، ان کی زندگی میں بروقت ان کی خدمات کا جائز صلہ دینا شروع کر دیں، ان کو اپنے شعبہ میں نئے آنے والوں کی تربیت پر لگا دیں اور ان کو اس کا معقول معاوضہ دیں تاکہ وہ اپنی زندگی کے آخری دن بے کسی اور مختاجی میں نہ گزاریں اور آئندہ کوئی ہیرو اپنے میڈلز کسی کباڑیے کو بیچنے پر مجبور نہ ہو۔ ہر وہ پاکستانی جو انڈیا کو اپنا ازلی دشمن سمجھتا ہے اور اپنے دل میں اس کے لئے نیک خواہشات رکھتا ہے وہ یہ جان لے کہ قوم کو قوم بنانے کے لئے جو رویے درکار ہیں ان میں ہم ابھی بہت پیچھے ہیں۔ جو میری رائے سے متفق نہیں وہ حقیقی کہانیوں پر بنائی گئی مذکورہ دونوں فلمیں ضرور دیکھیں۔ حقیقت میں یہ محض دو فلمیں نہیں بلکہ سرحد کے دونوں اطراف پائے جانے والے رویوں کا حقیقی عکس ہیں۔

Facebook Comments

توصیف احمد
گزشتہ آٹھ سال سے مختلف تعلیمی اور رفاہی اداروں کے ساتھ کام کر رہے ہیں ۔ آج کل پاکستان کی ملک گیر این جی او الخدمت فائونڈیشن کے سینئیر پروگرام مینیجر کے عہدے پر فائز ہیں۔ بچوں اور یوتھ کی کردار سازی کے لئے ٹرینر کے فرائض سرانجام دیتے ہیں ۔لکھنے سے زیادہ پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں اور سیر و سیاحت اور دوستیاں بنانے کے فن کے ماہر ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply